ایسا فرائڈ چکن جو غربت اور قحط میں تخلیق ہوا اور پکوانوں کی دنیا میں جاپان کی پہچان بن گیا

کراگے جاپان میں مقبول ترین کھانوں میں سے ایک ہے یہ تلی ہوئی چکن کا ایک نازک لیکن پیچیدہ قسم ہے اور پورے ملک میں یہ ایک لازمی خوراک ہے۔
کراگے
Getty Images

ناکاٹسو ایک چھوٹا سا قصبہ  ہے جس میں تقریبا ً ’کراگے‘ (فرائڈ چکن کی ایک قسم ) کی 50 دکانیں ہیں۔ لوگوں کے خیال میں یہ نہ صرف جاپان بلکہ ممکنہ طور پر دنیا کا بہترین فرائڈ چکن ملتا ہے۔

کراگے جاپان میں مقبول ترین کھانوں میں سے ایک ہے یہ تلی ہوئی چکن کا ایک نازک لیکن پیچیدہ قسم ہے اور پورے ملک میں یہ ایک لازمی خوراک ہے۔ یہ لذید خستہ پکوان اتنا ہر دلعزیزہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ ملک گیر مقابلے میں ووٹ ڈالتے ہیں تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ کون سی کراگے کی دکان بہترین ہے۔

حالانکہ ٹوکیو، کیوٹو اور اوساکا جیسے بڑے شہروں کی دکانوں کو کسی بھی بڑے پیمانے پر ہونے والے مقابلے میں  غلبہ حاصل ہونا چاہیے لیکن یہ کیوشو کے جنوبی جزیرے کے چھوٹے سے شہر، ناکاٹسو کی دکانیں ہیں، جو عام طور پر سب سے زیادہ انعامات حاصل کرتی ہیں۔ 

’کراگے گرینڈ پرائز ‘ جاپان میں منعقد ہونے والا سالانہ مقابلہ ہے جس میں جتنے والے  وہ ہوتے ہیں جن کے پاس سب سے زیادہ  خستہ، رسیلے  اورسب سے زیادہ ذائقے دار فرائیڈ چکن ہوتے  ہیں اور تقریباً ایک ہزار  دکانیں اس مقابلے میں شرکت کرتی ہیں۔

سنہ 2022  تک یہہ مقابلہ مکمل طور پر مقبولیت پر مبنی تھا، جس میں عام شہری اپنی پسندیدہ جگہوں پر ووٹ ڈالتے تھے  لیکن 2023 میں،قوانین تبدیل ہو رہے ہیں  اور اب ذائقے کی جانچ کے لیے  جج مقرر کیے جائیں گے جو  بہترین کاراج کے لیے حقیقی فاتح کو انعام دیا جائے گا۔  

آخر اس سب کی اہمیت کیوں ہے ؟ اور ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ س چھوٹے سے قصبے ناکاٹسو میں نہ صرف جاپان بلکہ ممکنہ طور پر دنیا کا بہترین فرائیڈ چکن  ملتا ہے؟

اب اضافی جانچ پڑتال اور ذائقے کو پرکھنے والے اہلکاروں کے ساتھ ناکاٹسو میں کاراج کی دکانوں کی دکانوں کے پاس پورے ملک میں اوسط دکانوں کے نسبت  اب کھونے کو بہت کچھ ہے اور انھیں پہلے سے کہیں زیادہ ثابت کرنے کی ضرورت ہوگی۔  جاپان کے  کراگے دارالحکومت کے طور پر اس شہر کی پوری ساکھ اور ثقافتی پکوان کی سینکڑوں سال کی تاریخ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

یہ تلی ہوئی چکن کی ایک قسم ہے جو جاپان میں اپنی سادگی اور ذائقوں کی پیچیدگی دونوں کے لیے مشہور ہے۔ اس میں چکن پر  پوٹیٹو سٹارچ (آلو کا نشاستہ) کو کوٹنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، اس میں  چکن  نگٹس سائز کے بغیر ہڈی کے گوشت ٹکڑے استعمال ہوتے ہیں  جو سویا ساس، ادرک، نمک، لہسن، پھلوں اور دیگر اعلیٰ چیزوں کے مرکب میں میرینیٹ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر خفیہ اجزا جو ذائقے کو بڑھچاتے ہیں جو ہر  نوالے  پر آپ کو حیران کر دیتے ہیں۔  

