معروف صحافی اور فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی جمعہ کے دن صوبہ قندھار میں مقیم افغان اسپیشل فورسز کے ساتھ افغان کمانڈوز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کے بارے میں رپورٹنگ کر رہے تھے کہ نزدیک سے افغان سیکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان جھڑپ شدت اختیار کرگئی اور دورانِ رپورٹنگ یہ زخمی ہوگئے اور بعد ازاں ان کی ہلاکت ہوگئی۔
دانش صدیقی کا تعلق بھارت کے شہر دلی سے تھا اور انہوں نے دلی کی جامعہ ملیہ سے اکنامکس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، پھر اے جے کے ماس کمیونیکمیشن سے صحافت میں ڈگری لی، یہ گزشتہ 10
سال سے روئٹرز
خبر اجنسی کے لئے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
بی بی سی کے مطابق
دانش صدیقی نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ:
''
جھڑپ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک چھرے سے ان کا بازو زخمی ہوگیا تھا اور جب طالبان سپین بولدک میں لڑائی کے دوران پیچھے ہٹے تو ان کا علاج کیا گیا اور وہ ٹھیک ہو رہے تھے۔ پھر وہ دکانداروں سے بات کرنے لگے تو طالبان نے سیکیورٹی فورسز پر دوبارہ حملہ کیا اور دانش بھی اس کی زد میں آگئے یوں ان کی ہلاکت ہوگئی۔

دانش کہتے تھے کہ:
''
خطروں کا کھلاڑی ہوں، معصوم لوگوں پر ہونے والے مظالم دنیا کو دکھاتا ہوں مگر اپنے گھر والوں سے دور رہتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میرے گھر والے بھی سوچتے ہوں گے کہ میں ملازمت کی وجہ سے ان سے اتنا دور ہوں جتنا ایک فوجی اپنے گھر والوں سے دور ہوتا ہے۔ میں مظالم پر سخت ماحول میں جا کر بھی آواز بلند کرتا ہوں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ وقت مجھ پر بھی ایک دن آئے گا اور میں انہیں گولیوں کی نظر ہو جاؤں گا۔ جذبہ انسانیت اور سچی صحافت میری رگوں میں رچ بس گئی ہے، میری بنائی گئی تصاویر بنا کچھ بولے بھی سب کو بول دیتی ہیں، میں اتنا کمزور نہیں کہ آواز نہ اٹھاؤں، میری تو تصاویر بھی اپنے آپ میں ایک درد رکھتی ہیں۔ مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا، مر گیا تو خدا کو جواب دہ ہونے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں کسی بات پر سچ نہ بولنے پر خدا مجھے امانت داروں اور صادقوں میں شمار نہ کرے۔
''