توہین مذہب کا الزام: ننکانہ میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والا شخص کون تھا؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۔

’میرے بیٹے کی جب سے اپنی بیوی سے طلاق ہوئی تھی، اُس کا ذہنی توازن بگڑ گیا تھا۔ اس نے شادی بھی مجھ سے پوچھے بغیر کی تھی۔ میرا بیٹا ایسا نہیں، جیسا کہا جا رہا ہے۔‘

یہ الفاظ اس خاتون کے ہیں جن کے بیٹے پر توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد ننکانہ صاحب کے ایک قصبے میں ہجوم نے تھانے میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ سنیچر کی صبح سات بجے کے قریب پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے ایک قصبہ واربرٹن میں پولیس کو اطلاع ملی کہ ایک شخص مذہبی اوراق کی توہین کا مرتکب ہو رہا ہے۔

پولیس نے اُس شخص کو گرفتار کر کے تھانہ واربرٹن منتقل کیا تاہم اِسی دوران مساجد میں اعلانات ہونے کے بعد ایک ہجوم نے تھانہ پر دھاوا بولا اور ملزم کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا جبکہ تھانہ میں موجود پولیس عملہ اس مجمع پر قابو پانے میں ناکام رہا۔

ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے کا نام وارث علی تھا۔

وارث علی کون تھا؟

وارث علی کی والدہ کا نام نوراں بی بی ہے۔ نوراں بی بی نے دو شادیاں کیں لیکن دونوں ہی طلاق پر ختم ہوئیں۔

نوراں بی بی نے بتایا کہ ’میرے بیٹے کی جب سے اپنی بیوی سے طلاق ہوئی تھی، اُس کا ذہنی توازن بگڑ گیا تھا۔ اس نے شادی بھی مجھ سے پوچھے بغیر کی تھی۔ میرا بیٹا ایسا نہیں، جیسا کہا جا رہا ہے۔‘

نوراں بی بی کی قریبی عزیزہ امیراں بی بی نے ہمیں بتایا کہ ’نوراں بی بی کی پہلی شادی ننکانہ صاحب کے علاقہ منڈی فیض آباد کے میاں خاں سے ہوئی جس سے ایک بیٹا اللہ دتہ ہوا لیکن پھر نوراں بی بی کی طلاق ہو گئی۔‘

نوراں بی بی اس واقعہ کے وقت منڈی فیض آباد میں تھی۔ اُنھوںنے بتایا کہ ’میں اپنے پہلے بیٹے کے پاس تھی جب مجھے اطلاع ملی۔‘

رائے اشرف، جو اسی گاؤں کے رہائشی ہیں، نے بتایا کہ ’وارث کی ماں کی پہلی شادی کی ناکامی کے بعد جسلانی گاؤں میں دوسری شادی عیسیٰ نامی شخص سے ہوئی۔ عیسیٰ پہلے سے شادی شدہ تھے اور اُن کے تین بیٹے تھے۔‘

اس شادی سے نوراں بی بی کے ہاں وارث علی پیدا ہوا لیکن نوراں بی بی کی عیسیٰ سے بھی طلاق ہو گئی اور یہ ایک بار پھر اپنے بیٹے وارث علی کے ساتھ عالیانوالہ گاؤں بھائیوں کے پاس آ گئیں۔

ننکانہ صاحب کے صحافی جاوید معاویہ اور صحافی و سماجی کارکن فیصل اعجاز گھارونے نوراں بی بی کے دونوں بھائیوں نذیر اور منشا سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ ’ہمنے وارث سے قطع تعلق کیا ہوا تھا، ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘

وارث علی کو اپنے باپ سے گاؤں میں پانچ مرلہ جگہ ملی تھی جس کو بیچ کر اُنھوں نے واربرٹن کے علاقہ سندرانہ ٹاؤن میں دو اڑھائی مرلہ کا پلاٹ خرید لیا۔