لوگ یہاں قطاروں میں کھڑے ہو کراپنے پسندیدہ کھانے کا انتظا رکرتے ہیں حتیٰ کے مشوہر امریکی شیف اینتھونی بورڈین  بھی ان کے دیوانے تھے  انھوں نے ایک بار  کہا ’میں ان ڈیپ فرائیڈ چکن کٹلیٹس کا عادی ہوں۔۔۔ یہ ایک مجرمانہ خوشی دیتے ہیں ۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ ناریتا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لاسن کہاں تلاش کرنا ہے، اور میں انھیں  کھائے بغیر  کبھی جہاز پر نہیں چڑھتا۔‘

 یہاں تک کہ جاپان کراگے ایسوسی ایشن  نے ایک فلم کراگے بنائی‘۔  جس میں اس ذائقہ دار  سنیک کو’قومی کھانا‘  قرار دیا گیا۔

لیکن بنیادی طور پر کراگے ایک جو مختلف براعظموں کی کثیر نسل تاریخ کا نتیجہ ہے جو نئی چیزوں کی دریافت،  ثقافتی ملاپ، قحط اور عالمی جنگوں پر محیط ہے۔

کراگے کی ابتدا کا سراغ  16 ویں صدی سے ملتا ہے جب پرتگالی مشنری ناگاساکی کی بندرگاہ کے ذریعے کیوشو جزیرے کے جاپانی ساحلوں پر پہنچے اور اپنے ساتھ تلے ہوئے کھاناوں کی ترکیبیں لائے۔ آہستہ آہستہ، جاپانی باشندوں نے ان میں سے کچھ مغربی طریقوں کو اپنانا شروع کیا جسے آج ٹیمپورا سمجھا جاتا ہے۔  تاہم، اس وقت جاپانیوں کی خوراک بنیادی طور پر پمچھلی پر مبنی تھی، اور وہ مرغی یا  گوشت نہیں  کھاتے تھے جسے ان کے بدھ مت کے عقائد سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

اس جزیرے پر اس وقت تک چکن کھانے کا تصور بھی نہیں تھا جب تک یہاں ایک آفت نہیں ٹوٹی تھی۔ کیوہو دور  (1716-1736) میں  ایک بڑے  قحط نے کیوشو جزیرے پر چاول کی فصل کا صفایا کر دیا اور دسیوں ہزار لوگ مارے گئے۔ کیوشو میں لائیو سٹاک پروڈکشن کے مطابق ، مالیات کی بحالی کے لیے، کسانوں کو مزید انڈے فروخت کرنے کے لیے زیادہ پولٹری فارمنگ کرنے کی ترغیب دی گئی اور آخر کار جب یہ مرغیاں انڈے دینے  کی عمر سے گزر نکل گئیں تو لوگوں نے انھیں کھانا شروع کردیا۔

اگلی بار جاپان میں غذائی قلت کا آغاز  1868 میں ہوا، جب جاپان کے نئے شہنشاہ نے صنعت کاری، فوجی ٹیکنالوجی اور یہاں تک کہ لوگوں کی خوراک کے حوالے سے مغربی خیالات اپناتے ہوئے معاشرے کی زبردست اصلاح کا آغاز کیا۔ شہنشاہ میجی نے ملک کی سرحدیں کھول دیں اور چین اور مغرب کے پکوانوں کے  اثرات کو  ملکی ثقافت میں داخل ہونے کی اجازت دی  اور اس کا مطلب زیادہ گوشت کھانا تھا۔

لیکن  دوسری جنگ عظیم کے بعد تلی ہوئی چکن خاص طور پر کراگے یہاں کی پہچان بن گیا۔ جنگ کے بعد   تباہ حال جاپان  میں  خوراک کی قلت  تھی اور چاول کی کمی کے  باعت جاپانی خوراک میں ڈرامائی  تبدیلی آئی۔  زیادہ تر خوراک  نوڈلز پر مبنی پکوانوں میں بدل گئی (جیسے رامن)، نیز برائلر مرغیاں، جو  گائے یا خنزیر کی نسبت زیادہ آسان اور تیز ی سے پک جاتیں۔ کیوشو جزیرہ پہلے ہی پولٹری سنٹر کے طور پر جانا جاتا تھا (آج تمام برائلر مرغیوں میں سے آدھے سے زیادہ کیوشو سے آتےیہیں) اور گوشت پکانے کے نئے طریقوں نے  بھوک سے  بے حال  ملک کی مدد کی۔

