نریندر پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’فاروق نے ایک مکمل منصوبہ بنایا، غیر قانونی ہتھیار خریدے، گھر میں گڑھا کھودنے کے لیے مزدوروں سے کام لیا اور پھر طاہرہ کو قتل کرنے کے ارادے سے اس کے والدین کے گھر سے واپس بلایا۔‘
جیسے ہی باہر کے دروازے سے پردہ ہٹا کر گھر میں داخل ہوں تو سامنے ایک بڑا گڑھا نظر آتا ہے۔
ایک کمرے میں پرانا بیڈ پڑا ہوا ہے۔ دوسرے میں دو چارپائیوں پر بستر بچھے ہیں۔ ایک کونے میں گیس کا چولہا اور اس کے پاس رکھے برتن بتاتے ہیں کہ یہ کمرہ باورچی خانہ بھی تھا۔
اس گھر کے دو طرف اونچی عمارتیں ہیں اور درمیان میں ایک کھلا صحن ہے جس میں مٹی کا چولہا کئی دنوں سے ٹھنڈا پڑا ہے۔
16 دسمبر کو پولیس نے اسی گھر کے بیت الخلا کے سامنے ایک گڑھے سے تین لاشیں برآمد کی تھیں اور فاروق نامی شخص کو اپنی بیوی طاہرہ اور دو کمسن بیٹیوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
مغربی اتر پردیش کے ضلع شاملی کے علاقے کاندھلا میں یہ مسلم اکثریتی گاؤں اس واقعے کے بعد سے سرخیوں میں ہے۔
اردگرد کے لوگوں سے گفتگو، گرفتار ملزم اور اس قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ طاہرہ کی زندگی شادی کے بعد سے اسی گھر کی چار دیواری کی قید میں گزری۔
وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلیں اور نہ ہی رشتہ داروں، پڑوسیوں یا جاننے والوں سے ان کا کوئی رابطہ رہا۔
شاملی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نریندر پرتاپ سنگھ کے مطابق پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی بیوی سے برقعہ پہنے بغیر پبلک ٹرانسپورٹ میں اپنے والدین کے گھر جانے پر ناراض تھا اور یہی قتل کی وجہ تھی۔
ملزم فاروق کی والدہ کے مطابق ان کا بیٹا پسند نہیں کرتا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے کسی کو بات کرتا بھی دیکھے۔ اس نے طاہرہ کو ہمیشہ سخت پردے میں رکھا۔
طاہرہ اور فاروق کے پانچ بچے تھےجن میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ سب سے بڑی بیٹی چودہ یا پندرہ سال کی تھی۔ ان کے پانچ بچوں میں سے کوئی بھی کبھی سکول یا مدرسے نہیں گیا۔
پولیس کے مطابق نو اور 10 دسمبر کی درمیانی شب فاروق نے اپنی بیوی، اپنی بڑی اور سب سے چھوٹی بیٹی کو قتل کیا اور پھر لاشوں کو گھر میں پہلے سے کھودے گئے گڑھے میں دفنا دیا۔
بڑی بیٹی کی عمر چودہ پندرہ سال اور چھوٹی بیٹی چھ سات سال کی تھی۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نریندر پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’فاروق نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنی اہلیہ طاہرہ کے اپنے والدین کے گھر بغیر برقعے کے جانے اور پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے پر ناراض تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
زندہ بچ جانے والے تین بچوں اور فاروق کے اہلخانہ کے مطابق تقریباً ایک ماہ قبل طاہرہ اور فاروق میں کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا اور طاہرہ اچانک برقع پہنے بغیر اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔
شادی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب طاہرہ نے اپنے گھر کی دہلیز پار کی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ نریندر پرتاپ کا کہنا ہے کہ ’ملزم سے پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ طاہرہ کبھی بھی گھر سے اکیلی نہیں نکلی تھی۔ جب بھی اسے اپنے والدین کے گھر جانا ہوتا تھا، فاروق مزدور ہونے کے باوجود کار بک کرواتا تھا۔ اس نے کبھی بس نہیں لی تھی لیکن اس دن جھگڑے کے بعد وہ بغیر برقعے کے گھر سے نکلی تھی۔‘
