لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب کھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں سلیکشن کے حوالے سے بورڈ پر جانبداری کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اکثر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انڈین کرکٹ پر ملک کی نچلی ذات کی بجائے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے کرکٹرز کا غلبہ ہے۔
انڈیا جہاں کرکٹ کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے اور جہاں کھلاڑیوں پر اچھی کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، وہاں آج کل متعدد کھلاڑیوں کی فارم اور کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انڈیا کے کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) پر جانبداری اور ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک کرنے کا بھی الزام لگایا جا رہا ہے۔
انڈیا کے سوشل میڈیا پر ایسی ہی ایک گرما گرم بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب سابق انڈین کرکٹر وینکتیش پرساد نے انڈین بلے باز کے ایل راہول کی فارم پر تنقید کی اور انڈین کرکٹ بورڈ پر جانبداری کا الزام عائد کیا۔
11 فروری کو جب ناگپور میں انڈیا اور آسٹریلیا کے مابین چار میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ جاری تھا تو ایسے میں سابق انڈین کرکٹر وینکٹیش پرساد نے بورڈ پر ’جانبداری‘ کا الزام لگاتے ہوئے متعدد ٹویٹس کی تھیں۔
انھوں نے الزام لگایا کہ ’(کے ایل) راہول کا ٹیم میں انتخاب کارکردگی پر مبنی نہیں بلکہ جانبداری پر مبنی ہے۔‘
وینکتیش پرساد نے ٹویٹ میں مزید لکھا کہ ’46 ٹیسٹ کے بعد 34 رنز کی ٹیسٹ اوسط اور بین الاقوامی کرکٹ میں آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد (یہ کارکردگی) معمولی ہے۔ میرا نہیں خیال کسی اور کو کبھی اتنے مواقع دیے گئے ہوں۔‘
یاد رہے کہ سنہ 2014 میں کے ایل راہول نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو کے بعد سے 47 میچز کھیلے ہیں اور ٹیسٹ کرکٹ میں 33.44 کی اوسط سے 2642 رنز بنائے ہیں لیکن حالیہ میچوں میں ان کی کارکردگی واضح طور پر خراب رہی ہے۔
بی بی سی نے ان الزامات کے حوالے سے انڈین کرکٹ بورڈ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انھیں سوالات بھی ارسال کیے تاہم بورڈ کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
https://twitter.com/venkateshprasad/status/1624289927839256576
1.4 ارب آبادی والے ملک میں کرکٹ سب سے زیادہ مقبول کھیلوں میں سے ایک ہے۔ انڈیا کا سب سے بڑا ڈومیسٹک ٹورنامنٹ رانچی ٹرافی ہے۔ آئی پی ایل کا جنون بھی سال بہ سال باصلاحیت کرکٹرز کو سامنے لاتا ہے۔ اس طرح کے مقابلے کی وجہ سے کھلاڑیوں پر ہر وقت بے مثال کارکردگی کا دباؤ رہتا ہے۔
حال ہی میں شائقین نے وراٹ کوہلی جیسے کھلاڑیوں کو بھی ان کی خراب کارکردگی پر ٹیم سے باہر کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم انڈیا میں متعدد ایسے نئے کھلاڑی ہیں جو اپنی سطح پر مسلسل شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
پرساد نے کچھ ایسے ہی کھلاڑیوں کا نام لیتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ’شبھمن گل شاندار فارم میں ہیں، سرفراز فرسٹ کلاس کرکٹ میں سنچریاں بنا رہے ہیں اور بہت سے لوگ راہول سے زیادہ موقع کے مستحق ہیں۔ کچھ خوش قسمت ہیں جن کو لگاتار ناکامی کے باوجود مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں جبکہ کچھ کو یہ مواقع نہیں ملتے۔‘
https://twitter.com/venkateshprasad/status/1624290649595072512
حالیہ مہینوں میں کے ایل راہول کی کارکردگی واقعی خراب رہی ہے۔ انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز میں انھوں نے تین اننگز میں بالترتیب 20، 17 اور ایک رن بنائے ہیں۔
یہ مزید اہم اس لیے ہے کہ وہ انڈین ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان بھی تھے لیکن اسی دوران 20 فروری کو جب سلیکٹرز نے باقی دو ٹیسٹوں کے لیے ٹیم کا اعلان کیا تو راہول کو نائب کپتان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن تنازعہ پھر بھی جاری ہے اور دوسرے سابق کھلاڑی بھی اس بحث میں شامل ہو گئے ہیں۔
