پاکستان میں جانوروں کو اب تک حقوق کیوں نہیں مل سکے؟

پاکستان کے مختلف شہروں میں پالتوں جانوروں سے لے کر آوارہ کتوں کے ساتھ نامناسب رویے کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ انھی کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت نے حال ہی میں اسلام آباد کے تمام نجی اور سرکاری پرائمری سکولوں میں جانوروں کی فلاح کے متعلق نصاب میں ایک کورس متعارف کروایا ہے۔
پاکستان، جانور، حقوق
BBC

پاکستان کے مختلف شہروں میں پالتوں جانوروں سے لے کر آوارہ کتوں کے ساتھ نامناسب رویے کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔

ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت نے حال ہی میں اسلام آباد کے تمام نجی اور سرکاری پرائمری سکولوں میں جانوروں کی فلاح کے متعلق نصاب میں ایک کورس متعارف کروایا ہے۔

سٹریٹیجک ریفارمز سے متعلق وزیرِ اعظم شہباز شریف کے معاونِ خصوصی سلمان صوفی کا کہنا ہے کہ اس کورس کا مقصد بچوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ پالتو جانوروں کو اچھے طریقے سے رکھا جائے اور آوارہ کتوں کو تکلیف نہ پہنچائی جائے۔

سلمان صوفی نے مزید بتایا کہ کچھ ریفریشر کورسز بھی متعارف کروائے گئے ہیں جن میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے کارکن سکولوں میں بچوں کو جانوروں، اُن کے حقوق اور اُن کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں تربیت دیتے ہیں۔

دسمبر میں جانوروں کے حقوق کے عالمی دن پر متعارف کروائے گئے اس کورس کو بعد میں پرائمری کے علاوہ دیگر طلبہ کے نصاب میں بھی شامل کیا جائےگا۔ اس کے علاوہ صوبوں سے بھی اسے نصاب کا حصہ بنانے پر بات چیت جاری ہے۔

پاکستان، جانور، حقوق
BBC

پاکستان میں جانوروں کے ساتھ برتاؤ

پاکستان میں عام لوگ جانوروں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ یہی سمجھنے کے لیے میں نے اُن سے پوچھا کہ اُنھیں گھر میں کون سا جانور پالنا مناسب یا غیر مناسب لگتا ہے اور آخر وہ جانور یا پرندے کیوں پالتے ہیں؟ درج ذیل میں پڑھیے کہ جواب میں چند لوگوں نے کیا کہا:

’کتے کو پالنے سے گھر میں نیکی کے فرشتے نہیں آتے۔‘

’بلی کے بالوں سے سانس میں مسئلہ ہوتا ہے۔‘

’ہمارے گھر میں چھوٹے بچے ہیں تو یہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کھانے میں اُن کے بال جاتے ہیں۔‘

’پالتو جانوروں سے بچوں کو کھیل اور تفریح کے لیے ایک دوست مل جاتا ہے۔‘

پاکستان میں قریب ہر اُس گھر میں جہاں بچے ہوں وہاں جانوروں سے رغبت اور لگاؤ عام ہے لیکن یہی بچے سڑکوں اور گلیوں میں پھرنے والے جانوروں کے پیچھے بھاگتے اور پتھر مارتے بھی نظر آتے ہیں۔

جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور صحافی قطرینہ حُسین پچھلے دو سال سے سی ڈی آر ایس بینجی پروجیکٹ فار اینیمل ویلفیئر اینڈ ریسکیو سے منسلک رہی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں جانوروں کی طرف عمومی رویہ ’ہمدردی نہیں۔‘

’کچھ خاندانوں میں تو جانور کو خاص طور پر کتے کو پلید سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھر سے نکال دو، گندے ہیں، ڈر لگ رہا ہے۔ بچپن سے ہی بچوں کو کوئی تربیت نہیں دی جاتی کہ جانور ہے، اِس کو پتھر نہ مارو۔ اس جانب پرورش ہی نہ ہو تو بے حسی بڑھتی ہے۔‘

جانوروں کو اذیت کیوں دی جائے، کیا وہ خدا کی مخلوق نہیں؟

پاکستان، جانور، حقوق
BBC

انھوں نے ایک افسوس ناک واقعہ بتایا کہ ’ایک کتیا بچے دینے کے عمل سے گزر رہی تھی کہ لوگ اُس کو مارنے کھڑے ہو گئے کہ وہ کاٹ رہی ہے جبکہ وہ لیبر کے پروسیس میں تھی۔ ہم اُسے لے کر آئے تو یہاں شیلٹر ہوم میں آنے کے بعد اُس نے بقیہ تین بچے دیے۔‘

