’عیدِ بربارہ‘: والد کی قید سے فرار اور پھر عقیدے کی بنیاد پر قتل کی جانے والی خاتون جنھیں مسیحی عقیدے میں ’مشکل کُشا‘ کہا جاتا ہے

روایات کے مطابق بربارہ ایک رئیس رومی کی بیٹی تھیں، جنھیں والد نے نظرِ بد سے بچانے کے لیے ایک بلند مینار میں قید کر دیا تھا۔ وہاں سے قدرت کے مشاہدے نے انھیں اس یقین تک پہنچایا کہ خدا بُت نہیں ہو سکتا۔ ایک مسیحی استاد نے انھیں انجیل سے روشناس کرایا اور وہ مسیحی عقیدے پر قائم ہو گئیں۔
مسیحی ان کی یاد میں دن مناتے ہیں اور کلیساؤں میں خصوصی اجتماع منعقد ہوتے ہیں
Getty Images
مسیحی ان کی یاد میں دن مناتے ہیں اور کلیساؤں میں خصوصی اجتماع منعقد ہوتے ہیں

’ہاشلہ بربارہ مع بنات الحارہ‘۔یہ مصرع لبنانی گلوکارہ صباح کے مشہور گیت کا ہے، جو ہر سال دسمبر میں لبنان اور شام کے دیہات میں لوگوں کی زبان پر عام ہوتا ہے۔

سینٹ بربارہ کا دن مسیحی کلیساؤں کی قدیم ترین روایات میں شمار ہوتا ہے۔ مغربی کلیسا جیسے ’مارونی‘ اور ’کیتھولکس‘ اسے چار دسمبر کو مناتے ہیں جبکہ مشرقی کلیسا جیسے ’رومی آرتھوڈوکس‘ 12 دسمبر کو جبکہ قبطی مسیحی اسے ماہ کیہک کی آٹھ تاریخ کو مناتے ہیں جو عموماً دسمبر میں آتی ہے۔

اس رات بچے ٹولیوں کی صورت میں گلیوں اور بازاروں میں نکلتے ہیں، گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں اور روایتی نغمے گاتے ہیں جن کا مشہور جملہ ’ہاشلہ بربارہ مع بنات الحارہ۔۔۔‘ ہے۔

یہ اشعار نسل در نسل منتقل ہوتے آئے ہیں اور صباح کا گایا ہوا گیت آج بھی ہر سال سننے کو ملتا ہے۔

گھروں میں اس موقع پر گیہوں اُبال کر اس میں کشمش، بادام، اخروٹ، چینی اور دارچینی ملائی جاتی ہے۔ قطائف، معکرون اور عوّامات جیسی مشہور مٹھائیاں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ماضی میں اس موقع پر لوگ چہروں پر رنگ ملتے تھے اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر چکر لگاتے تھے، بالکل ہیلووین جیسے تہوار کی طرح۔

سینٹ بربارہ کون تھیں؟

بربارہ کی کہانی حقیقت اور اساطیر کا امتزاج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ تیسری صدی عیسوی میں موجود تھیں، مگر اُن کی یاد کا جشن منانے کا سلسلہ ساتویں صدی سے شروع ہوا۔

بعض روایات ان کی جائے پیدائش بعلبک (لبنان) بتاتی ہیں اور بعض نیکومیدیا (ترکی)۔ فلسطین کے گاؤں ’عمود‘ میں لوگ ہر سال اُن کے مزار پر چراغ روشن کرتے ہیں۔

روایات کے مطابق بربارہ ایک رئیس رومی کی بیٹی تھیں، جنھیں والد نے نظرِ بد سے بچانے کے لیے ایک بلند مینار میں قید کر دیا تھا۔ وہاں سے قدرت کے مشاہدے نے انھیں اس یقین تک پہنچایا کہ خدا بُت نہیں ہو سکتا۔ ایک مسیحی استاد نے انھیں انجیل سے روشناس کرایا اور وہ مسیحی عقیدے پر قائم ہو گئیں۔

روایات کے مطابق اُن کی جانب سے شادی سے انکار نے اُن کے والد کو شرمسار کیا۔ جب بربارہ نے اپنے ایمان کا اقرار کیا تو والد نے انھیں قتل کروانے کی بھی کوشش کی اور وہ کھیتوں اور بیابانوں کی طرف فرار ہو گئیں، پھٹے کپڑوں میں ملبوس وہ گندم کے کھیتوں میں چھپ گئیں جہاں ایک چرواہے نے انھیں پہچان لیا۔

بالآخر وہ گرفتار کر کے واپس لائی گئیں جہاں اُن کے والد نے انھیں اذیتیں دیں۔ مسیحی عقیدے کے مطابق جب انھیں برہنہ کر کے کوڑوں کی سزا دی گئی تو روشنی نے انھیں ڈھانپ لیا۔ آخرکار اُن کا سر قلم کر دیا گیا اور وہ مسیحیت کے ابتدائی عرصے میں اپنی جان قربان کرنے والوں میں سے ایک بن گئیں۔

عقیدے میں مقام

مسیحی عقیدے میں بربارہ کو وبائی امراض کے مریضوں کو شفا بخشنے والی کے طور پر مانا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ بربارہ کے قتل کے بعد اُن کے والد آسمانی بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے اور اسی مناسبت سے انھیں خطرات سے بچانے والی نجات دہندہ بھی مانا جاتا ہے۔

سنہ 2010 میں چلی سے تعلق رکھنے والے کان کنوں، جو دو ماہ سے زیادہ عرصہ زیر زمین پھنسے رہے تھے، نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اس مشکل گھڑی میں بربارہ کو یاد کیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US