بچوں کی پرورش کے لیے پانچ بہترین ملک جہاں تعلیم اور ماحول سمیت کئی چیزیں مثالی ہیں

نقل مکانی کے خواہشمند افراد کے لیے ایسی فہرست مددگار ثابت ہوسکتی ہے جس میں دنیا کے سب سے پُرسکون ممالک کا ذکر ہو تاہم جب ساتھ بچے بھی ہوں تو محض اوسط تنخواہ اور معاشی استحکام کو مدنظر رکھنا کافی نہیں۔
بچے
Getty Images

نقل مکانی کے خواہشمند افراد کے لیے ایسی فہرست مددگار ثابت ہوسکتی ہے جس میں دنیا کے سب سے پُرسکون ممالک کا ذکر ہو تاہم جب ساتھ بچے بھی ہوں تو محض اوسط تنخواہ اور معاشی استحکام کو مدنظر رکھنا کافی نہیں۔

آپ ممکنہ طور پر چاہیں گے کہ مقامی طور پر بچوں کی صحت، خوشی، تعلیمی معیار اور حتیٰ کہ خاندان کے لیے بنیادی پالیسیاں کیسی ہیں۔

آپ شاید یہ بھی دیکھنا چاہیں کہ کون سے ممالک زیادہ سرسبز ہیں اور کن ملکوں میں بچوں کے زیادہ پلے گراؤنڈ ہیں۔

یونیسیف انھی عوامل کو دیکھتے ہوئے بچوں کی خوشحالی کا ’رپورٹ کارڈ‘ تیار کرتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس فہرست میں سب سے امیر ملکوں کو دیکھا جاتا ہے جبکہ شاید پناہ گزین خاندان کو اس کے تمام ڈیٹا میں برابر کی دلچسپی نہ ہو تاہم اس معلومات سے یہ پتا چلتا ہے کہ دنیا کے کون سے ممالک بچوں کی پرورش کے لیے بہترین ہیں۔

جاپان

یونیسیف کے بچوں کی خوشحال زندگی پر 2020 کے اعداد و شمار میں جاپان جسمانی صحت میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس میں پیدائش کے ابتدائی برسوں میں بچوں کی اموات کی شرح اور موٹاپے جیسے عوامل شامل ہیں۔

یونیسیف کے 2022 کے رپورٹ کارڈ میں ماحول کے اعتبار سے جاپان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا۔ اس میں شہروں میں شجر کاری اور ٹریفک سیفٹی جیسے عوامل شامل تھے۔

جاپان میں بچوں میں موٹاپے کی سب سے کم شرح ہے۔ اس کے ساتھ یہاں بچوں کی پیدائش کے ابتدائی برسوں میں موت کی شرح بھی کم ہے جبکہ فضا اور پانی کی آلودگی (جس سے بچے متاثر ہوتے ہیں) کا درجہ بھی کم ہے۔

اسے خاندانوں کے لیے سب سے محفوظ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہاں بات صرف ٹریفک حادثات تک محدود نہیں۔ جاپان میں قتل کی شرح بھی دیگر ملکوں کے مقابلے سب سے کم ہے: ایک لاکھ میں سے صرف 0.2 فیصد۔ یہ شرح امریکہ میں 5.3، کینیڈا میں 1.8 اور آسٹریلیا میں 0.8 فیصد ہے۔

ٹوکیو کی شہری مامی مکیگ، جو اب لندن میں رہتی ہیں، کا کہنا ہے کہ تحفظ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اب خاندانوں کو کوئی فکر نہیں بلکہ آزادی ملنے سے بچے کھل کر محظوظ ہوسکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بچے چھ سال کی عمر کے بعد سے خود سکول جا سکتے ہیں۔ وہ بس یا ٹرین پکڑ سکتے ہیں اگر سکول پیدل فاصلے پر نہیں۔‘

’ٹوکیو کے بیچ و بیچ بچے چل پھر سکتے ہیں اور خود سکول جا سکتے ہیں۔ یہ نارمل ہے کیونکہ ماحول بہت محفوظ ہے۔ کسی کو بچوں کی اتنی فکر نہیں کیونکہ اس کی ضرورت ہی نہیں۔‘

صحت اور تحفظ کے علاوہ جاپان میں دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں سے ایک ہے۔ او ای سی ڈی کا ڈیٹا، جسے یونیسیف نے شامل کیا، کے مطابق 76 ملکوں اور خطوں میں اس کا تعلیمی نظام 12ویں نمبر پر ہے۔