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی سلمان صوفی کا کہنا ہےکہ ’ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جانوروں کا خیال نہیں رکھا جاتا اور اُن سے صلہ رحمی نہیں دِکھائی جاتی۔‘

انھوں نے جانوروں کے ساتھ بے رحمی پر بات کرتے ہوئے ایک واقعہ بتایا کہ ’کچھ عرصہ پہلے کراچی میں ایک گدھے کے گلے پر تیزاب ڈال دیا گیا اور لوگ اُس کو کھڑے ہوکر دیکھ رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔‘

تاہم جانوروں کے ساتھ انسانی رویوں پر وکیل حرا جلیل کہتی ہیں کہ اِن رویوں کو جنریلائز کرنا درست نہیں۔

’ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک ہے جو جانوروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی جہاں کچھ لوگ جانوروں سے بہت پیار کرتے ہیں، ان کے تحفظ اور حقوق کے لیے ادارے اور شیلٹرز ہیں، وہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو بہت ظلم کرتے ہیں۔ جنھیں نہیں معلوم کہ جانوروں کو کیسے رکھتے ہیں۔ وہ شوقیہ جانور پال لیتے ہیں اور بعد میں اُن سے خیال نہیں رکھا جاتا۔ چڑیا گھر ہیں جو جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں اور اُن کی صحیح پرورش، خوراک اور پانی وغیرہ نہیں دیتے۔‘

حرا نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں اس بات کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ جانور کون سا ہے جیسے پاکستان میں جہاں لوگ بلیاں شوق سے پالتے ہیں وہیں کتوں اور گدھوں پر بہت زیادہ ظلم کیا جاتا ہے۔‘

پاکستان، جانور، حقوق
BBC

پاکستان میں جانوروں کو کون سے حقوق حاصل؟

بدقسمتی سے جانوروں پر ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے پاکستان میں نوآبادیاتی دور کے قوانین آج بھی رائج ہیں جنھیں پریوینشن آف کروئلٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890 کہا جاتا ہے۔

جانوروں کے تحفظ کے عالمی انڈیکس کی درجہ بندی میں پاکستان مجموعی طور پر’ای‘ پر موجود ہے۔ جانوروں کے معاملے میں حکومتی احتساب میں پاکستان ’ایف‘ اور جانوروں کے تحفظ میں ’جی‘ کی درجہ بندی پر موجود ہے۔

پاکستان کی صورتحال انڈیا سے بدتر ہے اور صرف اُن چند ممالک سے بہتر ہے جہاں انسانی حقوق کی صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم وکیل حرا جلیل کہتی ہیں کہ ’ہمیں بہت شدت سے ضرورت ہے کہ ہم جانوروں سے متعلق اپنے قانون کو تبدیل کریں۔ دنیا میں کہیں بھی اتنا پرانا قانون نہیں۔‘

اس ایکٹ کے تحت ملنے والی سزاؤں کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ’جانوروں کو تکلیف پہنچانے پر آپ کو زیادہ سے زیادہ سو سے پانچ سو روپے کا جُرمانہ ہوسکتا ہے یا پھر تین ماہ سے دو سال تک کی قید بھی ہو سکتی ہے ۔‘

حرا نے کہا کہ ’وفاقی حکومت نے 2018 میں اسلام آباد کی حد تک اس قانون کو اپ ڈیٹ کیا تھا۔ اُس میں سزائیں بڑھا کر ایک لاکھ سے پانچ لاکھ کے بیچ میں کردی گئیں تھیں لیکن ہمارے صوبوں نے اس قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔ پنجاب کی حد تک تو میں نے دیکھا کہ یہ قانون نافذ ہوتا ہے لیکن یہ سزائیں کافی نہیں ہیں۔‘

حرا جلیل کے بقول یہ قانون اس لیے بھی فرسودہ اور غیر مؤثر ہے کیونکہ یہ آج کے دور میں جانوروں کے ساتھ ہونے والی چیزوں کا احاطہ بھی نہیں کر پاتا مثلاً جانوروں پر کیے جانے والے تجربات۔

