اس احتجاج کے دوران مظاہرین کے ساتھ ساتھ درجن بھر کے قریب گدھا گاڑیاں بھی مظاہرے میں موجود تھیں اور ان گدھوں کے گلے میں سندھ نمبر کی پلیٹس لٹک رہی تھیں جن پر اجرک بنی ہوئی تھی۔

اجرک ایک ایسی ثقافتی علامت ہے جو صدیوں سے عزت، مہمان نوازی اور وقار کی علامت رہی تاہم حالیہ دنوں میں یہ سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث اور تنازعے کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
یہ معاملہ اس وقت موضوعِ بحث بنا جب رواں ہفتے پیر کے روز جماعت اسلامی کی جانب سے ای چالان، پانی کی قلت اور گٹروں کے ڈھکن نہ ہونے کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا گیا۔
اس احتجاج کے دوران مظاہرین کے ساتھ درجن بھر گدھا گاڑیاں بھی موجود تھیں اور ان گدھوں کے گلے میں سندھ نمبر کی پلیٹس لٹک رہی تھیں جن پر اجرک بنی ہوئی تھی۔ ان گدھا گاڑیوں کی تصاویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد شدید ردعمل سامنے آیا۔
اس سے قبل ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم حقیقی بھی اجرک والی نمبر پلیٹ پر اپنے اعتراضات کا اظہار کر چکی ہیں۔
’احتجاج یا بدتہذیبی‘
کراچی میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی سرگرم کارکن شہزادی رائے نے ایکس پر لکھا کہ ’کیا ہماری سندھی ثقافت کی کوئی حرمت نہیں؟ جماعتِ اسلامی نے گدھوں کے اوپر اجرک والی نمبر پلیٹ لگا کر انتہائی نازیبا حرکت کی۔ اگر یہی سب چلتا رہا تو سندھی اس ملک کو اپنا نہیں مانیں گے۔‘
پوڈ کاسٹر شہزاد غیاث نے بھی ایکس پر لکھا کہ ’کیا آپ کسی اور برادری کے بارے میں عوامی طور پر اس طرح کے تبصرے کر سکتے ہیں؟ ہم نے سندھیوں کے خلاف نفرت کو حد سے زیادہ معمول بنا دیا۔ اجرک جیسی سندھی ثقافت کی علامت کی مسلسل توہین دراصل خالص اور کھلی نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں۔‘
فاطمہ نامی ایک اور ایکس صارف نے بھی جماعتِ اسلامی کی جانب سے نکالی جانے والی احتجاجی ریلی کے حوالے سے غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’جتنا سندھ اور اس کی عظیم ثقافت کے خلاف زہر اگلا جائے گا ہم اتنی ہی طاقت، غیرت اور حوصلے کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ سندھ کوئی کمزور شناخت نہیں، یہ صدیوں کی تاریخ، مزاحمت اور وقار کا نام ہے۔ ہماری جڑیں اس دھرتی میں اتنی گہری ہیں کہ نفرت کے طوفان بھی ہمیں ہلا نہیں سکتے۔‘
عائشہ خان نے لکھا کہ ’جماعتِ اسلامی کا گدھوں پر اجرک ڈالنا محض سیاسی احتجاج نہیں بلکہ سندھ کی ثقافت کی کھلی توہین ہے۔ پیپلز پارٹی سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اجرک کی بے حرمتی ناقابلِ معافی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’سندھ کی شناخت کی تضحیک کرنے والوں کو عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔ یہ احتجاج نہیں، بدتمیزی ہے۔‘
’کچرا اٹھانے والی گاڑیوں پر بھی اجرک والی نمبر پلیٹ‘
سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما محمد فاروق کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی نے اجرک کی بے توقیری نہیں کی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اجرک ثقافت کا نشان ہے، اسلامی تہذیب کا نشان ہے اس میں چاند، ستارہ اور مسجد کا محراب موجود ہے اور جماعت اسلامی سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس اجرک کو جو وہ اپنے گلے میں پہنتے ہیں، خواتین اسے اپنا دوپٹہ اور چادر بناتی ہیں اُس اجرک کی بے توقیری کرے۔‘
محمد فاروق نے مزید کہا کہ ’گدھے پر اجرک نہیں ڈالی گئی ہاں اجرک والی نمبر پلیٹ علامتی طور پر احتجاج کی غرض سے لٹکائی گئی اور ایسا کرنے کا مقصد بس یہ تھا کہ سڑکیں گدھا گاڑی والی بنا رکھی ہیں اور ای چالان سسٹم امریکہ اور دبئی والا ہے۔ اس چیز کو ہی احتجاج میں اجاگر کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک اجرک والی نمبر پلیٹ کی بات ہے تو فضلہ اور کوڑا کرکٹ اٹھانے والے ٹرک پر بھی یہی اجرک والی نمبر پلیٹ لگی ہے۔ اصل بی توقیری تو سندھ حکومت اس نمبر پلیٹ پر اجرک لگا کر رہی ہے اس کو کیوں نہیں ہٹاتے گدھے تو بہت صاف تھے۔‘
’اجرک کا استعمال سیاسی نہیں‘
اس تنازعے کی ابتدا اس وقت ہوئی جب سندھ حکومت نے اجرک کے ڈیزائن پر گاڑیوں کی نئی نمبر پلیٹس متعارف کروائیں۔ بظاہر اس اقدام کا مقصد صوبائی ثقافت کو اجاگر کرنا تھا مگر یہ فیصلہ جلد ہی عوامی غصے اور سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں آ گیا۔
حکومتِ سندھ کے ترجمان سکھدیو ہیمنانی کہتے ہیں کہ ’سندھ حکومت اور سندھ کے عوام نے ہمیشہ اجرک کو فروغ دیا۔ اجرک صرف ثقافتی علامت نہیں بلکہ پوری تہذیب کی نمائندہ علامت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سندھ میں سکیورٹی، ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کے حوالے سے پورا نظام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جس میں سیف سٹی منصوبہ بھی شامل ہے۔ نئی نمبر پلیٹس میں سکیورٹی فیچر دیا جا رہا ہے تاکہ نگرانی اور سکیورٹی کو بہتر بنایا جا سکے۔‘
’فطری طور پر نمبر پلیٹس پر ہمیں ایسی علامت دینی تھی جو ہماری صوبائی شناخت ہو۔ یہ پریکٹس پوری دنیا میں ہوتی ہے کہ ریاستوں کی شناخت کی علامات کو نمایاں کیا جاتا ہے۔‘
سکھدیو ہیمنانی کے مطابق ’یہ سراسر غلط ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی یا سندھ حکومت اجرک کا نشان اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ حزبِ اختلاف نے کبھی بھی سکیورٹی سے متعلق نمبر پلیٹس کے فیصلے پر اعتراض نہیں کیا۔ یہ مسئلہ صرف اجرک کے ساتھ اٹھایا گیا تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم کہتے ہیں، اجرک نہیں تو اور کیا؟ وہ ہمیں بتائیں۔ اگر وہ وضاحت نہیں کر سکتے تو اسے قبول کر لیں یا پھر خود کو سندھ کی ثقافت کا حصہ نہ سمجھیں۔ اگر وہ اجرک سے ناخوش ہیں یا انھیں یہ مناسب نہیں لگتا تو ہمیں بتائیں کہ کیا سندھ یا سندھی ثقافت میں اجرک سے زیادہ پہچانی جانے والی کوئی علامت موجود ہے؟ جو ہماری پوری تاریخ اور تہذیب کو علامت میں بیان کرتی ہے۔‘
’جو لوگ اجرک کے نام پر پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی سیاسی مخالفت کر رہے ہیں وہ دراصل بدنیتی پر مبنی سیاست کر رہے ہیں۔‘

اجرک خوشی اور غمی کا تعلق
سندھ میں اجرک کی روایت کو وادیِ مہران کی تہذیب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ موئنجو دڑو سے برآمد ہونے والے ’کنگ پرسٹ‘ نے بھی اپنے جسم پر اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ اس مجسمے کے کندھے پر تین پتیوں والے پھول جیسا نقش بنا ہوا ہے، جس کے گرد سرخ رنگ سے بھرے چھوٹے دائرے موجود ہیں۔