پولیس کے مطابق فاروق اپنی بیوی طاہرہ کے اس اقدام کو نافرمانی سمجھتا تھا۔
نریندر پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’فاروق نے مکمل منصوبہ بنایا، غیر قانونی ہتھیار خریدے، گھر میں گڑھا کھودنے کے لیے مزدوروں سے کام لیا اور پھر طاہرہ کو قتل کرنے کے ارادے سے اس کو والدین کے گھر سے واپس بلایا۔‘
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے مطابق ’تفتیش کے دوران فاروق نے بتایا کہ اس کا ارادہ صرف اپنی بیوی کو قتل کرنا تھا۔ بیٹیاں جاگ گئی تھیں تو اس لیے اس نے انھیں بھی مار ڈالا۔‘
پولیس کی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ملزم نے تینوں کی لاشوں کو کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڑھے میں ڈالا پھر مٹی سے ڈھانپ دیا اور دو دن بعد کنکریٹ کا فرش بنایا۔
فاروق کے گھر والوں کے مطابق جب تینوں بچوں نے اپنی ماں اور دو بہنوں کے بارے میں پوچھا تو فاروق نے بتایا کہ اس نے ایک اور کمرہ کرائے پر لیا ہے اور وہ وہاں رہ رہے ہیں۔
ان تینوں بچوں نے، جن کی عمریں بارہ سال سے کم ہیں، دو تین دن تک ہوٹل سے لایا ہوا کھانا کھایا۔
اس کے بعد انھوں نے اپنے گھر سے متصل ایک اور گھر میں رہنے والے اپنے دادا دادی کو اطلاع دی کہ ان کی والدہ اور بہنیں گھر پر نہیں۔
فاروق کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’بچوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے والد نے ان کی ماں اور بہن کو کہیں بھیج دیا۔ جب ہم نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کرائے کے گھر میں ہیں لیکن جب اس نے اپنے کپڑوں کو آگ لگائی تو ہمیں شک ہوا۔‘
اپنی پوتیوں اور بہو کے لاپتہ ہونے کے بعد فاروق کے والد مقامی تھانے پہنچ گئے اور اپنے ہی بیٹے پر شک کا اظہار کیا۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نریندر پرتاپ سنگھ کے مطابق ’فاروق نے شروع میں ہمیں گمراہ کیا لیکن پھر تفتیش کے دوران حقائق سامنے آنے پر 16 دسمبر کی شام گھر کے ایک گڑھے سے تینوں لاشیں نکالی گئیں اور واقعے میں استعمال ہونے والا ہتھیار بھی مل گیا۔‘
اب تک کی تفتیش میں پولیس کو اس واقعے میں کسی اور کے ملوث ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔
تاہم پولیس اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ ہوٹل میں روٹی بنانے کا کام کرنے والے اور ایک معمول کی زندگی گزارنے والے فاروق کو کس بات نے اتنا مشتعل کیا۔
نریندر پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کسی پر شک نہیں لیکن ہم اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ فاروق کی سوچ ایسی کیسے بنی۔ اس نے نہ صرف اپنی بیوی بلکہ بیٹیوں کو بھی ان کے حقوق سے محروم رکھا۔‘
تفتیش کے دوران پولیس کو یہ بھی پتہ چلا کہ فاروق نے اپنی بیوی یا بچوں کے لیے آدھار کارڈ نہیں بنوائے تھے اور نہ ہی کسی سرکاری سکیم کا فائدہ اٹھایا تھا۔
فاروق کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’بڑی بیٹی کا آدھار کارڈ اس وقت بنوایا جب وہ بہت چھوٹی تھی، وہ بھی ہم نے بنوایا، فاروق نے کبھی کسی کے لیے کوئی دستاویز نہیں بنوائیں۔‘
’طاہرہ کو آج تک کسی نے گھر سے باہر نہیں دیکھا‘
فاروق کی والدہ کے مطابق ان کی بہو طاہرہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلیں اور نہ ہی کسی غم یا خوشی کے موقع پر شریک ہوئیں۔
’میرے بیٹے کو یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی اس کی بیوی کی طرف دیکھے اور ہم نے کچھ نہیں کہا کیونکہ اس کی اپنی زندگی تھی۔ میری بہو کو بھی اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اس نے کبھی شکایت نہیں کی۔‘
