ایئر بلیو طیارہ حادثے کے آٹھ متاثرین جنھوں نے بہتر معاوضے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی: ’معاملہ پیسوں کا نہیں انصاف کا تھا‘

ان خاندانوں نے 15 سال تک قانونی جنگ لڑی جس کے بعد اسلام آباد کی ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے حکم دیا کہ حادثہ ایئر بلیو کی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا لہذا اس ناقابل تلافی نقصان کے ازالے کے لیے آٹھ متاثرین کو مجموعی طور پر 5.4 ارب روپے معاوضہ ادا کیا جائے۔
ایئر بلیو میں مرنے والے
BBC

یہ بات سال 2010 کی ہے جب گوہر رحمان اپنے 22 سالہ بیٹے عرفان اور اپنی ایک قریبی خاتون رشتہ دار کو ایئر بلیو کی فلائٹ نمبر ای ڈی 202 پر سوار کروا رہے تھے۔ انھوں نے عرفان کو جلد واپسی کی ہدایت کی تھی۔

گوہر رحمان نے بیٹے سے کہا تھا کہ ’دیکھو! جہاز میں احتیاط سے سفر کرنا اور کوشش کرنا کہ جلدی واپس آجاؤ۔ مجھ سے اکیلے کام نہیں سبنھالا جاتا۔‘

گوہر رحمان کراچی میں پھلوں کی ریڑھی لگاتے تھے جبکہ عرفان ایک گارمنٹس فیکڑی میں کمپیوٹر آپریٹر تھے جس کے ساتھ وہ تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے اور والد کے کام میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔

2010 میں ایئر بلیو کی یہ پرواز اسلام آباد میں حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ طیارے کے مارگلہ ہلز میں گِر کر تباہ ہونے سے اس پر سوار تمام 152 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں گوہر رحمان کا نوجوان بیٹا اور قریبی عزیزہ بھی شامل تھیں۔

گوہر رحمان ہی نہیں بلکہ انجینیئرنگ کے شعبے سے وابستہ حامد جنید نے بھی اس حادثے میں اپنی اہلیہ کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔

جب حامد جنید اپنی اہلیہ عندلیب کو کراچی ایئر پورٹ پر الوداع کر رہے تھے تو انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ اپنی اہلیہ کو دیکھ رہے ہیں۔

اسی طرح قیصر ذوالفقار کے چھوٹے بھائی حیدر ذوالفقار شاہ کراچی سے منگنی کے بعد واپس جا رہے تھے کہ یہ حادثہ پیش آ گیا۔ حیدر کے لواحقین کو ان کی میت بھی نہ مل سکی تھی۔

ان خاندانوں نے 15 سال تک قانونی جنگ لڑی جس کے بعد اسلام آباد کی ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے حکم دیا کہ حادثہ ایئر بلیو کی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا لہذا اس ناقابل تلافی نقصان کے ازالے کے لیے آٹھ متاثرین کو مجموعی طور پر 5.4 ارب روپے معاوضہ ادا کیا جائے۔

عدالت میں متاثرین اور ایئر بلیو کا کیا موقف تھا؟

جج رسول بشیر کی عدالت میں ایئر بلیو حادثے کے متاثرین نے استدعا کی تھی کہ ایئر بلیو نے بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے تحت مکمل معاوضہ ادا نہیں کیا حالانکہ حادثے کی انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ جہاز کے عملے نے دوران پرواز ٹھیک فیصلے نہیں کیے تھے اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔

درخواست میں انکوائری رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ خراب موسم میں لینڈنگ کی کوشش کے دوران جہاز کو خطرناک علاقے میں کم بلندی پر لے جایا گیا اور یہ حادثہ ایئر لائن کی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا۔

درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ انکوائری سے پہلے ہی ایئر بلیو نے متاثرین کو معاوضے کی پیشکش کر دی تھی اور ایک غیر قانونی معاہدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔

متاثرین کا کہنا تھا کہ معاوضے کی مد میں صرف پچاس لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے جس سے یہ معاملہ نہ ہی ختم ہوتا ہے اور نہ اس سے ان کے نقصان کا ازالہ ممکن ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ایئر بلیو نے موقف اختیار کیا کہ فلائٹ نمبر ای ڈی 202 بین الاقوامی سفر کے زمرے میں نہیں آتی لہذا متاثرین کو 1966 کے ایئر انٹرنیشنل کنونشن ایکٹ کے تحت معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ایئر بلیو نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان مقامی پروازوں کے لیے 1934 کے ایکٹ پر عملدرآمد کرتا ہے جس میں واضح کیا گیا کہ مسافر کی موت یا ذاتی نقصان کی صورت میں ذمہ داری زیادہ سے زیادہ 39,500 روپے معاوضے کی ہے جبکہ ایئر بلیو کے بقول اس نے رضاکارانہ طور پر یہ حد بڑھا کر 10 لاکھ روپے رکھی تھی۔