انڈیا کے سابق کرکٹر آکاش چوپڑا نے اس بارے میں وینکتیش پرساد کے ’موٹیو‘ (مقصد) پر سوال اٹھاتے ہوئے ٹویٹ کی اور 21 فروری کو ایک ویڈیو جاری کر کہا کہ پرساد نے اپنے الزامات میں راہول کے ساتھی کھلاڑیوں کے اعداد و شمار کا ذکر نہیں کیا۔
ہربھجن سنگھ نے کے ایل راہول کی حمایت میں آ کر کہا کہ راہول نے کوئی جرم نہیں کیا۔
انھوں نے مزید کہا ’ہم سب بین الاقوامی کرکٹ میں اس طرح کے حالات سے گزرتے ہیں۔ وہ پہلے اور آخری (کھلاڑی) نہیں۔ لہذا براہ کرم اس حقیقت کا احترام کریں کہ وہ ہمارے اپنے ہیں۔‘
https://twitter.com/harbhajan_singh/status/1628055859661266944?s=20
لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب کھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں سلیکشن کے حوالے سے بورڈ پر جانبداری کے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اکثر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ انڈین کرکٹ پر ملک کی نچلی ذات کی بجائے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے کرکٹرز کا غلبہ ہے۔
محققین گورو بھوانی اور شبھم جین کے اعدادوشمار کے مطابق ’نچلی ذات‘ کے ہندو کرکٹرز کو ملک کے لیے کھلینے کا موقع کبهی کبهار ہی فراہم کیا گیا۔
سنہ 2018 میں انھوں نے نامور میگزین ای پی ڈبلیو میں لکھا تھا کہ ’انڈیا کی 85 سالہ طویل ٹیسٹ تاریخ میں 289 مرد ٹیسٹ کرکٹرز میں سے صرف چار ہی مبینہ طور پر دلت (سب سے ’نیچی ذات‘) تھے۔‘
تاہم حالیہ برسوں میں کئی او بی سی کھلاڑیوں کو ملک کی نمائندگی کرنے کا موقع ملا لیکن شائقین الزام لگاتے ہیں کہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں ابھی بھی جانبداری جاری ہے۔
نومبر 2022 میں سینیئر صحافی دلیپ منڈل، جو ذات پات کی عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں، نے سریہ کمار یادو (جو کہ دیگر پسماندہ طبقہ یا او بی سی ہیں) کے ٹیم میں انتخاب پر سوالات اٹھائے تھے۔
انھوں نے ’کاسٹِسٹ بی سی سی آئی‘ لکھ کر متعدد بار یہ الزام لگایا کہ ’ایک ہی ذات کے سات سات کھلاڑی رکھتے ہو اور کپ وغیرہ کچھ لاتے نہیں ہو۔ سریہ کمار یادو کو بنا وجہ باہر کر دیا۔ سنجو سیمسن بھی باہر ہے۔ بی سی سی آئی شرم کرو۔‘
یہ بھی پڑھیے
انڈین کرکٹ ٹیم کے مسلمان کھلاڑیوں کے تلک نہ لگوانے پر تنازع: ’مودی جی بھی تو جالی والی ٹوپی نہیں پہنتے‘
انڈیا: مسلمان کرکٹر کے آنسو پر قوم پرستی کی بحث
ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان کے ہاتھوں انڈیا کی شکست پر اکشے ’پنوتی‘ اور شامی ’غدار‘ کیوں ہو گئے؟
https://twitter.com/Profdilipmandal/status/1595625593391157249?s=20
اگرچہ کھلاڑی عام طور پر عوامی بیانات سے گریز کرتے ہیں، کئی نے نادانستہ یا نادانستہ طور پر ذات پات سے متعلق متنازعہ بیانات دیے ہیں۔
دسمبر 2022 میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان دوسرے ٹیسٹ کے دوران ایک انڈین کھلاڑی کو سٹمپ مائیک پر ایک ساتھی کھلاڑی کو غالباً اس کے کمزور فیلڈنگ کی وجہ سے ’چھپری‘ کہتے ہوئے سنا جا سکتا تھا۔
واضح رہے کہ چھپری ذات کے لوگ چھپر یعنی عارضی چھتوں کو بناتے تھے لیکن کئی بار اسے ایک ذات پات پر مبنی گالی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مئی 2020 میں سابق انڈین کرکٹر یووراج سنگھ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے روہت شرما کے ساتھ انسٹاگرام پر ایک بات چیت کے دوران یوزویندر چہل کے خلاف ذات پات کی بنا پر توہین آمیز بات کی تھی، جس کے بعد یوراج سنگھ نے معافی مانگی تھی۔
دوسری طرف کرکٹر رویندر جڈیجہ، اکثر کھلے عام اپنی ذات کی شناخت پر فخر ظاہر کرتے ہیں۔ جولائی 2021 میں انھوں نے ٹویٹ کی تھا کہ ’ہمیشہ کے لیے راجپوت بوائے۔ جے ہند۔‘
https://twitter.com/imjadeja/status/1418266457214013447?s=20
واضح رہے کہ انڈین معاشرے میں ذات پرستی لوگوں کے آپسی رشتوں میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سنہ 2021 کے ’پیو ریسرچ‘ کے ایک سروے کے مطابق اکثر انڈین شہری اپنی ذات کے لوگوں سے ہی دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔
سروے کے مطابق ’تقریبا ایک چوتھائی انڈین شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کے تمام قریبی دوست ان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔‘