جوہری ہتھیاروں کی دوڑ، چین پاکستان دفاعی شراکت اور انڈین خدشات: پینٹاگون کی نئی رپورٹ میں کیا ہے؟

امریکی محکمۂ دفاع نے ’چین میں ملٹری اور سکیورٹی ڈیویلپمنٹس‘ کے عنوان سے کانگریس میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جہاں ایک طرف بیجنگ پر 100 سے زیادہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل لوڈ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے وہیں اس کی مختلف ممالک کے ساتھ دفاعی شراکت کا بھی تذکرہ ہے۔
جے-10 سی طیارے
Getty Images
پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق 2020 سے اب تک چین نے پاکستان کو 36 جے 10 سی طیارے دیے ہیں جن میں اب مصر، ازبکستان، انڈونیشیا، ایران اور بنگلہ دیش نے دلچسپی ظاہر کی ہے

امریکی محکمۂ دفاع نے ’چین میں ملٹری اور سکیورٹی ڈیویلپمنٹس‘ کے عنوان سے کانگریس میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے، جس میں جہاں ایک طرف بیجنگ پر 100 سے زیادہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل لوڈ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے وہیں اس کی مختلف ممالک کے ساتھ دفاعی شراکت کا بھی تذکرہ ہے۔

اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین نے اپنی نئی تعمیر شدہ تین تنصیبات میں 100 سے زیادہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل لوڈ کیے ہیں جو ممکنہ طور پر بیجنگ کی ’ارلی وارننگ کاؤنٹر سٹرائیک‘ صلاحیت بڑھاتے ہیں۔

اس رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’ہم وہی کہانی بار بار امریکیوں سے سن رہے ہیں تاکہ امریکی جوہری طاقت کو تیزی سے اپ گریڈ کرنے اور عالمی سٹریٹجک استحکام کو متاثر کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ بین الاقوامی برادری کو اس بارے میں سنجیدگی سے آگاہ ہونا چاہیے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ خود ایک جوہری سپر پاور ہے جس کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔ اسے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔‘

ٹرمپ، شی جن پنگ
Getty Images
پینٹاگون کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’امریکہ خود ایک جوہری سپر پاور ہے جس کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے‘

جوہری ہتھیاروں کی دوڑ

نومبر 2025 کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چین اور روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے منصوبے پر کام کریں گے لیکن امریکی محکمۂ دفاع کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ آرمز کنٹرول کے لیے جامع بات چیت میں دلچسپی لیتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق واشنگٹن میں چینی سفارتخانے کا کہنا ہے کہ چین کی ’دفاعی جوہری حکمتِ عملی برقرار ہے‘ اور بیجنگ اپنی جوہری قوت کو ’قومی سلامتی کے لیے درکار کم سے کم سطح پر رکھتا ہے اور جوہری تجربات پر پابندی کے عہد کی پاسداری کی جاتی ہے۔‘

دوسری طرف پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 کے دوران چین کے جوہری وار ہیڈز کا ذخیرہ 600 سے کچھ زیادہ ہے اور اس میں اضافہ سابقہ برسوں کے مقابلے سست روی کا شکار ہے تاہم پیپلز ریپبلک آرمی نے جوہری وسعت جاری رکھی ہوئی ہے اور 2030 تک جوہری وار ہیڈز ایک ہزار سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔

یاد رہے کہ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکہ جوہری ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ دوبارہ شروع کرے لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ کس شکل میں ہو گا۔

سابق امریکی صدر جو بائیڈن اور ٹرمپ نے چین اور روس کے ساتھ جوہری مذاکرات کی کوشش کی تاکہ تینوں فریقوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے معاہدہ ہو سکے۔

پینٹاگون کی رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے کہ جب 2010 کے امریکہ روس جوہری معاہدے ’سٹارٹ‘ کی معیاد ختم ہونے میں صرف کچھ ماہ باقی ہیں۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کو 700 ڈیلیوری سسٹمز پر 1,550 سٹریٹجک جوہری وار ہیڈز تک محدود کرتا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن اور بائیڈن نے فروری 2021 میں اس معاہدے کو پانچ سال کے لیے بڑھایا تھا لیکن اس میں مزید توسیع ممکن نہیں۔