 کراگے کی جڑیں ناکاٹسو شہر کے پڑوسی شہر اوسا  میں ایک ریستوران رائی رائیکین میں  مل سکتی ہیں۔  سنہ 1950 کی دہائی کے آخر میں اسٹیبلشمنٹ نے  اپنے سیٹ مینو  میں ڈیپ فرائیڈ چکن  کراگے پیش کرنا شروع کیا۔ وہاں سے ہوتا ہوا یہ ایزاکایا   میں  ایک چھوٹے سے   شوسوکے نامی شراب خانے تک پہنچا  جس نے رائی رائیکین سے  چکن تلنے کا طریقہ سیکھا۔ شوسوکے کا مالک اصل میں مقامی کسانوں سے مرغیاں خرید کر قصابوں کو فروخت کر رہا تھا جب کہ اس کی بیوی شوقین گاہکوں کو کراگے اور چالوں کی  وائن پیش کرتی۔  لیکن ایک مسئلہ تھا اس کے کراگے  گاہک بنیادی طور پر چاول کے کاشتکار تھے جو چاول کی کٹائی کے وقت صرف اس کے کھانے پینے کی ادائیگی کر سکتے تھے، اس لیے وہ مسلسل پیسوں کی تلاش میں تھا اور  یہ کاروبار  بمشکل زچل پا رہا تھا۔ تب  بڑے فارمز نے برائلر مرغیوں کو صنعت  بنانا شروع کر دیا اور ان کا چکن بیچنے کا کاروبار کم منافع بخش ہوتا جا رہا تھا۔

کراگے
Getty Images

اوسا کراگے کے امریکہ میں صدر ایوکو یوشیتاکےکہنا ہے کہ ’ شوسوکی نے پہلا ٹیک آؤٹ ریسٹورنٹ شروع کیا جو صرف کراگے پیش کرتا تھا۔ اس نے اپنا ہدف گھریلو خواتین کو بنایا جو  کیش ادا کرتی تھیں ۔‘

صرف کراگے  پیش کرنے والی یہ جگہ  اوسا کے رہائشیوں میں  فوری طور پر مقبول ہو گئی جہاں پروٹین کے اس سستے، تیز اور مزیدار ذریعہ کو اپنا لیا گیا۔ آج اوسا میں 40 سے زیادہ کراگے کی دکانیں یں اور یہ خستہ تلی ہوئی لذیذ دعوت کے  مراکز میں سے ایک ہے۔ لیکن ہمسایہ  شہر ناکاٹسو میں اس کی منتقلی نے اس فرائیڈ چکن کو قومی اور بعد میں بین الاقوامی شہرت دی۔ 

شیف آراتا ہوسوکاوا اور شوجی موریاما دونوں ہی کراگے کے دیوانے  تھے اور دونوں نے محسوس کیا کہ وہ تلے ہوئے کھانے سے مزید ذائقہ لے سکتے ہیں۔ یوشیتاکے کے مطابق، 1970 میں، ہر آدمی نے ناکاٹسو میں اپنی کراگے کی دکان کھولی جہاں انھوں نے اس کی میرینیشن  (مسالے لگانا ) کے عمل کو بہتر کیا، سیب کے ٹکڑے ڈالے، اور  چکن کو زیادہ بدیر تک اس میں رکھا تاکہ چکن میں مزید ذائقہ پیدا ہو۔ یہ دکانیں فوری طور پر ہٹ ہوئیں اور  کئی لوگوں نے ان سے متاثر ہو کر ان کی نقالی کی جس ننے ناکاٹسو کو کراگے کا گڑھ بنا دیا۔

آج، ناکاٹسو میں باورچیوں نے اپنے کراگے  کو اگلے درجے پر  پہنچا دیا ہے۔  تقریباً  50 دکانوں کے درمیان صحت مند مقابلے نے باورچیوں کو کھانا پکانے کے وقت، سویا اور نمک پر مبنی میرینیشن تک ہر چیز کے ساتھ  تجربہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ناکاٹسو کی تقریباً ہر دکان میں ایک خفیہ جزو ہوتا ہے جسے وہ بانٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور جو انُ کے کراگے کو باقیوں سے منفرد کرتا ہے۔

تورشین کو ہی لے لیجیے ، یہ ایک دکان جسے ناکاتٹسو کے رہائشی کراگے ماسٹر شنیچی سومی چلاتے ہیں، جو  ’کراگے  گرینڈ  پرائز‘ میں پانچ بار کراگے گولڈ میڈل حاصل کر چکے ہیں۔ سومی نے اپنی کراگے کی ترکیب کو مکمل کرنے میں  15 سال گزارے۔ آج، وہ چکن کے ہر حصے کو الگ الگ درجہ حرارت پر پکاتے ہیں اور ناکاتٹسو میں ان کے کراگے کو مسلسل بہترین درجہ  حاصل ہے۔  

