انڈیا کا ٹرانس جینڈر جوڑا، جن کے حمل کا فوٹو شوٹ وائرل ہو گیا

ضیا ایک لڑکے کے طور پر پیدا ہوئے لیکن انھوں نے ’ماں‘ کہلانے کا انتخاب کیا جبکہ زہد لڑکی پیدا ہوئے لیکن اب خود کو مرد کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

انڈین ریاست کیرالہ میں ایک ٹرانس جینڈر جوڑے کا فوٹو شوٹ وائرل ہے، جن کے ہاں جلد ہی بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔

21 سالہ ضیا پاول بہت خوش ہیں کہ ان کے 23 سالہ ساتھی زہد حاملہ ہیں اور ڈاکٹروں نے انھیں بتایا ہے کہ بچے کی پیدائش 9 فروری کو ہوگی۔

اگرچہ اس سے قبل ڈیلیوری کی تاریخ اگلے ماہ مقرر کی گئی تھی لیکن زہد کو ذیابیطس کی وجہ سے سوموار کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

ضیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اب بچے کی پیدائش 9 فروری کو ہو گی۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ لوگ اس بچے کی پیدائش کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں تو ضیا زور سے ہنس پڑیں۔

ضیا نے کہا کہ ’ٹرانس جینڈر کمیونٹی بہت خوش ہے تاہم ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے اندر اور باہر ایسے بھی لوگ ہیں جو فرسودہ تصورات میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرانس مردوں کے بچے نہیں ہو سکتے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

ضیا ایک لڑکے کے طور پر پیدا ہوئے لیکن انھوں نے ’ماں‘ کہلانے کا انتخاب کیا جبکہ زہد لڑکی پیدا ہوئے لیکن اب خود کو مرد کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

ان دونوں کی ملاقات تین سال قبل ریاست کے ضلع کوزی کوڈ میں ہوئی تھی۔

’ڈیڑھ سال قبل ہم نے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا‘

زہد کی بیضہ دانی اور بچہ دانی کو نہیں ہٹایا گیا کیونکہ وہ ٹیسٹوسٹیرون ہارمونل تھراپی سے گزر رہی تھی جبکہ ضیا اپنی پسند کی جنس کے لیے ہارمون تھراپی سے گزر رہی تھیں۔

ضیا کا کہنا ہے کہ ’تقریباً ڈیڑھ سال قبل ہم نے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا، اس وقت ہم نے ڈاکٹر کے مشورے پر ہارمونل تھراپی بند کر دی۔‘

ہم نے پوچھا کہ کیا آپ دونوں اس لیے ساتھ آئے تاکہ بچہ پیدا ہو؟ اس سوال پر ضیا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’نہیں ہمیں بس محبت ہو گئی تھی۔‘

ان کی محبت کا سلسلہ مختلف حالات میں اپنے اپنے خاندان سے علیحدگی کے طویل عرصے بعد پروان چڑھا۔

ضیا نے کہا کہ ’میں ایک قدامت پسند مسلم گھرانے سے ہوں، جنھوں نے مجھے کبھی کلاسیکل رقص سیکھنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ اتنے پرانے خیال کے تھے کہ انھوں نے میرے بال کاٹ دیے تاکہ میں رقص نہ کرسکوں۔ ایک یوتھ فیسٹیول تھا جس میں، میں نے شرکت کی اور پھر وہاں سے کبھی گھر نہیں لوٹی۔‘

نارمل ڈیلیوری

زہد کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ ان کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے۔ جب زاہد نے اپنے والدین کو حمل کے بارے میں بتایا تو ان کا رویہ مثبت ہو گیا۔ وہ زہد کی حمل کے دوران مدد کرنے لگے۔

لیکن کیا یہ جوڑا مالی طور پر بچے کی پرورش کرنے کے قابل بھی ہے؟

اس کے جواب میں ضیا کا کہنا ہے کہ ’زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ میرے پاس چھوٹے بچوں کو ڈانس سکھانے کا کام ہے جبکہ زہد ایک اکاؤنٹنٹ ہیں۔ ابتدائی طور پر انھوں نے حکومت کی طرف سے بنائے گئے تھیرووننتاپورم کے جینڈر پارک میں کام کیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

ہم جنس پرست انڈین امریکی جوڑے شادی کے لیے منفرد انداز اپنانے لگے

عدالتی فیصلے کے باوجود ہم جنس پرست انڈین جوڑا خوف زدہ کیوں؟

'میں عورت کے جسم میں بے چین تھا'،

ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ جوڑے کی پیدائش کسی بھی نارمل مرد اور عورت کی طرح ہو گی۔ ڈاکٹروں کو اس معاملے پر میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں، اس لیے ان سے تبصرہ نہیں لیا جا سکا۔

پیچیدہ ہارمون تھراپی

ڈاکٹر مہیش ڈی ایم ایک اینڈو کرائنولوجسٹ ہیں اور وہ بنگلورو کے ایسٹر سی ایم آئی ہسپتال میں جنسی تبدیلی کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک بار حمل کا دور ختم ہو جانے کے بعد، وہ جنسی ہارمون تھراپی دوبارہ شروع کر سکتے ہیں اور اپنی خواہشات کو پورا کر سکتے ہیں۔ جب تک بیضہ دانی اور رحم کو نہیں ہٹا دیا جاتا تو 40 سال کی عمر تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔‘

ڈاکٹر مہیش ایک خاتون کی جنس تبدیل کرنے کے معاملے میں شامل رہے ہیں۔ ایڈم ہیری پائلٹ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے انھوں نے جنس تبدیل کر عورت سے مرد بننے کا فیصلہ کا تھا۔

ضیا اور زہد کو بتایا گیا ہے کہ جنس کی تبدیلی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایک بار جب ان کے سرٹیفکیٹ پر نئی جنس کا اندراج ہو جائے گا تو قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔

لیکن کیا ضیا اور زہد والدین بننے والے پہلے ٹرانس جینڈر جوڑے ہیں؟

ضیا نے پھر ہنستے ہوئے کہا ’ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں ابھی تک کسی نے خود کو اصل والدین نہیں کہا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.