بہت سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس معاہدے کی مدت ختم ہونے سے تین طرفہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

چین
Getty Images
’چین میں ملٹری اور سکیورٹی ڈیویلپمنٹس‘ کے عنوان سے کانگریس میں جمع کرائی گئی امریکی محکمۂ دفاع کی سالانہ رپورٹ میں بیجنگ کی دفاعی اور جوہری صلاحیت کا جائزہ لیا گیا

چین کی پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت اور انڈیا کے ساتھ تناؤ

’چین میں ملٹری اور سکیورٹی ڈیویلپمنٹس‘ کے عنوان سے کانگریس میں جمع کرائی گئی امریکی محکمۂ دفاع کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین ممکنہ طور پر بنگلہ دیش، پاکستان، نائجیریا، سری لنکا، تاجکستان، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات سمیت بعض دیگر ممالک میں فوجی اڈہ قائم کرنے پر غور کر رہا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ چین کی پیپلز ریپبلک آرمی کو آبنائے ملاکا، ہرمز اور افریقہ و مشرقِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں سمندری مواصلاتی راستوں تک رسائی میں دلچسپی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق چین تین جنگی طیارے برآمد کرنے کی پیشکش کرتا ہے جن میں ففتھ جنریشن ایف سی 31 اور فورتھ جنریشن جے 10 سی اور چین-پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے تیار ہونے والا جے ایف 17 شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے الجزائر، مصر، ایتھوپیا، انڈونیشیا، عراق، مراکش، میانمار، پاکستان، سربیا اور متحدہ عرب امارات کو حملے کی صلاحیت رکھنے والے کیہونگ اور وِنگ لونگ ڈرون سپلائی کیے ہیں۔

پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مئی 2025 تک کسی ملک کو ایف سی 31 طیارے فروخت نہیں کیے گئے مگر مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان میں دلچسپی لی۔

جبکہ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2020 سے اب تک پاکستان کو 36 جے 10 سی طیارے دیے گئے ہیں جن میں اب مصر، ازبکستان، انڈونیشیا، ایران اور بنگلہ دیش نے دلچسپی ظاہر کی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مئی 2024 تک آذربائیجان، برما اور نائجیریا کو جے ایف 17 طیارے ڈیلیور کیے گئے ہیں جبکہ 2024 میں اس سلسلے میں عراق سے بات چیت ہوئی۔

پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین کی پاکستانی بحریہ کے لیے برآمدات بڑھنے کی توقع ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ’اگلے پانچ برس میں چین اپنی بحری برآمدات کی منڈی کو وسعت دے گا جس میں اس وقت بنگلہ دیش، ملائیشیا، پاکستان اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔‘

’2017 اور 2018 میں چین نے بنگلہ دیش کو دو اور پاکستان کو چار فریگیٹس فروخت کیے۔‘

اس رپورٹ میں چین اور انڈیا کے درمیان تناؤ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ پینٹاگون کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چینی قیادت تائیوان، متنازع ساؤتھ چائنہ سی، سنکاکو جزائر اور انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش پر دعویٰ کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماضی میں انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر سرحدی کشیدگی دیکھی گئی۔ اس میں لکھا ہے کہ ’چین اب ایل اے سی پر تناؤ میں کمی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ دوطرفہ تعلقات مستحکم ہوں اور انڈیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو گہرا ہونے سے روکا جائے تاہم انڈیا چین کے اقدامات اور ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں (چین اور انڈیا) کے درمیان باہمی تعلقات عدم اعتماد اور دیگر رکاوٹیں کے باعث محدود ہیں۔‘

تاحال اسلام آباد اور نئی دہلی کی طرف سے پینٹاگون کی اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US