ٹیچرز اور سماجی کارکنوں کے مطابق محمد اور یحییٰ سکول سے غائب ہونے والے ان بچوں میں شامل ہیں جو سونے جیسی قیمتی دھات کی تلاش میں گھروں سے نکلتے ہیں۔

افریقی ملک سیرا لیون کے ایک گاؤں میں بے یقینی کی کیفیت ہے اور لوگ سفید کپڑے میں لپٹی دو لڑکوں کی لاشوں کے آگے بیٹھے رو رہے ہیں۔
ایک دن پہلے ہی 16 سالہ محمد بانگرو اور 17 سالہ یحییٰ جیناح ملک کے مشرقی صوبے میں اپنے گھروں سے نکلے تاکہ اپنے خاندان کے لیے کچھ پیسے کما سکیں۔
وہ سونے کی تلاش میں نکلے تھے لیکن کبھی واپس نہ آ سکے۔ وہ جس گڑھے میں کھدائی کر رہے تھے، وہ ان پر گر پڑا۔
اس علاقے میں گذشتہ چار سال کے دوران یہ تیسرا جان لیوا واقعہ ہے اور ان واقعات میں اب تک کم از کم پانچ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
ٹیچرز اور سماجی کارکنوں کے مطابق محمد اور یحییٰ سکول سے غائب ہونے والے ان بچوں میں شامل ہیں جو سونے جیسی قیمتی دھات کی تلاش میں گھروں سے نکلتے ہیں۔
ملک کا مشرقی حصہ تاریخی طور پر ہیرے کی کان کنی کے لیے جانا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں سونے کی کان کنی میں اضافہ ہوا کیونکہ ہیروں کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔
یحییٰ کی والدہ ایک موبائل فون جس کی سکرین ٹوٹی ہوئی تھی، اس پر اپنے بیٹے کی تصاویر دیکھ رہی تھیںقدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال اس زمین میں مقامی لوگوں کو کھیتوں، پرانے قبرستانوں اور دریا کے کنارے، جہاں بھی یہ ذخائر نظر آتے ہیں، وہاں کان کنی شروع ہو جاتی ہے۔
یہاں کان کنی کی چند باضابطہ کمپنیاں کام کر رہی ہیں لیکن ان علاقوں میں جو منافع بخش نہیں سمجھے جاتے ہیں، وہاں کی زمین غیر منظم گڑھوں سے بھری ہوئی ہے، جو چار میٹر یعنی 13 فٹ تک گہرے ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح کی کانیں افریقہ کے کئی ممالک میں پائی جاتی ہیں اور اکثر وہاں سے بھی لوگوں کے مرنے کی اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔
نیمبادو گاؤں میں زیادہ تر لوگ چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی اور تجارت کرتے ہیں۔ متبادل روزگار بہت کم ہیں لہذا کچھ اضافی پیسے حاصل کرنے کا یہ موقع بہت پرکشش دکھائی دیتا ہے۔
لیکن گاؤں کی جنازہ گاہ میں موجود لوگ دو لڑکوں کی موت کے بعد یہ جانتے ہیں کہ اس کام کی بہت بڑی قیمت ہے۔
یحییٰ کی والدہ بیوہ ہیں اور اپنے پانچ بچوں کی کفالت کے لیے وہ اپنے نوجوان بیٹے پر انحصار کر رہی تھیں۔
وہ خود بھی ایسی جگہوں پر کام کر چکی ہیں اور مانتی ہیں کہ یحییٰ کو کان کنی سے انھوں نے خود متعارف کروایا تھا۔
’مجھے اس نے نہیں بتایا تھا کہ وہ اس سائٹ پر جا رہا ہے اور اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں اسے روک لیتی۔‘
جب انھیں حادثے کا پتہ چلا تو انھوں نے کسی سے التجا کی کہ کھدائی کرنے والے ڈرائیور کو کال کریں۔
’جب وہ آیا تو اس نے ملبہ صاف کیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
یحییٰ اپنی والدہ اور دیگر بہن بھائیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے کام کرتے تھےیحییٰ کی والدہ بہت دکھ سے بات کر رہی تھیں۔ ایک موبائل فون جس کی سکرین ٹوٹی ہوئی تھی، اس پر وہ اپنے بیٹے کی تصاویر دیکھ رہی تھیں، روشن آنکھوں والا لڑکا جس نے اپنی ماں کا ساتھ دیا۔