واربرٹن کے رہائشی چودھری محمد شاہد نے بتایا ’سندرانہ ٹاؤن سے گاؤں کا فاصلہ لگ بھگ پانچ کلومیٹر بنتا ہے۔ وارث محنت مزدوری کرتا تھا۔ اُس نے ماں کو راضی کیا کہ گاؤں چھوڑ کر اُس کے پاس آجائے۔‘

نوراں بی بی نے بیٹے کی بات مان لی اور اپنا تھوڑا بہت زیور بیچ کر ایک کمرے پر مشتمل گھر بنا لیا گیا۔

چودھری محمد شاہد نے بتایا کہ ’وارث علی کا ماں کے ساتھ جھگڑا ہوا جو ناراض ہو کر اپنے دوسرے بیٹے اللہ دتہ کے پاس منڈی فیض آباد چلی گئیں۔ وارث علی کا ایک رشتہ دا، اس کے گھر کے ساتھ ہی رہتا تھا، جس کا نام محمد بوٹا تھا۔ محمد بوٹا نے اُن کی شادی کروائی۔‘

پہلی بار توہین مذہب کا الزام

واضح رہے کہ اس سے قبل نومبر 2019 میں بھی وارث علی پر ایسا ہی الزام لگایا گیا تھا جس کے بعد لگ بھگ تین سال مقدمہ چلنے کے بعد انھیں الزام سے بری قرار دیا گیا۔

24 نومبر 2019 کو وارث علی پر مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مُدعی جہانگیر عالم تھے۔

جہانگیر عالم نے صحافی جاوید معاویہ اور فیصل اعجاز گھارو کو بتایا کہ ’عالیانوالہ میں محمد اشرف کے ڈیرہ کے پاس ایک روز بچوں نے شور مچایا کہ کوئی بندہ مقدس اوراق کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ ہم نے جا کر دیکھا تو یہ وارث علی تھا۔ ان پر مقدمہ ہو گیا اور بعد میں یہ چھوٹ گیا۔‘

عالیانوالہ گاؤں کے رہائشی عامر سجاد سکول ٹیچر ہیں جو گورئمنٹ ایلیمنٹری سکول جوگے کوٹ میں پڑھاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’جب اس پر پہلی بار بے حرمتی کا الزام لگا تو اُس کے بعد گاؤں والوں نے اس کو نماز پڑھتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔‘

’کہا جاتا ہے کہ جب پولیس تک بات پہنچی اُنھوں نے اس پر نظر رکھی اور پولیس کی جانب سے بھی کہا گیا کہ یہ تو نماز پڑھتا اور قرآن کی تلاوت کرتا ہے، یہ کیسے بے حرمتی کر سکتا ہے؟‘

تھانے میں کیا ہوا؟

سید زاہد حسین ممبر امن کمیٹی واربرٹن اور امام بارگاہ جامعہ جعفریہ کے متولی ہیں۔ ان کے مطابق ’سنیچر کی صبح ساڑھے چھ بجے سب سے پہلے میں نے 15 پر پولیس کو اطلاع دی کہ وارث علی کی جانب سے مذہبی اوراق کی توہین کی گئی ہے۔ میں نے اور پولیس اہلکار نے وارث سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کِیا تو اُس نے تین وجوہات بتائیں۔‘

’اول: بوٹا نے جھوٹی قسم اُٹھائی تھی۔ دوم: بیوی روٹھ کر چلی گئی تھی۔ سوم: میرا مکان جو کہ واربرٹن میں ہے، بوٹا اور کچھ دیگر لوگوں نے ہتھیا لیا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق سید زاہد حسین کاظمی نے مقدمہ درج کروایا جس میں لکھا گیا ہے کہ ’جب وہ فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلے تو انھوں نے بازار میں جا بجا مقدس اوراق دیکھے جن پر ایک تحریر کے ساتھ ایک مرد اور عورت کی تصویر لگا کر چھری آر پار کی گئی تھی۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’تھوڑی دیر میں چند دیگر اشخاص بھی ایسے ہی اوراق اٹھائے پہنچے جس کے بعد پولیس کو اطلاع ملی جو موقع پر پہنچی تو ملزم کو متشدد حالت میں چھپا ہوا پایا گیا اور حراست میں لیا گیا۔‘