ایئر بلیو نے اپنے موقف میں کہا کہ متاثرین صرف شرعیت کے مطابق ہی معاوضے کے حقدار ہیں۔ ’یہ کہنا کہ اگر مسافر یا مسافروں کی موت کی ذمہ دار ایئر لائن ہے تو پھر اس مقدمے میں عملے کی قانونی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ ان کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ مقدمہ چل نہیں سکتا۔‘

’لواحقین کو مجموعی طور پر 5.4 ارب روپے معاوضہ دینے کا فیصلہ‘

اسلام آباد کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ III (ویسٹ) نے اپنے فیصلے میں ایئرلائن کے عملے کو غفلت کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ ایئر بلیو اپنے عملے کی غلطی کے تحت ذمہ دار ہے جس کا مطلب معاونت یا مشترکہ ذمہ داری ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ متاثرین نے واضح اور ناقابل اعتراض ثبوت فراہم کیے جبکہ ایئر بلیو اپنے عملے کی غلطی نہ ہونے کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر سکی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ انکوائری رپورٹ کے مطابق پائلٹ نے مقررہ لینڈنگ پروسیجر کی خلاف ورزی کی۔ اس میں کہا گیا کہ ایئر لائن کے عملے نے زمین سے کم فاصلے اور خطرے کے دیگر اشاروں کو نظرانداز کیا جبکہ ’حفاظتی قواعد کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں جہاز پہاڑوں سے ٹکرا گیا۔‘

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 2012 کے ایئر کیرج ایکٹ کے تحت کم از کم 50 لاکھ روپے فی مسافر لازمی ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں مرنے والوں کی زندگی کی متوقع مدت اور متاثرین کو پہنچنے والے نقصان کے حساب سے ایئر بلیو کو 5.4 ارب روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ کے وکیل عمر فاروق آدم نے 15 سال تک ایئر بلیو حادثے میں ہلاک ہونے والے آٹھ لواحقین کے مقدمات کی مختلف عدالتوں میں پیروی کی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے موکل ریٹائرڈ کرنل شمیم اختر کو 60.6 کروڑ روپے معاوضہ ملے گا۔ دیگر متاثرین میں سے سمیرا نوید چوہدری اور دیگر دو کو 14.318 کروڑ روپے، راشد ذوالفقار اور دیگر چار کو 63.094 کروڑ روپے، محمد الیاس کو 1.101 ارب روپے، گوہر رحمان کو 50.7348 کروڑ، جنید الزمان حامد کو 99.6048 کروڑ، محمد جاوید خان کو 85.7025 کروڑ، سلیمہ راجپورت کو 57.2666 کروڑ روپے معاوضہ دینے کا حکم دیا گیا یعنی مجموعی طور پر آٹھ متاثرین کو قریب 5.4 ارب روپے ملیں گے۔

وکیل عمر فاروق آدم کا کہنا تھا کہ ’ایئر بلیو نے متاثرین یا خاندانوں کو پہلے جو معاوضہ دیا، وہ درحقیقت ایک قانونی ضرورت تھی کہ حادثہ ہونے کے بعد فوراً معاوضہ دے دیا جائے جو کہ 50 لاکھ روپے تھا تاہم وہ ناکافی تھا کہ اس وقت یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ غلطی کس کی تھی اور یہ (انکوائری) رپورٹ بھی نہیں آئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ رپورٹ آگئی تو اس وقت ہماری قانونی جنگ کو ایک شکل مل گئی۔ میرے کلائنٹس نے ایئر بلیو کی جانب سے ابتدائی رقم دیتے وقت ایک معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔ اس معاہدے میں کہا گیا تھا کہ وہ اس رقم کے عوض پاکستان کیا دنیا کی کسی بھی عدالت میں ایئر لائن، جہاز بنانے والی کمپنی، سامان فراہم کرنے والی کمپنی اور پتا نہیں کون کون سی کمپنیوں کے خلاف کوئی دعویٰ نہیں کر سکیں گے۔‘