بچوں کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن ساحر انسومنا مجھے اس جگہ لے گئے جہاں یہ حادثہ ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ والدین سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ وہ غریب ہیں، وہ بیوہ ہیں، وہ سنگل پیرنٹ ہیں۔‘
’انھیں اپنے سب بچوں کا خیال رکھنا ہے۔ وہ خود بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ کان کنی کے لیے جائیں۔ ہم جدوجہد کر رہے ہیں اور ہمیں مدد چاہیے۔ یہ معاملہ پریشان کن اور ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔‘
لیکن محمد اور یحییٰ کی موت کے بعد بھی یہ گڑھے خالی نہیں ہوئے۔
ان دونوں کے جنازے کے اگلے روز بچے اور دیگر کان کن کام پر واپس چلے گئے۔
کومبا جانتے ہیں کہ اس کام میں بہت خطرات ہیںایک سائٹ پر میری ملاقات 17 برس کے کومبا سے ہوئی، جو وکیل بننا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنی والدہ کو سپورٹ کرنے کے لیے دن بھر یہاں کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کوئی پیسے نہیں ہیں۔ میں کام کر رہا ہوں تاکہ ہائی سکول کے امتحان کے لیے خود کو رجسٹر کر سکوں۔ میں سکول واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں یہاں خوش نہیں۔‘
کومبا کی آمدن بہت کم ہے۔ زیادہ تر ہفتوں میں وہ صرف 3.50 ڈالر ہی کما سکتے ہیں جو ملک کی کم از کم اجرت کے نصف سے بھی کم ہے۔
لیکن وہ امید کی وجہ سے ثابت قدم رہتے ہیں۔ بہت ہی کم دن ایسے بھی آئے جب انھیں 35 ڈالر کمانے کا موقع ملا۔
اور وہ جانتے ہیں کہ اس کام میں بہت سے خطرات ہیں۔ ان کے بہت سے دوست اس کام میں زخمی بھی ہو چکے ہیں لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ صرف کان کنی ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے وہ پیسے کما سکتے ہیں۔

اور ایسا نہیں کہ صرف بچے ہی سکول چھوڑ کر اس کام کے لیے جاتے ہیں۔
بوگبوآفہ الادورا جونیئر سکینڈری سکول کے ہیڈ ٹیچر روزویلٹ بندو کہتے ہیں کہ ’ٹیچر بھی کان کنی سائٹس پر جانے کے لیے اپنی کلاسز چھوڑتے ہیں اور بچوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘
حکومت کی جانب سے ملنے والی تنخواہ ان کے لیے کافی نہیں اور شاید سونے کی کان کنی سے وہ زیادہ کما سکیں۔
کان کنی کے مراکز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ دو سال قبل جہاں چھوٹے کیمپ تھے اب وہ قصبوں میں بدل رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔
وزیر اطلاعات چرنور باہ نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اندازہ ہے کہ لوگوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
’ہم اپنے جی ڈی پی کا 8.9 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، ٹیچرز، سکول میں کھانے کے پروگرامز اور بچوں کو کلاس رومز میں رکھنے کے لیے فنڈز دیے جاتے ہیں۔‘
تاہم زمینی حقائق بہت تلخ ہیں کیونکہ پالیسی کی بجائے بقا کی جنگ جیت جاتی ہے۔
مقامی سماجی کارکن اور تنظیمیں بچوں کو سکول واپس بھیجنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن آمدن کے کوئی قابل اعتماد متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ گڑھے بہت پرکشش بن جاتے ہیں۔
ادھر نیمبادو گاؤں میں مرنے والے دونوں لڑکوں کے خاندان تھکے اور ہارے ہوئے نظر آتے ہیں۔
سماجی کارکن ساحر انسومنا کہتی ہیں کہ ’ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ دعاؤں اور وعدوں کی نہیں۔ مدد۔‘