کمپنیاں اپنے ملازمین کو پیسوں سمیت لمبی چھٹیاں دیتی ہیں۔ کام کرنے والے والدین کو 12 ماہ میں کسی بھی وقت یہ چھٹی مل سکتی ہے۔ ملک میں مردوں کی چھٹیوں کے حوالے سے بھی مراعات پر کام کیا جا رہا ہے۔

مکیگ کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان میں خاندانوں کے لیے کئی مراعات کے باوجود مقامی لوگ اتنے خوش نہیں اور حکام پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ’آپ بہت سی ناامیدی دیکھیں گے کیونکہ ہم دوسرے ملکوں کی مثبت باتیں دیکھتے ہیں اور اس کا موازنہ جاپان سے کرتے ہیں۔‘

’اس کا تعلق تہذیب سے بھی ہے۔ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ عاجزی کے لیے چیزوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش نہ کیا جائے لیکن مجھے لگتا ہے کہ بچوں کی پرورش کے لیے جاپان بہت اچھی جگہ ہے۔‘

ایسٹونیا

ایسٹونیا یونیسیف کی مجموعی درجہ بندی میں اتنا اوپر نہیں تاہم تمام اہم عوامل میں اس کی اچھی کارکردگی ہے۔ یہاں بچے کسی دوسرے امیر ملک کے مقابلے کم فضائی و آواز کی آلودگی اور جراثیم کش ادویات کا سامنا کرتے ہیں۔

یہاں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مقابلے سربز و شاداب مقامات زیادہ ہیں۔ بچے گھروں کے پاس پلے گراؤنڈز اور دیگر تفریحی مقامات کا لطف بھی حاصل کرتے ہیں۔

ایسٹونیا میں کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی شرح دوسرے نمبر پر سب سے کم ہے جس سے قبل از پیدائش دیکھ بھال کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایسٹونیا کے تعلیمی نظام کی سب سے پُرکشش بات شاید یہ ہے کہ یہاں بچوں میں ریاضی، سائنس اور ادبی صلاحیتیں ایشیا کے باہر کسی بھی ملک کے مقابلے زیادہ ہیں۔ ڈیجیٹل ہنر پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔

ایسٹونیا ایجوکیشن اور یوتھ بورڈ کی پراجیکٹ مینیجر این مے میسک، جو کہ ملک میں ابتدائی تعلیم پر تحقیق کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’کنڈر گارڈن سے ہی بچوں کو روبوٹکس اور چھوٹے ٹیبلٹ تھما دیے جاتے ہیں جو کھیلوں کی مدد سے پڑھائی کا طریقہ کار ہے۔‘

تاہم اس نظام میں روبوٹکس اور پڑھنے سے کہیں آگے کا سوچا گیا ہے۔ او ای سی ڈی کی حالیہ رپورٹ میں معلوم ہوا کہ ایسٹونیا کا اوسط پانچ سال کا بچہ سماجی و جذبانی صلاحیتیوں میں امریکہ اور انگلینڈ کے مقابلے کہیں آگے ہے۔ اس میں دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ جذبات کی شناخت جیسے مراحل رکھے جاتے ہیں۔

ان بچوں میں خود پر توجہ دینے کی صلاحیت جیسے ذہنی لچک، یادداشت اور خودکار ردعمل کو روکنے جیسے صلاحیتیں او ای سی ڈی کے اوسط سکور سے زیادہ ہیں۔

جہاں تک بات ’فیملی لیو‘ کی ہے تو ایسٹونیا کو اس حوالے سے بہترین پالیسی والے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین کو حمل میں 100 دن تک چھٹی اور مردوں کو 30 روز کی چھٹی مل سکتی ہے۔ اس کے بعد انھیں تنخواہ کے ساتھ 475 دنوں کی چھٹی مل سکتی ہے جو دونوں میں تقسیم ہوتی ہے یا پھر اسے پارٹ ٹائم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ تین سال کا نہیں ہوجاتا۔

60 روز تک دونوں والدین گھر رہ کر کمپنی سے پیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ جب تک بچہ 14 سال کا نہیں ہو جاتا تب تک دونوں والدین کو 10 اضافی چھٹیاں ملتی ہیں۔ (یہ چھٹیاں ایسٹونیا میں عارضی اور مستقل رہائشیوں بشمول غیر ملکیوں کو بھی میسر ہیں۔)

یہ بھی پڑھیے

بچوں کی پرورش: اچھے والدین بننے کے لیے یہ پانچ باتیں یاد رکھیں

ایک مثالی باپ کیسا ہوتا ہے

کیا والدین اپنے جذبات بچوں میں منتقل کر سکتے ہیں؟

سپین

یونیسیف کی درجہ بندی میں سپین کو ماحول کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ دیا گیا ہے، خاص کر بچوں کی ابتدائی برسوں میں اموات کی شرح اور ہوا و پانی کی آلودگی کم ہونے کی بدولت۔