جب ہجومنے تھانہ پر دھاوا بولا تو سید زاہد حسین وہیں موجود تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’جب تھانے پر حملہ ہوا تو پولیس اہلکار واش رومز میں چھپ گئے۔ میں ملزم وارث علی کے ساتھ ایک اور واش روم میں چھپ گیا۔‘

سید زاہد حسین کا کہنا ہے ’جب ہجوم نے تھانے پر دھاوا بولا تو ڈر کے مارے میں نے کلمہ پڑھ لیا اور اُس وقت دیکھا کہ وارث علی پریشان ہو گیا ہے اور مجھے تو وہ اپنے کیے پر نادم اور شرمندہ بھی لگ رہا تھا۔‘

جب ہم نے ڈی ایس پی نواز ورک سے اس سارے واقعہ کی بابت پوچھا کہ پولیس نے مجمع کو روکنے کی کیا اور کس طرح کوشش کی اور ناکامی کیوں ہوئی؟ تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ 'مجھے سب سے پہلے سات بج کر 45 منٹ کے قریب اطلاع ملی۔‘

’آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر میں موقع پر پہنچ گیا اور ملزم کو گرفتار کر کے تھانہ لے آیا۔‘

’جب ہم تھانہ پہنچے تو لوگ جمع ہو رہے تھے۔ ہم نے سمجھانے کی کوشش کی مگر تھانہ میں محض چھ سات اہلکار ہزار پندرہ سو لوگوں کو کیسے روکتے۔‘

اصل کہانی کیا ہے؟

رائے محمد اشرف، جو کہ عالیانوالہ گاؤں کے رہائشی ہیں، بتاتے ہیں کہ ’ہمارے گاؤں کی مسجد زیرِ تعمیر تھی۔ وارث مستری کے ساتھ وہاں مزدوری کر رہا تھا۔ مسجد کا کام مکمل کرنے کے بعد مستری اور مزدور، جن میں یہ بھی شامل تھا، ہمارے گھر کی تعمیر کا کام کرنے لگ گئے۔‘

’اسی دوران ایک دن محمد بوٹا نام کا شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ وارث علی نے میرے پچاس ہزار دینے ہیں۔‘

’بوٹا کے مطابق، دونوں ایک ہی رحمانی برادری کے ہیں، اور اس نے اس کی شادی کروائی، خرچہ کیا مگر یہ پیسے نہیں لوٹا رہا۔‘

’جبکہ وارث کا کہنا تھا بوٹا جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے دونوں کو آمنے سامنے بٹھایا اور تصفیہ کروانے کی کوشش کی کہ پچیس ہزار بوٹا چھوڑ دے مگر وہ نہ مانا۔‘

’وارث نے کہا کہ یہ مسجد میں جا کر حلف اُٹھا دے تو اس کو پیسے دے دوں گا۔ محمد بوٹا، وارث علی اور چند لوگ مسجد چلے گئے۔ بوٹا نے قرآن پر حلف اُٹھایا۔ اس کے بعد میں نے بوٹا کو پچاس ہزار دے دیے اور وارث میرے پاس مزدوری کرنے لگ پڑا۔‘

’جب پہلی بار اس پر بے حرمتی کا الزام لگا اور یہ جیل چلا گیا، بعد میں بری ہو گیا تو گاؤں نہ آیا کیونکہ ہمنے گاؤں میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ جب یہ میرے پاس کام کرتا تھا، تب یہ مسجد میں جا کر نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہتا تھا۔‘

محمد بوٹا اس واقعہ کے بعد سے گھر میں موجود نہیں۔ ان کی بیوی مقبولاں بی بی نے بتایا کہ ’لگ بھگ 15 سال پہلے وارث علی گاؤں سے ادھر آیا اور دو مرلے کا پلاٹ خریدا۔ خود ہی گھر بنایا اور پلستر کیا۔‘

