اجمل قصاب کے خلاف گواہی دینے والی نو سالہ لڑکی کی زندگی کیسے بدلی؟

ممبئی میں ہونے والے حملے میں دیویکا کو سی ایس ایم ٹی ریلوے سٹیشن پر ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ اس مقام پر ہونے والے حملے میں 52 افراد ہلاک اور 108 زخمی ہوئے تھے۔

ممبئی میں سنہ 2008 میں 26 نومبر کو ہونے والے حملوں کی عینی شاہد دیویکا روٹاون کی ٹانگ پر گولی کا نشان آج بھی باقی ہے۔

یہ گولی انھیں سی ایس ایم ٹی ریلوے سٹیشن پر لگی تھی، اس مقام پر ہونے والے حملے میں 52 افراد ہلاک اور 108 زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت دیویکا نے خصوصی عدالت میں گرفتار اجمل قصاب کی شناخت کی اور گواہی بھی دی تھی۔ دیویکا اس واقعے کی سب سے کم عمر گواہ تھیں اور ان کی عمر صرف نو سال اور 11 ماہ تھی۔

انڈیا سے جڑی تازہ ترین خبریں اب براہِ راست آپ کے فون پر۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

26 نومبر 2011 کو ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں 174 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے وقت دیویکا، ان کے والد اور بھائی سی ایس ایم ٹی ریلوے سٹیشن پر موجود تھے۔

بی بی سی مراٹھی سے بات کرتے ہوئے دیویکا نے کہا کہ ’مجھے وہ واقعہ آج بھی یاد ہے۔ میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گی۔ میں آج بھی اس سے پریشان ہوں۔ میرے سامنے اتنے لوگ مارے گئے تھے۔ میں سی ایس ٹی ریلوے سٹیشن پر تھی۔‘

دیویکا کہتی ہیں ’میرے والد اور بھائی میرے ساتھ تھے اور ہم پونے جا رہے تھے۔ پھر اچانک ایک بم دھماکہ ہوا۔ اس کے بعد فائرنگ شروع ہو گئی۔ جس شخص کو میں نے دیکھا وہ اندھا دھند فائرنگ کر رہا تھا۔ مجھے وہ چہرہ ہمیشہ یاد رہے گا۔‘

اجمل قصاب کے خلاف گواہی دینے پر نوجوان دیویکا کو زندگی کے تمام شعبوں سے سراہا گیا۔ دیویکا کو اب تک کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ تاہم اس واقعے نے ان کی پوری زندگی بدل دی۔

اب دیویکا 25 سال کی ہیں اور آرٹس میں گریجویشن مکمل کر لیا ہے۔ وہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ باندرہ میں کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔

اجمل قصاب کے خلاف عدالت میں گواہی دینے کے بعد دیویکا کی زندگی آسان نہیں رہی۔ آئیے ان کی پچھلے 15 سالوں میں زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

اجمل قصاب نے عدالت میں اعتراف جرم کیا
BBC
اجمل قصاب نے عدالت میں اعتراف جرم کیا

’مالی امداد کے لیے انتظار کرنا پڑا‘

ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس رات 10 حملہ آور سمندری راستے سے ممبئی میں داخل ہوئے۔ انھوں نے دو فائیو سٹار ہوٹلوں، ایک رش والے کیفے، چھترپتی شیواجی ٹرمینس (سی ایس ٹی) اور یہودیوں کے مرکز نریمن ہاؤس پر حملہ کیا۔ اس کے بعد 60 گھنٹے تک جاری رہنے والے تصادم میں 174 لوگوں کی جانیں گئیں۔

دیویکا کی ٹانگ میں گولی لگنے کے بعد سرجری کرائی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی تعلیم بھی دیر سے شروع ہوئی جب تک کہ وہ دوبارہ اپنی ٹانگ پر کھڑی ہو کر پوری طرح صحت یاب نہ ہو سکیں۔

دیویکا کا کہنا ہے کہ انھوں نے ساتویں جماعت سے سکول کی تعلیم شروع کی۔ اس کی عمر اب 25 سال ہے اور انھوں نے 2024 میں آرٹس میں گریجویشن مکمل کیا ہے اور اب نوکری کی تلاش میں ہیں۔

دیویکا نے مالی امداد کے لیے اس وقت کی حکومت کو بھی درخواست دی تھی۔ اس کے بعد حکومت نے تقریباً 10 لاکھ روپے کی مالی مدد فراہم کی۔

دیویکا نے کہا ’مجھے اس وقت حکومت سے بہت امیدیں تھیں کہ وہ میری مدد کریں گے، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ میں ڈیڑھ سال تک وزارتوں کے چکر لگاتی رہی جہاں سے ہمیں مدد مل سکتی تھی۔ ہم مالی طور پر بہت غیر مستحکم تھے۔‘