یونیسیف کے مطابق سماج، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کم مجموعی کارکردگی کے باوجود سپین کے بچوں میں خوشحالی کی شرح زیادہ ہے۔ بچوں کی ذہنی صحت میں اس کا تیسرا نمبر ہے جبکہ بنیادی ادب اور سماجی صلاحیتوں میں یہ چوتھے نمبر پر ہے۔

جب یہاں بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے لیے دوست بنانا آسان ہے تو 81 فیصد نے ہاں میں جواب دیا۔ یہ سکور نیدرلینڈز کے برابر ہے۔ دوسرے امیر ملکوں کے مقابلے یہاں بالغ افراد کی خودکشی کی شرح کم ہے، جو کہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے موازنے میں ایک تہائی ہے۔

سپین کے معاشرے میں بچوں کو ریستوران یا بار میں لے جانا قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ دیر رات کسی خاندان کو بچے کے ساتھ دیکھنا بھی عام ہے۔

15 سال قبل شکاگو سے میڈرڈ منتقل ہونے والی لوری زینو ان اعداد و شمار پر حیران نہیں۔ کمسن بچے کی والدہ نے کہا کہ سپین کی تہذیب میں بچوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ ’یہاں کے معاشرے میں آپ بچوں کو اپنے ساتھ کہیں بھی لے جا سکتے ہیں جیسے ریستوران یا بار۔ دیر رات کسی خاندان کو بچے کے ساتھ پھرتا دیکھنا عام ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس سے وہ دباؤ ختم ہوجاتا ہے کہ بچے کو خاموش رکھنا چاہیے۔ وہ دوسروں کی فکر نہیں کرتے۔ سپین میں کسی کو اس بات کی فکر نہیں۔ سب خوش رہتے ہیں اور اونچی آواز میں بولتے ہیں اور ایک خاندان باہر نکل کر اپنے وقت کا لطف اٹھاتا ہے۔‘

جہاں تک بات پیرنٹل لیو کی ہے تو ماں اور باپ دونوں کو 100 فیصد تنخواہ کے ساتھ 16 ہفتوں کی چھٹی ملتی ہے جس میں فری لانسر بھی شامل ہیں۔ ہر ماں تین سال تک بغیر تنخواہ کے چھٹی لے سکتی ہے یا اپنے گھنٹے کم کروا سکتی ہے۔

سپین کے سوشل سکیورٹی نظام کے ساتھ رجسٹرڈ کوئی بھی رہائشی یہ سہولت حاصل کرسکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ گذشتہ سات برسوں میں کم از کم 180 دن تک واجبات ادا کیے ہوں۔

تاہم دوسرے ملکوں کی طرح یہاں بھی کچھ کمیاں ہیں۔ 33 فیصد والدین اس پر متفق ہیں کہ یہاں بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات کم ہیں۔ دیگر امیر ملکوں کے مقابلے یہ شرح سب سے زیادہ ہے مگر واضح بات یہ ہے کہ بچوں کی پرورش کے لیے یہ بہترین ملکوں میں سے ایک ہے۔

فن لینڈ

یونیسیف کی درجہ بندی میں فن لینڈ پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ یہ بچے کی صحت کے ماحول (جیسے فضا کی پاکیزگی کا معیار) کے لیے پہلے نمبر پر ہے۔ بچوں کے گرد ماحول (جیسے سکول، ٹریفک کے حالات اور ہرے بھرے علاقے) میں دوسرے نمبر پر ہے۔

بچوں کی تعلیم اور ریاضی کی صلاحیتوں میں یہ بہترین کارکردگی والا ملک ہے جبکہ والدین سکول میں بچے کے عملے سے اچھا تعلق رکھتے ہیں۔ پانچ سے 14 سال کے بچوں میں اموات کی شرح سب سے کم درجے پر ہے، جو امریکہ کے مقابلے نصف ہے۔

بچوں کی پیدائش پر ملنے والی چھٹی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ماں کو بچوں کی پیدائش کے وقت تنخواہ کے ساتھ آٹھ ہفتوں کی چھٹی ملتی ہے جبکہ ماں اور باپ کو اجتماعی طور پر 14 ماہ کی چھٹی تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔ بچے کی عمر تین برس ہونے تک اضافی چھٹیوں کی درخواست دی جا سکتی ہے۔