فاروق کی ایک بہن کے مطابق انھوں نے گزشتہ چھ سات سال میں ایک بار بھی طاہرہ کا چہرہ نہیں دیکھا۔
ایک اور پڑوسی کے مطابق اس نے طاہرہ کو کبھی گھر سے باہر نہیں دیکھا، نہ دہلیز پر، نہ چھت پر، نہ باہر گلی میں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے صرف اس کی لاش اس کے مرنے کے بعد دیکھی تھی۔ گاؤں کے ہر بچے سے پوچھیں، طاہرہ کو کبھی کسی نے گھر سے باہر نہیں دیکھا ہو گا۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی لیکن اس کے بچے ضرور باہر ہی رہتے اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے۔‘
طاہرہ نے پردے پر سختی سے عمل کیا لیکن اس مسلم اکثریتی گاؤں میں یہ عام رواج نہیں۔ بہت سی خواتین برقعے کے بغیر بھی اپنے گھروں سے باہر نکلنے میں آسانی محسوس کرتی تھیں۔
پردے میں رہنے والی خواتین کے سوال پر فاروق کے ایک پڑوسی کا کہنا ہے کہ ’یہ ہر کسی کی ذاتی پسند کا معاملہ ہے، جب خواتین گاؤں سے باہر جاتی ہیں تو وہ برقع ضرور پہنتی ہیں لیکن کوئی پابندی نہیں۔ بہت سی خواتین پردہ نہیں کرتیں۔ وہ کھیتوں میں کام کرنے بھی جاتی ہیں۔ میرے اپنے خاندان میں عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔‘
پولیس کو طاہرہ کی ایک سائیڈ پوز کی تصویر ملی، جو گاؤں میں ایک شادی کے دوران لی گئی تھی۔
اس ایک تصویر کے علاوہ پولیس کو طاہرہ کے وجود کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا۔ طاہرہ کے اپنے بچے بھی اس تصویر میں اپنی ماں کو پورے طور پر پہچان نہیں پا رہے ہیں۔
ایک بیٹی اور ایک بیٹا کہتے ہیں کہ یہ ان کی ماں نہیں جبکہ ایک بیٹا اصرار کرتا ہے کہ یہ تصویر ان کی ماں کی ہے۔
فاروق کی والدہ کو اپنی بہو کا چہرہ یاد ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تصویر طاہرہ کی ہے اور وہ اس وقت لی گئی تھی جب وہ ایک بار پڑوس میں ایک شادی میں گئی تھی۔
طاہرہ کی عمر 35 یا 36 سال تھی۔ ان کی شادی کم عمری میں ہوئی تھی اور اس کے بعد اس نے اپنی پوری زندگی دو کمروں کے گھر میں گویا قید ہو کر گزاری تھی۔
بچوں کی سکول جانے کی خواہش
فاروق اپنی بیوی طاہرہ اور دو کمسن بیٹیوں کو قتل کرنے کے بعد اب جیل میں ہیں۔
فاروق کے بچوں نے کبھی سکول یا مدرسے میں داخلہ نہیں لیا لیکن ان میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ بیٹی اپنی ماں کے لیے دعا مانگ رہی ہے اور تسبیح پر کلمہ پڑھ رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سکول جائیں گی، تو وہ سر ہلاتی ہیں اور اچانک اس کا اداس چہرہ روشن ہو جاتا ہے۔ پھر ماں کے ذکر پر اس کا چہرہ پھر پیلا ہو جاتا ہے۔
اپنی دادی کی گود میں بیٹھی لڑکی کہتی ہے کہ ’مجھے پڑھائی کرنا اچھا لگتا ہے۔ میری ماں چاہتی تھیں کہ میں سکول جاؤں لیکن میرے والد نے مجھے کبھی جانے نہیں دیا۔ میرے چچا نے ایک بار مجھے داخلہ لینے کو کہا تو میں بہت خوش ہوئی تھی۔‘
فاروق کا ایک نابالغ بیٹا کام پر جاتا ہے جبکہ دوسرا گھر پر رہتا ہے۔ بچوں کے مطابق جب بھی ان کی والدہ انھیں سکول بھیجنے کی بات کرتیں تو گھر میں جھگڑا ہو جاتا۔
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نریندر پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہم کوشش کریں گے کہ بچوں کا اندراج کیا جائے اور انھیں سرکاری سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس معاملے پر ضلع مجسٹریٹ سے بھی بات کی گئی۔ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی سے اس سمت میں قدم اٹھانے کی درخواست کی جائے گی۔‘