’میرے شوہر نے سات سال پہلے اس کی شادی اپنی قریبی عزیزہ سے کروا دی جس پر ہمارا 60-70 ہزار خرچہ ہو گیا۔ تھوڑے ہی عرصہ میں طلاق ہو گئی اور یہ ہمارے پیسے نہیں لوٹا رہا تھا۔‘

’معاملہ عالیانوالہ گاؤں کے رائے محمد اشرف کے پاس چلا گیا۔ وہاں قرآن پر حلف لیا گیا۔ رائے اشرف نے ہمیں پچاس ہزار روپے دیے۔ وارث علی وہاں پانچ ماہ بدلہ میں کام کرتا رہا۔‘

محمد بوٹا کی بیوی مقبولاں بی بی نےبتایا کہ ’اُس کی اپنی سابقہ بیوی کی تصویر کے ساتھ میرے شوہر کی تصویر بھی اوراق پر چسپاں کی۔ یہ سب نامناسب تھا۔‘

واربرٹن سے تعلق رکھنے والے صحافی رانا آصف کا خیال ہے کہ ’بیوی سے طلاق شاید اس کو گوارا نہیں تھی یوں ردِعمل میں سابقہ بیوی پر ملبہ ڈالنے کے لیے اس نے ایسا کیا کیونکہ مقدس اوراق پر وارث کی سابقہ بیوی اور ایک مردانہ تصویر بھی چسپاں تھی۔‘

وارث کے ہمسایہ سرفراز احمد نے بتایا کہ ’یہ اپنے گھر میں زیادہ تر رہتا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا۔ بیوی کے چھوڑ جانے کے بعد یہ گھر کے اندر بیٹھ کر جادو ٹونے کرتا رہتا تھا۔ محلے میں اس کا اُٹھنا بیٹھنا نہیں تھا۔‘

عالیانوالہ گاؤں کے لوگ کیا کہتے ہیں؟

رائے اکرام عالیانوالہ گاؤں میں وارث کے بچپن کے دوست ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وارث علی اور میرا بچپن گاؤں میں اکٹھا گزرا۔ یہ مذہبی عقیدت کا حامل تھا، پڑھا لکھا نہیں تھا مگر قرآن پاک پڑھ رکھا تھا۔‘

’گاؤں کی گلیوں میں اگر کہیں اوراق پر مقدس ہستی کا نام یا عربی میں کچھ لکھا دیکھتا تو اُٹھا کر کسی اُونچی جگہ رکھ دیتا تھا۔‘

جیل سے آ کر وارث علی رائے اکرام سے ملا تھا۔ رائے اکرام کے مطابق ’میری اُس سے ایک گھنٹہ ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ اُس کا ذہن ٹھکانے پر نہیں اور متزلزل ہے حالانکہ جیل جانے سے پہلے اس کی ذہنی حالت میں مجھے ایسا ویسا کچھ نہیں لگتا تھا۔‘

اسی گاؤں کے ایک نوجوان محمد احتشام، جو لاہور کی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے طالب علم ہیں، کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس کو مسجد میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تھا۔‘

ایک رہائشی مہدی حسن کے مطابق ’وارث نے مسجد کی تعمیر میں بغیر پیسوں کے مزدوری کی تھی۔ وہ آتے جاتے مسجد کی دیواروں کو بعض دفعہ عقیدت سے چومتا ہوا بھی پایا جاتا تھا۔‘

جس مسجد کی تعمیر میں وارث علی نے حصہ لیا تھا، جہاں وہ نماز اور قرآن کی تلاوت کرتا تھا، اُس کے اِمام میاں سرفراز نے صحافی جاوید معاویہ کو بتایا کہ ’مجھ سے پہلے میرے والد محمد حسین مسجد کے امام تھے۔ اُن کی تین سال پہلے وفات ہوئی تو میں امام بن گیا۔ میرے والد کے زمانہ میں وارث علی مسجد آتا رہتا تھا، اس کی صفائی بھی کرتا تھا۔ پھر جب تین سال پہلے واقعہ ہوا تواُس کے بعد یہ ادھر نہیں آیا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.