یہ سہولت ان شہریوں کے لیے ہےئ جن کے بچوں کی پیدائش فن لینڈ یا فہرست میں شامل دوسرے ملکوں میں ہوتی ہے اور بچوں کی پیدائش سے کم از کم 180 روز قبل تک انھیں ہیلتھ انشورینس کا تحفظ حاصل رہتا ہے۔

برطانوی شہری ہیڈلی ڈین کے پانچ بچے ہیں اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ پولینڈ، چیک ریپبلک اور فن لینڈ رہ چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ دوسری مرتبہ اپنے خاندان کے ساتھ فن لینڈ میں رہ رہے ہیں اور یہ کمال کا تجربہ ہے۔ ان کے مطابق آپ ہرے بھرے مقامات کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، حتیٰ کہ اس کے دارالحکومت ہیلسنکی میں بھی۔ (دیگر امیر ملکوں کی نسبت فن لینڈ کے شہروں میں سرسبز مقامات سب سے زیادہ ہیں۔)

یہاں ہرے بھرے علاقے صرف پارکس تک محدود نہیں۔ ڈین کہتے ہیں کہ ’ہیلسنکی یا فن لینڈ کی الگ بات یہ ہے کہ باغات کو قدرت کے قریب رکھا گیا ہے۔ یہ قدرتی جنگل جیسے ہیں جو شہر کے مرکز میں واقع ہیں۔‘

’قدرتی ماحول میں نہ رہنے کا پریشانی اور ڈپریشن سے گہرا تعلق ہوتا ہے تو یہ (فن لینڈ کا) ایک مثبت پہلو ہے۔‘

مگر فنلینڈ کی سرد اور تاریک راتوں کا کیا؟ ڈین کے مطابق یہ قیمت ادا کرنے میں انھیں کوئی دشواری نہیں۔

’آپ کو اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ آپ اس حساب سے کپڑوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جوتوں پر سپائکس ہوتے ہیں جب آپ باہر نکلتے ہیں اور اس سے چیزیں آسان ہو جاتی ہیں۔ موسم گرما بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ 22 گھنٹے تک سورج کی روشنی ہوتی ہے۔‘

نیدر لینڈز

یونیسیف کے مطابق اس رپورٹ کارڈ میں سرِفہرست نیدرلینڈز ہے جسے بچوں کی ذہنی صحت میں پہلا نمبر اور ان میں پیدا کیے گئے ہنروں میں تیسرا نمبر ملا ہے۔

15 سال کے 10 میں سے نو بچے اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ یونیسیف کے مطابق یہ سب سے بلند شرح ہے۔ 10 میں سے آٹھ بچوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے دوست بنانا آسان ہے۔

امریکہ میں سکھایا جاتا ہے کہ بچوں کو سب سے الگ ہونا چاہیے جبکہ نیدر لینڈز میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ ’نارمل رہیں، یہی سب سے الگ ہو گا۔‘

پولینڈ سے تعلق رکھنے والی اولگا میکنگ جو تین بچوں کی ماں ہیں، 13 برس سے نیدر لینڈز میں قیام پذیر ہیں۔ وہ کتاب ’نیکشن: ایمبریسنگ دی ڈچ آرٹ آف ڈوئنگ نتھن (کچھ بھی نہ کرنے کا ڈچ فن)‘ کی مصنف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ میں یہ بیانیہ پایا جاتا ہے کہ بچوں کو سب سے الگ ہونا سکھایا جائے جبکہ یہاں یہ محاورہ ہے کہ ’معمولی بن کر رہو، یہ سب سے الگ ہوگا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس سے بچوں پر ابتدائی برسوں میں کم دباؤ رہتا ہے۔ ان کے مطابق بچوں کے سماجی روابط پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے جس میں گروہ، کلبز اور اجتماعی سرگرمیاں بہت عام ہیں۔

ان کے مطابق اگر ڈچ خاندان اور بچے خوش ہیں تو اس کی وجہ بنیادی عوامل ہیں۔ ’ڈچ فلاحی نظام کے بغیر ڈچ انداز میں والدین کی طرف سے پرورش ممکن نہیں۔ نیدر لینڈز میں والدین کو بہت سپورٹ ملتی ہے۔‘

مثلاً بچے کی پرورش کے لیے ایک ماں کو تنحواہ کے ساتھ کم از کم 16 ہفتوں کی چھٹی ملتی ہے اور باپ کے لیے یہ چھ ہفتوں تک ہوسکتی ہے۔

بچے کی عمر آٹھ سال ہونے تک بغیر تنخواہ چھٹی لی جا سکتی ہے۔ یہ سہولت ان شہریوں کے لیے ہے جو نیدر لینڈز میں رہتے ہیں اور قانون کے مطابق ملازمت کرتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.