میری ڈیلیویری کے وقت ہسپتال میں ڈاکٹروں نے کوئی مدد نہیں کی ۔۔ بیماری میں تڑپتی ماں کی وہ کہانی جو معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے

image

شادی کے بعد بیٹی اپنے گھر میں خوش رہے یہ خواہش ہر ماں باپ کرتے ہیں لیکن غربت کی لکیروں میں گھرے ہوئے والدین کی بیٹی اگر شادی کے بعد بھی تڑپتی رہے اور بنیادی ضروریات سے دور رہے تو والدین کو اپنی بے بسی پر افسوس ہوتا ہے۔

بھارت سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے بتایا کہ میری شادی 18 سال کی عمر میں 30 سالہ ٹرک ڈرائیور سے ہوئی تھی۔ ہم دونوں کی عمروں میں جتنا فرق تھا اس سے زیادہ رویوں میں تھا۔ اس شادی سے اگر مجھے کچھ ملا تو وہ مار پیٹ، لڑائی جھگڑا اور میریٹل ریپ تھا ۔ میرے شوہر نے مجھے ایک دن بھی صحیح سے نہ رکھا وہ گھر میں ہوتا تو مسلسل میری تذلیل کرتا رہتا تھا اور گھر سے باہر جاتا تو میں اپنی چوٹوں کے زخموں پر مرہم ہی لگاتی رہتی تھی۔ کبھی والدین کو کچھ نہ کہا کیونکہ وہ غربت کے مارے میرے اخراجات اٹھا نہیں پا رہے تھے جس وجہ سے انہوں نے میری شادی کردی تھی۔

غموں کے پہاڑ کچھ کم نہ تھے کہ ایک دن میرے شوہر نے مجھے ذرا سی بات پر مارنا پیٹنا شروع کیا تو دروازے پر دستک ہوئی جب معلوم ہوا کہ یہ میرے شوہر کی پہلی بیوی ہے اور اس کا ایک بچہ بھی ہے۔ اس کی پہلی بیوی 7 ماہ کی حاملہ بھی ہے۔ کچھ دنوں تک ہم سب ایک ہی گھر میں رہے لیکن پہلی بیوی کے آنے سے مجھ پر تشدد بڑھ گیا وہ بھی مجھے نوکرانی کی طرح سمجھنے لگی۔

میری طبیعت خراب ہوئی تو کسی نے مجھے نہ پوچھا اور میری طبیعت بگڑتی گئی۔ شوہر نے بیوی کی باتوں میں آکر مجھے چھوڑ دیا اور گھر سے نکال دیا پھر خود ہی مجھے میرے باپ کے گھر کے باہر دروازے پر پھینک کر چلا گیا۔

میرے پاپا مجھے مجھے دیکھ کر ڈر گئے، حیران رہ گئے کہ جسم پر اتنے تشدد کے نشانات ہیں کہ قابلِ برداشت ہی نہیں ۔ پاپا مجھے ہسپتال لے کر گئے تو چیک اپ کے دوران ڈاکٹر نے بتایا کہ میں 3 ماہ کی حاملہ ہوں۔ اس وقت میرے پیروں سے زمین نکل گئی کہ میرے اپنے خرچے پورے نہیں ہو رہے اس ننھی جان کو دنی امیں کیسے لاؤں گی مگر پاپا نے مجھے بھرپور سیکیورٹی فراہم کی، میرا خیال کیا، میری ہر ضرورت کا خیال کیا۔ مجھے ایک مرتبہ پھر صحت مند بنانے کی کوشش کی۔

زندگی جینا شروع ہی کی تھی کہ 8 ویں ماہ میں طبیعت سنبھلنے میں نہ آئی اور اچانک بیہوش ہوگئی اس وقت ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہوا کہ مجھے ایڈز ہے اور یہ بیماری مجھے میرے شوہر سے لگی تھی۔ جب ڈاکٹر کو معلوم ہوا مجھے یہ مرض ہے اس نے مجھ سے دوری اختیار کرنی شروع کردی یہاں تک کہ جب میری ڈیلیویری کا وقت آیا تو ڈاکٹر نے مجھے ہاتھ نہ لگایا اور نہ آپریشن کیا بلکہ کہا کہ خود محنت کرو اور اپنی ڈیلیویری خود کرو تمہیں ایڈز کا مرض ہے۔ ہم تمہیں اور تمہارے بچے کو بچا کر خود کو کیوں بیماری میں مبتلا کریں؟

یہ وہ لمحہ تھا جب میں موت کے منہ میں تھی کیونکہ جسم میں خون کی کمی میری جان کے در پے تھی اور ایک ننھی جان جو جسم سے جدا ہونے والی تھی اس کو کیسے اس دنیا میں لاتی۔ خُدا نے میری جس طرح مدد کی وہ میں جانتی ہوں لیکن 8 ویں ماہ سے ہی مجھے یہ خوف تھا کہ کہیں میری بچی مر نہ جائے یا مری ہوئی پیدا نہ ہو۔ میں وہ ماں ہوں جو اپنی ڈیلیویری خود ہی اکیلے لیبر روم میں کر رہی تھی، اس وقت ایک نرس کو ترس آیا اس نے میری مدد کی لیکن جوں ہی بچی پیدا ہوئی اس کی نال بھی نہ کاٹی اور قینچی مجھے ہی دے دی میں نے اوزار کو پکڑ کر مشکل سے یہ کام انجام دیا۔

بچی کے پیدا ہونے کے بعد ڈاکٹر نے اس کو بس اس لیے ہاتھ نہیں لگایا کہ وہ بھی ایڈز کا شکار ہوگی اور یوں میری بچی تڑپتی ہوئی مرگئی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ دنیا کس قدر بے حس ہے شوہر نے مجھے اپنی جان لیوہ بیماری دے کر چھوڑ دیا اور میری بچی کو ڈاکٹر کی غفلت نے مجھ سے چھین لیا۔۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.