’میرا نام قصاب رکھ دیا گیا تھا‘

حملے کے بعد تقریباً 15 سالوں میں دیویکا کو کئی اچھے اور برے تجربات سے گزرنا پڑا۔ قصاب کے خلاف گواہی دینے سے لے کر اب تک کے سفر نے بہت کچھ سکھایا ہے۔ انھوں نے بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا کیا ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے دیویکا کہتی ہیں ’بہت سے لوگ مجھے چھیڑتے تھے کہ قصاب جا رہی ہے، میرا نام قصاب رکھ دیا گیا تھا۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، لیکن بڑے بھی اس طرح کی بات کرتے تھے۔‘

’میں اس طرح کے لوگوں سے ایک دو بار لڑ بھی چکی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ زندگی میں چاہے کتنے ہی اتار چڑھاؤ کیوں نہ آئیں، ہمیں صرف لڑنا ہی پڑتا ہے۔ بیٹھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنے حقوق کے لیے لڑنا پڑتا ہے، آپ کو آگے آنا اور بولنا پڑتا ہے۔‘

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اس دوران وہ اکثر مایوسی کا شکار رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے لوگوں کے بہت سے چہرے دیکھے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیمرے کے سامنے کیا کہا گیا اور اس کے بعد کیا کہا گیا۔ کچھ لوگوں نے تعاون کیا۔ یقیناً ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ میں اتنا ہی کہوں گی کہ آپ کو کسی کی باتوں پر فوراً یقین نہیں کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شروع میں، مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کو ایک گھر دیا جائے گا، آپ کی تعلیم میں مدد کی جائے گی، آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم آپ کے پاس ہوں گے، لیکن ضرورت پڑنے پر کوئی نہیں تھا۔‘

دیویکا کو اب ممبئی کے اندھیری علاقے میں گھر مل گیا ہے۔ وہ فی الحال اپنے خاندان کے ساتھ باندرہ میں کرائے کی ایس آر اے بلڈنگ میں رہتی ہیں اور جلد ہی اپنے نئے گھر میں منتقل ہونے والی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اب مجھے اندھیری میں گھر مل گیا ہے جو کہ 300 مربع فٹ ہے، لیکن اس کے لیے بھی مجھے عدالت جانا پڑا۔‘

سنہ 2020 میں دیویکا نے ممبئی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ انھیں معاشی طور پر کمزور طبقے والے کوٹے کے تحت گھر دیا جائے۔

رہائش کا مطالبہ کیسے شروع ہوا؟

ممبئی حملوں کے کیس میں گواہی دینے کے بعد بہت سے لوگوں نے ان سے مدد کا وعدہ کیا۔ تاہم حقیقت میں مدد مانگنے کے بعد بھی کوئی آگے نہیں آیا۔ دیویکا کہتی ہیں کہ آخرکار انھیں عدالت کی مدد لینی پڑی۔

چونکہ ان کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی اور ان کے پاس مناسب گھر بھی نہیں تھا، اس لیے دیویکا نے 2020 میں حکومت سے مکان حاصل کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی۔ اس کے بعد آخرکار دیویکا کو گھر مل گیا۔

دیویکا نے کہا ’مکان کی جدوجہد کافی دنوں تک جاری رہی۔ 2010-2011 میں ضلع کلکٹر کے دفتر سے کچھ لوگ ہمارے گھر آئے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ مکان آپ کے نام پر الاٹ کیا گیا ہے۔ ان کے پاس کچھ کاغذات بھی تھے۔‘

’انھوں نے ایک درخواست پر ہمارے نام اور ديگر معلومات لکھیں۔ میرے والد اور میں نے اس پر دستخط کیے۔ ہم نے ان سے دستاویزات مانگیں لیکن انھوں نے نہیں دیں۔ ہم نے اس کے بارے میں پوچھ گچھ جاری رکھی۔ جب ان کے دیئے گئے نمبروں میں سے ایک پر کال کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ غلط نمبر ہے۔‘

دیویکا کو ان کی بہادری کے لیے مختلف شبہائے زندگی کے لوگوں کی جانب سے سراہا گيا
Getty Images
دیویکا کو ان کی بہادری کے لیے مختلف شبہائے زندگی کے لوگوں کی جانب سے سراہا گيا

اس کے بعد دیویکا نے بتایا کہ وکلا کی مدد سے انھوں نے 2020 میں عدالت میں درخواست دائر کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ صرف وکلا اور ججوں کی وجہ سے ہی وہ گھر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