’پچھلے دنوں بہت خبروں میں تھا کہ کچھ ویٹنری یونیورسٹیز میں جانوروں پر کافی بھیانک طریقے سے تجربات کیے جاتے ہیں۔ اس قانون کے تحت یہ چیز ریگیولیٹ نہیں ہوتی یا اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ٹِک ٹاک بنا رہے ہوتے ہیں یا آن لائن جانوروں کے ساتھ بدسلوکی ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ قانون اتنا پرانا ہے جب اِن تمام چیزوں کا تصور ہی نہیں تھا۔‘

پاکستان، جانور، حقوق
BBC

’قانون عکس ہوتا ہے کہ معاشرہ کیا سوچتا ہے۔ چونکہ ہم نے جانوروں کی فلاح کے بارے میں کبھی آئین سازی نہیں کی۔ جس سے ہم بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔‘

دوسری طرف سٹریٹیجک ریفارمز سے متعلق وزیرِ اعظم شہباز شریف کے معاونِ خصوصی سلمان صوفی کا کہنا ہےکہ ’مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے کہ اس قانون میں ترامیم تیار ہیں اور آخری مراحل کا کام جاری ہے۔ اُسے جلد قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائےگا۔ اُس میں سزائیں بڑھانے کے ساتھ ترامیم شامل کی گئی ہیں یعنی پالتو جانور رکھنے کی صورت میں آپ کےگھر میں کس قسم کا نظام ہونا ضروری ہے یا جنگلی جانور کو غیر قانونی طور پر گھر میں رکھنے اور اُس کی زندگی کو نقصان پہنچانے کی صورت دی جانے والی سزائیں بڑھائی گئی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ ایسی ترمیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں چڑیا گھروں کو ختم کر دیا جائے۔

سلمان صوفی نے کہا کہ ’ آپ کو تب تک چڑیا گھروں میں جانوروں کو نہیں رکھنا چاہیے جب تک آپ کے پاس اُس طرح کا ماحول اور سہولیات موجود نہ ہوں کہ جس میں آپ اُن غیر ملکی جانوروں کو رکھ سکیں۔‘

’میری ذاتی رائے ہے کہ آپ جانوروں کو اُن کے مسکن سے دور قید میں رکھ کر اُن پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے اُن کے بارے میں پڑھنا ہے تو آپ کتابوں سے پڑھ سکتے ہیں، آپ ویڈیوز کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں لیکن صرف اس لیے کہ آپ کے بچے وہاں جا کے محظوظ ہوں اور آپ وہاں جا کے ایک تفریحی سرگرمی کرسکیں تو اُس کے لیے آپ کو ایک جانور کو اُس کی پوری زندگی پنجرے میں بند کر کے نہیں رکھنی چاہیے۔‘

پاکستان، جانور، حقوق
BBC

جانوروں کی فلاح اور حقوق کے کورس سے توقعات

جانوروں کے حقوق کےلیے سرگرم کارکن نے حکومت کی طرف سے نصاب میں جانوروں کی فلاح اور حقوق سے متعلق کورس شامل کرنے کے کوشش کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

قطرینہ حُسین کہتی ہیں کہ ’یہ شروعات ہے اور اس سے فرق پڑے گا۔ سکول میں سکھایا جائے کہ جانوروں سے ہمدردی کی جائے پھر چاہے وہ بلیاں ہوں، گدھا ہو خرگوش ہو یا کوئی بھی جانور ہو لیکن بہت ضروری ہے کہ ہم والدین کو بھی اس کے بارے میں بتائیں۔‘

انھوں نے ایک اور مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’جانوروں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اسی لیے ضروری ہے کہ ہم جانوروں کی ٹی این وی آر کریں یعنی ٹریپ، نیوٹر، ویکسینیٹ اینڈ ریلیز۔تاکہ اُن کی آبادی کو ایک انسانی طریقے سے کنٹرول کیاجاسکے۔‘

جانوروں کی وکیل حرا جلیل نے کہا کہ ’اِسے اسلام آباد سے باہر تمام صوبوں میں لانے اور بڑے پیمانے پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ ’یہ ایک بہت اچھا قدم ہے کیونکہ ہم بچپن میں ہی جانوروں سے پیار، نفرت اور برتاؤ کرنا سیکھتے ہیں۔

’اگر بچپن میں ہی سِکھایا جائے کہ جانور جاندار چیز ہے اور اُنھیں بھی درد یا تکلیف محسوس ہوتی ہے تو شاید پانچ دس سال میں جب وہ بچے بڑے ہوں تو کچھ بہتری آئے اور شاید معاشرہ اسی طرح سے بدلے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.