اس کے بعد تاکائی تاتیشی، کرراگے  شاپ کی خاتون مالک ہیں ان کی کوکویا شاپ اپنے سالٹ راییس مالٹ میں میرینیڈ چکن کی وجہ سے شہر میں سب سے منفرد ہے۔ ان کا کہنا ہے ’میں اعتماد کے ساتھ جو کہہ سکتی ہوں وہ یہ ہے کہ میں چکن سے اضافی چربی کو احتیاط سے ہٹاتی ہوں۔ مجھے اپنے گوشت کی تیاری پر  پورا بھروسہ ہے۔ ‘ ان کے چکن کی ساخت نرم اور ذائقہ  تیکھا ہے۔ 

ناکاٹس کراگے کے بانی شوجی موریامے کےبھتیجے کوجی  موریامہ کی کراگے کی دکان  کراگے گرینڈ  پرائز میں پہلی پار چیمپئین بنی۔  وہ نمکین خستہ کراگے بناتے ہیں جس کا ہر ٹکڑا رس سے بھرا ہوتا ہے جس میں کچھ پھل شامل ہوتےہیں جو چکن کے ذائقے کو لاجواب بنا دیتے ہیں۔

کراگے ناکاٹسو میں صرف ایک کھانے کی  چیز نہیں بلکہ یہ ایک شناخت ہے۔ ہر موسم خزان میں یہاں کراگے فیسٹیول ہوتا ہے  جس میں جاپان اور دنیا بھر سے 50 ہزار افراد  آتے  ہیں اور یہا ں کی قریباً ہر دکان  اس میں شرکت کرتے ہے۔ اس قصبے کے پاس سب زیادہ فرائڈ چکن سرو کرنے کا گینز ورلڈ ریکارڈ بھی ہے۔ جس کا وزن 1667.30 کلو گرام ہے۔ یہ ریکارڈ سنہ2019 میں بنایا گیا۔

ناکاٹسو میں موجود ان 40  دکانوں میں شہر میں ہر کسی کے لیے پسندیدہ گراگے موجود ہے۔ یہ غربت سے ابھرنے والا کھانا ہے جس نے ایک جزیرے کو بھوک سے نکالا اور آج کا کے خوش کن ذائقے تقریبات اور تہواروں کا لازمی جز بن گئے ہیں۔ شادیوں، جنم دنوں اور ہر بڑے تقریب بشمول کرسمس کے لاکھوں جاپانی فرائد چکن کھاتے ہیں۔ اور کراگے گرینڈ پرائز کے ذریعے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کا شہر جاپان میں فرائڈ چکن کا دھڑکتا ہوا دل ہے۔

کراگے گرینڈ پرائز ایک قومی مقابلے کے طور پر سنہ 2010 میں ٹوکیو میں شروع ہوا جس کا مقصد کراگے کے لذیذ  ذائقے کی ملک بھر میں تشہیر دینا تھا۔ سنہ 2002 تک اس کے لیے ووٹن مکمل طو رپر آن لائن تھی اور زیادہ تر مشہور کراگے کی دکانیں کی مقابلہ میں کامیاب ہوتیں۔ جاپان کراگے ایسوسی ایشن کے مطابق ایوارڈ کی قدر کو بڑھانے کے لیے ججوں کے جانب سے اسے چکھنے کے مرحلے کا اضافہ کیا گیا۔

ججوں کا فیصلہ کراگے کے تلے ہوئے رنگ، اس پر لگے آمیزے، گوشت اور آمیزے کے تناسب، اس کے رسیلے پن، ذائقے،  قیمت، اور پکنے کے درجہِ حرات پر منحصر ہوگا۔

جب آپ دکانداروں سے بات کریں پتا چلتا ہے کہ وہ ماضی کے مقابلوں کے بارے میں لگ بھگ غیر متفق تھے۔ لیکن اس بار لگتا ہے وہ سمجھ رہے ہیں کہ مقابلہ الگ ہوگا۔ ٹورشن کے سنیچی سومی کا کہنا ہے کہ ’اگلا مقابلہ اصل مقابلہ ہوگا۔ میں چیلنج  کروں گا اور جیتنے کی کوشش کروں گا۔ ‘

ناکاٹسو کراگے ایسوسی ایشن کے سی ای او ماشاہیکو اینوئی  کا کہنا ہے کہ ’اگلا مقابلہ اہم ہے کیونکہ لوگوں کو پتا چلے گا کہ کون سی دکان اصل میں نمبر ون ہے۔ لیکن میرا مقصد سب کو یہ بتانا ہے کہ ناکاٹسو کا کراگے خاص ہے۔ ‘کراگے استقامت کی علامت ہے۔ یہ سمجھداری کو ظاہر کرتا ہے، یہ بتاتا ہے جاپان کس طرح مشکلات  سے سنبھلا۔ اور ناکاٹس کے رہائشیوں کے لیے  یہ ایک ایسا کھانا ہے جو گھر جیسا لگتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.