عدالت کے حکم کے سے پہلے ہی حکومت سے مکان مل گیا تھا۔ تاہم یہ دیکھا گیا کہ ان کو ملنے والے گھر والی زمین کے ساتھ کچھ مسائل تھے۔ اس کے بعد انھوں نے دوبارہ مدد مانگی اور اب دیویکا نے کہا ہے کہ انھیں آخر کار گھر مل گیا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت بہت سے وعدے کیے گئے، لیکن اگلے دن سب بھول گئے۔ صرف بڑی باتیں ہی باتیں تھیں۔ ایسے سیاسی رہنما بھی تھے جن میں صلاحیت تھی، جو کچھ کر سکتے تھے۔ نہ صرف میرے لیے بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی جو 26/11 پر موجود تھے۔ تاہم صرف زبانی جمع خرچ کیا گیا۔‘

دیویکا نے مزید کہا کہ کچھ لوگوں نے ٹی وی کے سامنے باتیں کہیں جبکہ کچھ نے غیر رسمی طور پر وعدے کیے۔ جب ان سے رابطہ کیا تو کچھ لوگوں نے اس طرح کا ردعمل ظاہر کیا کہ ’دیویکا، میں آپ کو نہیں جانتا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک طویل عمل تھا۔

دیویکا کا کہنا ہے کہ انھیں ضلع کلکٹر آفس سے آنے والے لوگوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں۔

’میں یہ نہیں جان سکی کہ اہلکار کون تھے یا وہ کیا کر رہے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ حکومت سے آئے ہیں یا کس سیاسی جماعت سے۔ تاہم میں نے 2020 سے پہلے تقریباً 10 سال سیاسی رہنماؤں اور دیگر لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ میں صرف ایک سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ تقریباً تمام جماعتوں کے لوگوں سے ملی۔‘

پولیس انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

اس سلسلے میں ممبئی پولیس کمشنریٹ کی جانب سے بی بی سی مراٹھی کو دی گئی معلومات کے مطابق ’دیویکا اور اس کے والد نٹور لال روٹاون نے عدالت میں اپنی گواہی میں بتایا کہ وہ راجستھان کے ضلع پالی میں تقریباً تین سال سے (2009 سے پہلے) رہ رہے تھے۔‘

یہ بھی کہا گیا کہ اس واقعے کے کل 380 گواہ تھے۔ ان میں سے 177 گواہ عینی شاہد تھے۔

’کچھ گواہوں کی گواہی عدالت میں ذاتی طور پر لی گئی۔ کچھ گواہوں کی گواہی حلف ناموں کے ذریعے ریکارڈ کی گئی۔ یہ کہنا بہت غلط ہے کہ قصاب کو صرف دیویکا کی گواہی کی وجہ سے پھانسی دی گئی۔ درحقیقت حکومت کی جانب سے عدالت میں کل 654 گواہوں پر جرح کی گئی۔‘

ان کے مطابق ’سزائے موت، عینی شاہدین کی گواہی، حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے تکنیکی شواہد، سی سی ٹی وی فوٹیج، قصاب اور ابو اسماعیل کی دو صحافیوں کی جانب سے لی گئی تصاویر، فرانزک ماہرین کی جانب سے جانچ، عدالت میں قصاب کے اعتراف، ٹرائل کورٹ میں دیے گئے اعترافی بیان وغیرہ کی بنیاد پر سنائی گئی۔‘

دیویکا کو اس دہشت گردانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد حکومت کے اعلان کے مطابق ضلع کلکٹر کے دفتر سے طبی اور مالی امداد ملی ہے۔ یہ بات بمبئی ہائی کورٹ میں مکان کے لیے دائر کی گئی اس کی درخواست کی سماعت کے دوران کہی گئی تھی۔

دیویکا نے حکومت سے مکان کی درخواست دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دہشت گردانہ حملے کی گواہ ہیں۔ ممبئی ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ حکومت نے اس عرضی کے مطابق دیویکا کو فلیٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسی مناسبت سے عدالت نے اپنے فیصلے میں نوٹ کیا کہ سرکاری استغاثہ نے 12 مارچ 2024 کو ایک خط پیش کیا جو انھیں ایڈیشنل سیکرٹری، ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ حکومتِ مہاراشٹر سے موصول ہوا ہے۔ اس میں انھیں بتایا گیا ہے کہ عزت مآب ہاؤسنگ منسٹر نے اقتصادی طور پر کمزور سیکشن کے زمرے کے تحت درخواست گزار کو خصوصی کیس کے طور پر ایک فلیٹ الاٹ کرنے کی منظوری دی ہے۔

حکومت کی جانب سے انھیں کل 13 لاکھ 26 ہزار روپے معاوضے کے طور پر ملے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.