عمر فاروق آدم ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمہ ملکی و بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں تھا۔ ’اس مقدمے میں ایک مایہ ناز چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ سے حساب کتاب کروایا گیا کہ اگر ایک شخص اپنی مکمل زندگی گزارے تو وہ زندگی میں کیا کیا کر سکتا تھا اور اس کے اس طرح ہلاک ہو جانے سے اس کے لواحقین پر کیا کیا مشکلات آئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ نے عدالت میں یہ سارے اعداد و شمار پیش کیے اور اسی روشنی میں عدالت کا فیصلہ آیا۔

عمر فاروق آدم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اصول واضح کر دیا کہ ایسی غفلت پر اب ’نہ صرف پوچھا جائے گا بلکہ جوابدہ ہونا پڑے گا۔‘

15 سالہ قانونی جنگ اور معاہدے پر دستخط سے انکار

عمر فاروق آدم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یہ کوئی آسان مقدمہ نہیں تھا۔ اس میں 15 سال لگ گئے۔ ’یہ وقت میرے کلائنٹس کے لیے کافی مشکل تھا۔ ایئر لائن کی انتظامیہ نے 10 لاکھ روپے کے بعد 50، 50 لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ ایک معاہدے پر دستخط کرائیں گے مگر میرے کلائنٹس نے ایسا نہیں کیا۔‘

ان کے بقول یہ معاوضہ ’متاثرین کو پہچنے والے نقصان کا اندازہ لگائے بغیر‘ دیا جا رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جہاں پر عدالت نے ایئر بلیو کو پابند کیا کہ وہ 50 لاکھ روپے کی رقم عدالت میں جمع کروائے اور پھر عدالت نے وہ رقم ’میرے کلائنٹس کو دی تھی کہ یہ قانونی ضرورت تھی اور یہ سال 2018 میں ہوا۔ جس کے بعد یہ مقدمہ سول عدالت میں چلا تھا۔‘

عمر فاروق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’سول عدالت میں ایئر بلیو کی غلطی ثابت ہوئی مگر وہاں پر فیصلہ ہوا کہ لواحقین کو ایک، ایک کروڑ روپے دیا جائے۔ جس پر ایئر بلیو اور ہم نے اپیل کی اور اب یہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا، جس پر ہمیں مکمل اعتماد ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایئر بلیو کے پاس ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق موجود ہے۔

ایئر بلیو حادثے میں اپنی اہلیہ کو کھو دینے والے حامد جنید کہتے ہیں کہ اس تاخیر کے دوران انھیں ’بہت زیادہ دُکھ اور تکلیف پہنچی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ معاملہ ’معاوضے اور پیسوں کا نہیں بلکہ انصاف اور اصول کا تھا۔ نہ کوئی ذمہ داری قبول کر رہا تھا اور نہ کوئی سینکڑوں خاندانوں کا دُکھ محسوس کر رہا تھا۔‘

اس دوران کچھ متاثرین نے ’آپس میں رابطے شروع کر دیے کہ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ہم نے ایک ٹیم بن کر طویل عدالتی اور قانونی لڑائی لڑی۔ صرف آٹھ خاندان کھڑے رہے کیونکہ بہت مشکلات تھیں۔‘

ان کے بقول متاثرین سے ’غیر قانونی معاہدے پر دستخط کروا کر 50، 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی بات کی گئی تو اکثریت نے اس پر دستخط کر دیے مگر ہم لوگوں نے نہیں کیے اور اپنا حق عدالت سے حاصل کیا۔‘

آییر بلیو حادثہ
BBC
فائل فوٹو

اسلام آباد میں صحافی قیصر ذوالفقار نے اس حادثے پر کئی برسوں تک رپورٹنگ کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ خاندانوں کی مجبوریاں تھیں۔ کئی خاندانوں کا واحد سہارا ہی چلا گیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان متاثرین نے مجبوراً 50 لاکھ روپے معاوضہ قبول کر کے معاہدے پر دستخط کیے کیونکہ انھیں کہا گیا تھا کہ ’یہ پیشکش دوبارہ نہیں ملے گی۔‘

عدالت سے ریلیف حاصل کرنے والوں میں کراچی میں پھل فروش گوہر رحمان بھی شامل ہیں جو وکیل عمر فاروق آدم کے بقول ’زیادہ پڑھے لکھے نہیں مگر ان کا حوصلہ اور جذبہ سب سے زیادہ بلند تھا۔‘

وکیل کے مطابق گوہر رحمان گذشتہ برسوں کے دوران ’اکثر فون کرتے تو کہتے کہ وکیل صاحب لڑ رہے ہیں نا تو میں کہتا تھا کہ جی لڑ رہا ہوں۔ تو وہ کہتے تھے بس ٹھیک ہے اور فون بند کر دیتے تھے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US