محققین کے مطابق یہ دراصل سورج، پانی اور زمین کے دیوتاؤں کے اتحاد کی علامت تھا۔
نورجہاں بلگرامـی، جو ایک معروف آرٹسٹ، ٹیکسٹائل ڈیزائنر اور محقق ہیں لکھتی ہیں کہ لفظ ’اجرک‘ غالباً عربی زبان کے لفظ ’ازرق‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نیلا ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سندھ کے عوام اس کپڑے کو محض لباس نہیں بلکہ اسے مقدس تہذیبی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سندھ میں مرد، خواتین اور بچے سبھی اجرک اوڑھتے ہیں اور اس کا تعلق نہ کسی طبقے سے ہے اور نہ سماجی حیثیت سے۔‘
نورجہاں بلگرامی کہتی ہیں کہ ’امیر ہو یا غریب، اجرک کی قدر و قیمت یکساں سمجھی جاتی ہے۔ اس کی اہمیت کا تعین نہ تو رنگ سے ہوتا ہے اور نہ ہی نقش و نگار سے بلکہ فرق صرف کپڑے کی بنیاد پر ہوتا ہے، جو مہنگا یا سستا ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اجرک کا استعمال صرف خاص مواقع تک محدود نہیں بلکہ یہ روزمرہ زندگی کا بھی حصہ ہے۔ پیدائش سے لے کر شادی اور پھر موت تک انسانی زندگی کے تمام اہم مراحل میں اجرک کسی نہ کسی صورت موجود رہتی ہے۔ اسے بار بار استعمال کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بوسیدہ ہو جائے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اجرک صرف زیبائش نہیں بلکہ سندھی سماج کے ساتھ جڑی ایک زندہ روایت ہے۔‘

اجرک تنازعہ اور لسانی کشیدگی
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری تنقید کو تجزیہ نگار لسانی کشیدگی کی چنگاری قرار دیتے ہیں۔
آئی بی اے کے سوشل سائنس شعبے کے پروفیسر اور مصنف فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ’گزشتہ چند سال میں ایک خیال عوامی اور سماجی سطح پر نظر آتا ہے، وہ یہ کہ سندھی آبادی کا کراچی میں انخلا کافی بڑھ گیا اور یہ لسانی عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس احساس کا تعلق کراچی کے انفراسٹرکچر سے ہے جو پچھلے پندرہ بیس سال سے بالکل خراب ہوا۔ چاہے سڑکیں ہوں، صفائی ہو یا بچے گٹر میں گر رہے ہوں، لوگ اس کو پیپلز پارٹی کی گورننس سے جوڑتے ہیں۔‘
فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ بھی ان کے پاس ہے، جو پہلے صوبائی سطح پر تھی اور ایم کیو ایم لوکل سطح پر تھی۔ اس سے ایک بیلنس آف پاور تھا لسانی اور سیاسی بنیادوں پر، جو اب ختم ہو گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم اپنی لیڈرشپ، تنظیمی اور نظریاتی بحران کا شکار ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کا اثر و رسوخ بڑھ گیا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’جو اجرک سے متعلق چیزیں نظر آتی ہیں، ان کے پیچھے سیاسی عنصر بھی موجود ہے اور لسانی بھی۔ یہ خطرناک بات ہے کیونکہ کراچی اس وقت بوائلنگ پوائنٹ پر ہے۔‘
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر عاصمہ فیض کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ کسی بھی ثقافتی علامت کو نشانہ بنانے میں عموماً سیاست شامل ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ایک سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اجرک سندھی قوم کی اولین علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب سندھی، بعض جماعتیں یا حکومت اسے اہمیت دینے کی کوشش کرتی ہیں تو غیر سندھی برادری اس مسئلے کو اٹھا کر جوابی کارروائی کرتی ہے۔‘