انڈیا میں انکم ٹیکس حکام کا بی بی سی کے دفاتر پر چھاپہ

بی بی سی نے کہا ہے کہ وہ حکام کے ساتھ ’مکمل تعاون‘ کر رہی ہے۔ ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ’ہمیں امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد حل ہو جائے گا۔‘
بی بی سی چھاپہ
Reuters

انڈیا میں انکم ٹیکس حکام نے بی بی سی کے دفاتر پر تحقیقات کی غرض سے چھاپہ مارا ہے۔

واضح رہے کہ نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپہ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی پر برطانیہ میں بی بی سی کی جانب سے ایک تنقیدی دستاویزی فلم نشر کرنے کے کچھ ہی ہفتے بعد ہوا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں سنہ 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں نریندر مودی کا کردار دکھایا گیا تھا جو اس وقت ریاست کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔

بی بی سی نے کہا ہے کہ وہ حکام کے ساتھ ’مکمل تعاون‘ کر رہے ہیں۔ ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ’ہمیں امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد حل ہو جائے گا۔‘

حالانکہ یہ دستاویزی فلم صرف برطانیہ میں ٹی وی پر دکھائی گئی تھی مگر انڈیا کی حکومت نے ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ نامی اس دستاویزی فلم کے انٹرنیٹ پر شیئر کیے جانے کو بھی روکنے کی کوشش کی ہے۔

انڈین حکومت نے اسے ایک ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ کے ساتھ بنایا گیا ’ہند مخالف بکواس اور معاندانہ پروپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔

گذشتہ ماہ دلی میں پولیس نے یہ فلم دیکھنے کے لیے جمع ہونے والے طلبہ کو حراست میں لے لیا تھا۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کے صدر کے سی وینوگوپال نے کہا کہ منگل کو پڑنے والا یہ چھاپہ ’بدحواسی کا عکاس ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ مودی حکومت تنقید سے ڈرتی ہے۔‘

اُنھوں نے ٹویٹ کی کہ ’ہم ڈرانے دھمکانے کے ان حربوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ غیر جمہوری اور آمرانہ رویہ مزید نہیں جاری رہ سکتا۔‘

یہ دستاویزی فلم مودی کے سیاست میں آنے، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں ان کی ترقی سے لے کر مغربی ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ بننے تک کا سفر دکھاتی ہے۔

اس میں ایک غیر مطبوعہ رپورٹ بھی شامل ہے جو بی بی سی نے دفترِ خارجہ سے حاصل کی۔ اس میں مذہبی فسادات کے دوران مودی کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ ہندو یاتریوں کو لے کر جانے والی ایک ٹرین کو آگ لگائے جانے کے ایک دن بعد فسادات شروع ہوئے تھے۔ اس حادثے میں درجنوں افراد ہلاک ہویے تھے مگر ان فسادات کے نتیجے میں 1000 سے زیادہ مسلمان ہلاک ہوئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

دفترِ خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی ’دیدہ دلیری کی فضا‘ کے لیے ’براہِ راست ذمہ دار‘ تھے جس کی وجہ سے تشدد کو شہ ملی۔

یہ رپورٹ اس انکوائری رپورٹ کا حصہ ہے جس کا حکم اس وقت برطانیہ کے وزیرِ خارجہ جیک سٹرا نے دیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’تشدد کا دائرہ میڈیا میں آنے والی اطلاعات سے بھی کہیں وسیع تھا‘ اور ’فسادات کا مقصد ہندو علاقوں سے مسلمانوں کو نکال دینا تھا۔‘

وزیرِ اعظم مودی طویل عرصے سے اپنے خلاف عائد الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور انھوں نے ان فسادات کے لیے معافی نہیں مانگی ہے۔

سنہ 2013 میں سپریم کورٹ کے ایک پینل نے بھی کہا تھا کہ ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ثبوت ناکافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین حکومت کو وزیراعظم مودی پر بی بی سی کی ڈاکیومینٹری کی سکریننگ پر اعتراض کیا ہے؟

گجرات فسادات کے ملزمان کو ضمانت کیسے ملی؟

گجرات فسادات: بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق وزیر کی سزا ختم، تمام الزامات سے بری

بی بی سی نے گذشتہ ماہ کہا کہ انڈین حکومت کو جواب دینے کا حق فراہم کیا گیا تھا جسے اُنھوں نے مسترد کر دیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ فلم کے لیے ’کڑی تحقیق‘ کی گئی اور ’مختلف افراد، گواہوں اور ماہرین سے بات کی گئی اور ہم نے کئی طرح کی آرا کو اس میں جگہ دی ہے جن میں بی جے پی کے لوگوں کے جوابات بھی شامل ہیں۔‘

ایڈیٹرز گِلڈ آف انڈیا نے کہا کہ وہ ان چھاپوں کے متعلق ’شدید تشویش‘ کے شکار ہیں۔

ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ’حکومتی اداروں کی جانب سے حکومتی پالیسیوں یا حکمران اشرافیہ پر تنقید کرنے والی پریس کو ہراساں کرنے کے رجحان کا حصہ ہے۔‘

گذشتہ ماہ وزیرِ اعظم برطانیہ رشی سوناک سے پارلیمنٹ میں رکنِ پارلیمان عمران حسین نے پوچھا تھا کہ کیا اُنھیں لگتا ہے کہ مودی براہِ راست ان فسادات کے لیے ذمہ دار تھے اور یہ ’دفترِ خارجہ نسلی قتلِ عام میں ان کے ملوث ہونے کے متعلق مزید کیا جانتا تھا۔‘

رشی سوناک نے کہا کہ ’ہم کہیں بھی تشدد کو برداشت نہیں کرتے‘ مگر یہ بھی کہا کہ وہ مودی کے متعلق ’ایسی تصویر کشی سے متفق نہیں۔‘

انڈیا میں حکومت پر تنقید کرنے والے اداروں کو ہدف بنانا کوئی نئی بات نہیں۔

سنہ 2020 میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کو انڈیا میں اپنا کام روکنا پڑا تھا۔ اس تنظیم نے کہا تھا کہ حکومت انسانی حقوق کی تنظیموں کو ’چن چن کر نشانہ‘ بنا رہی ہے۔

اس کے علاوہ گذشتہ برس کئی دیگر مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے علاوہ آکسفیم پر بھی چھاپہ مارا گیا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.