میں اپنے بچوں کے لئے تڑپتا ہوں ۔۔ بچوں سے عشق وہ بھی کرتے ہیں جن کی ملاقاتیں نہیں ہوتیں، بچے کی کسٹڈی باپ کو نہ ملنے پر باپ کا رلا دینے والا پیغام

image

بچے کے لئے جس قدر ماں اہمیت رکھتی ہے، بالکل اسی طرح باپ کی بھی اپنی الگ اہمیت، الگ مقام ہے اور اسی سے دنیا میں عزت ہے۔ کہا جاتا ہے جس گھر میں ماں نہیں، وہ قبرستان بن گیا ہے۔ لیکن جن گھروں میں باپ کا سایہ نہیں ہوتا وہاں شفقت کا ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے، ہر کوئی سوال جواب کرنے لگتا ہے، ایک باپ ہی تو ہوتا ہے جو ہر مشکل پریشانی میں بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرلیتا ہے۔

باپ کے مرنے سے گھر گھر نہیں دوزخ بن جاتا ہے اور بعض اوقات باپ زندہ ہو تو بھی شفقت کا ہاتھ نہیں مل پاتا۔ والدین کی علیحدگی کے کیسز کا اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر بچے کی کسٹڈی ماں اور نان نفقے کی ذمہ داری باپ کو سونپ دی جاتی ہے، مگر بیچارہ باپ اپنی ہی اولاد سے عدالت کی اجازت کے بغیر نہیں مل سکتا اور ملائی کا وقت بھی محض 1 گھنٹہ طے کیا جاتا ہے جیسے باپ بچے سے نہیں قیدی اپنے اہلِ خانہ سے مل رہا ہو۔

ایسے ہی ایک شخص کی کہانی ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں جن کا تعلق کراچی کے علاقے لانڈھی سے ہے اور وہ ایک مڈل کلاس فیملی کے سربراہ ہیں، ان کے 4 چھوٹے بھائی بہن ہیں، جن کی انہوں نے کفالت خود کی، سب کی شادی کروائی اور پھر خود شادی کی، خود شادی تو کرلی، 8 سال میں 2 بچوں سے بھی اللہ نے نوازا، مگر ان کی اور بیگم کی گھریلو ناچاقی اس قدر بڑھ گئی کہ بات علیحدگی تک پہنچ گئی، اور یہ سب اس لئے ہوا کیونکہ ان کی بیگم نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا شوہر اپنے بھائی بہنوں کی مالی مدد کرے جبکہ وہ شوہر گھر میں ہر طرح کی سہولت مہیا کر رہا تھا۔

علیحدگی سے گزارہ نہ ہوا، میاں بیوی کی طلاق ہوگئی، اب چونکہ بچے چھوٹے تھے، عدالت نے بچوں کی کسٹڈی ماں جو جبکہ کھانے پینے کے اخراجات والد کے حوالے کر دیئے، وہی باپ جو سب کچھ حساب سے اپنی کم تنخواہ میں پورا کر رہا تھا اب وہ اس قابل نہیں رہا کیونکہ کورٹ کچہری کے معملات اور بچوں سے ملنے کے لئے الگ اجازت نامے کی فیس ادائیگی کے چکر میں خود بے یارو مددگار گھوم رہا ہے۔

رحیم کہتے ہیں کہ: '' میں بھی باپ ہوں، میں بھی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہوں، مجھے بھی بچوں سے عشق ہے، مجھے ان سے ملنے نہیں دیا جاتا، قیدیوں کی طرح ملتا ہوں، سسرال والوں نے بیوی کو تو طلاق دلوائی، لڑ لڑ کر بچوں کو ساتھ رکھنے کا بھی عدالتی حکم مانا، مگر جب بات بچوں کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات کی آئی تو باپ کو گھسیٹ دیا۔ ''

آخر کب تک یوں بچوں کی کسٹڑی کیسز میں والد کو بچوں سے ملنےکے لئے بھی اجازت درکار ہوگی، اور کتنے باپ اپنی اولاد سے دور رہیں گے۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts