اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت کے خلاف تفصیلی چارج شیٹ جاری کر دی ہے۔ خصوصی ماہرین کی رپورٹ میں بھارت کے اس اعلان پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جس میں سندھ طاس معاہدے کو ’ہیلڈ اِن ابینس‘ کرنے کی بات کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنا یا اس کی دھمکی دینا کروڑوں پاکستانیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرتا ہے، جن میں پانی، خوراک، روزگار، صحت، ماحول اور ترقی کے حقوق شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ سرحد پار حقِ آب میں مداخلت سے اجتناب لازم ہے اور پانی کو کسی صورت سیاسی یا معاشی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
خصوصی ماہرین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل نہیں کر سکتا۔ جب تک فریقین باہمی رضامندی سے نیا معاہدہ نہ کریں موجودہ معاہدہ مکمل طور پر نافذ العمل رہتا ہے۔ رپورٹ میں بھارتی اصطلاح ’ہیلڈ اِن ابینس‘ کو مبہم اور غیر واضح قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت نے معاہداتی قانون میں معطلی سے متعلق دفعات کو واضح طور پر بروئے کار نہیں لایا اور طے شدہ طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے یکطرفہ معطلی غیر قانونی ہے۔ تنازعات کے حل کے لیے معاہدے میں درج تصفیہ جاتی طریقۂ کار پر عمل ضروری ہے جبکہ بھارت کی جانب سے ’میٹیریل بریچ‘کی دلیل کو کمزور قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے معاہدے کی کسی شق کی خلاف ورزی ثابت نہیں ہوتی۔
رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ پانی روکنا یا معاہدہ معطل کرنا ایک غیر مناسب اقدام ہے، جس کا براہِ راست بوجھ عام پاکستانی شہریوں کے حقوق پر پڑتا ہے۔ کاؤنٹر میژرز بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہیں دیتے اور ان کے لیے نوٹس، مذاکرات کی پیشکش اور قانونی طریقہ کار کی تکمیل ضروری ہے۔ ایسے اقدامات عارضی اور قابلِ واپسی ہوتے ہیں اور انہیں مستقل خاتمے یا معطلی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
خصوصی ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ بھارت کے رویے کے باعث سندھ طاس معاہدہ بگاڑ کا شکار ہوا۔ انڈس کمیشن کے سالانہ اجلاس 2022 کے بعد نہیں ہو سکے، ڈیٹا کے تبادلے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور تصفیہ جاتی شقوں پر تنازعات کھڑے کیے گئے، جو معاہدے کی روح کے منافی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت نے ثالثی کارروائیوں میں شرکت سے گریز کیا اور معاہدے کے دائرۂ اختیار کو بھی چیلنج کیا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ماہرین نے سفارش کی ہے کہ بھارت سے باضابطہ طور پر وضاحت، ممکنہ تلافی اور معذرت طلب کی جائے اور سندھ طاس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل درآمد کے حوالے سے واضح جواب مانگا جائے۔ ماہرین نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی نقصان روکنے کے لیے عملی اقدامات کی تفصیل فراہم کرے اور پاکستان کے قانونی و انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت پانی میں رکاوٹ کے باعث پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی اور نقصانات کو روکنے کے لیے واضح اور مؤثر اقدامات کرے۔
ادھر اقوام متحدہ کے اسپیشل رپوٹیورز نے بھارت کو ایک باضابطہ سوالنامہ ارسال کیا جس میں مودی حکومت کے مؤقف کو چیلنج کیا گیا۔ سوالنامے میں بھارت سے اپنے الزامات کے ثبوت، انسانی جانوں کے نقصان پر ازالے اور معذرت، سندھ طاس معاہدے کی ذمہ داریوں کی پاسداری، تنازعات کے حل کے طریقۂ کار پر عمل اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ تاہم بھارت کی جانب سے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا جس کے بعد خصوصی ماہرین نے رپورٹ جاری کی۔
علاوہ ازیں اقوام متحدہ نے مئی 2025 میں ہونے والی پاک بھارت جنگ سے متعلق بھی رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے مؤقف اور بیانیے کی بھرپور تصدیق کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 7 مئی 2025 کو بھارت نے ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان کی حدود میں طاقت کا استعمال کیا جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ اسی روز پاکستان نے اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو آگاہ کیا کہ وہ آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ایک بار پھر واضح کیا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے، اور سرحد پار پانی کے حقوق کا احترام بین الاقوامی قانون کے تحت لازم ہے۔