ماہ بیگم: 50 برس تک سندھ کی تقدیر کے فیصلے کرنے والی ملکہ، جن کا آخری فیصلہ ان کی جان لے گیا

ماہ بیگم کے دانش مندانہ فیصلوں نے اسے قندھار سے ہزاروں میل دور سندھ کی سرزمین پر تخت و تاج کی ملکہ بنا دیا۔ یکے بعد دیگرے اس کے دو شوہروں شاہ حسن اور عیسی خان ترخان نے حکمرانی کا تاج پہنا اور سندھ پر حکومت کی۔
فائل فوٹو
Getty Images
(فائل فوٹو)

سنہ 1495 میں قندھار میں ایک ارغون سردار مقیم بیگ کے گھر میں جنم لینے والی ماہ بیگم کے حسن و جمال کا چرچا دُور دُور تک پھیلا۔ ماہ بیگم کے سرخ و سفید چہرے پر سجا تل غضب کی کشش رکھتا تھا۔ ازبک روایات میں ایسا تل خوش بختی کی علامت تھا۔

پھر ایک وقت آیا کہ ان کے دانشمندانہ فیصلوں نے انھیں قندھار سے ہزاروں میل دور سندھ کی سرزمین پر تخت و تاج کی ملکہ بنا دیا۔

یکے بعد دیگرے ان کے دو شوہروں شاہ حسن اور عیسیٰ خان ترخان نے حکمرانی کا تاج پہنا اور سندھ پر حکومت کی مگر اس سب کے لیے ماہ بیگم تاحیات جدوجہد کرتی رہیں۔

قید اور فرار

16ویں صدی کے اوائل میں سندھ، افغانستان، ایران، ہندوستان اور ایشیائے کوچک مستقل سیاسی تبدیلیوں کی زد میں تھے۔ سندھ اس وقت برصغیر میں اہم سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہاں سمّہ خاندان کی حکومت تھی اور اسے تاریخ میں سکون، امن، علم اور خوشحالی کا دور تصور کیا جاتا ہے۔

افغانستان میں تیموری طاقت بکھر رہی تھی۔ اس لیے وہ براستہ سندھ ہندوستان کے وسیع و عریض علاقے کی جانب بڑھنا چاہتے تھے۔ درۂ خیبر ایک طویل عرصے سے مختلف اقوام کی آمدورفت کا باعث تھا، ایسے میں جو بھی یہاں پیر جمانے کے قابل ہو جاتا، سندھ اور ہند کی خوشحالی اس کے دن پھیر دیتی۔

وسطی ایشیا، خراسان اور فرغانہ میں تیموری، قزلباش اور ارغون قبائل کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی عروج پر تھی۔ شاہ بیگ ارغونوں کے سردار کے طور پر قندھار تک مطلق العنان حکمران بننا چاہتے تھے مگر مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر ان کے عزائم کی راہ میں دیوار کی طرح حائل تھے۔

سنہ 1507 میں بابر اور شاہ بیگ کا مقابلہ ہوا جس میں بابر کو فتح ہوئی اور وہ مال غنیمت کے ساتھ شاہ مقیم کی بیٹی اور شاہ بیگ کی بھتیجی ماہ بیگم کو بھی ساتھ لے گئے۔ اس وقت ماہ بیگم کی عمر بمشکل بارہ سال ہوگی۔

تاریخ دان اور مصنف کلیم اللہ لاشاری تفصیل بتاتے ہیں کہ ’وسط ایشیا کی وہ خواتین جو اشرافیہ سے تعلق رکھتی تھیں ان کا سیاست میں بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ ان خواتین کی شادیاں بھی سیاسی طاقت کے حصول کے تحت کی جاتیں۔‘

’اگر کسی جنگ میں خواتین کو مال غنیمت کے ساتھ حاصل بھی کر لیا جاتا تب بھی ان سے عزت اور احترام سے پیش آیا جاتا۔ ایسی خواتین کی شادیاں بھی گو کہ سیاسی گٹھ جوڑ ہی ہوتیں مگر رشتہ ہم پلہ ہی دیکھا جاتا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’بابر نے بھی اسی اصول کے پیش نظر ماہ بیگم کی شادی محمد قاسم سے کروائی۔ بعد ازاں قاسم کوکہ، ایک جنگ میں مارے گئے جبکہ کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ ماہ بیگم نے شوہر سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔‘

کلیم اللہ لاشاری کا کہنا ہے کہ ’ارغون ازبک نسل کا قبیلہ ہے جس کا قریبی تعلق ترک نسل سے بھی ہے۔ اس لیے جب بابر ماہ بیگم کو قید کرنے پر نازاں تھے تو ارغون اور ازبک انھیں دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ یہ ان کے لیے انا کا مسئلہ بھی تھا۔‘

ترخان نامہ میں سید میر محمد بن جلال ٹھٹوی لکھتے ہیں کہ شاہ بیگ ارغون (ماہ بیگم کے چچا) 1511 میں سیوی کے قلعے کی فتح کے بعد قندھار واپس لوٹے تو ماہ بیگم کی والدہ نے ماہ بیگم کو واپس لانے پر اصرار کیا۔

ترخان نامہ میں ہی لکھا کہ ماہ بیگم کو آزاد کروانے کے لیے بابر سے جنگ کرنا پڑتی جس کے لیے بظاہر ایک بڑی فوج اور جنگی مہم درکار تھی مگر ماہ بیگم کی ذہانت اور سیاسی سوجھ بوجھ نے اس کام کو آسان بنا دیا۔

شاہ بیگ کے بھیجے ہوئے چند افراد جن میں خواتین بھی تھیں، نے ماہ بیگم تک خفیہ طور پر رسائی حاصل کی اور ماہ بیگم نے کمال ذہانت سے سلاسل کے بند دروازے کھول لیے۔ البتہ وہ اپنی بیٹی ناہید بیگم (جو ان کی پہلی شادی سے تھیں) کو اپنے ساتھ نہ لاسکیں۔

ماہ بیگم کا فرار بابر کی بہادری، جرات اور فوجی حکمت عملی کے لیے ایک بڑا دھچکہ تھا۔ غفلت کے مرتکب تمام افراد کو سزا دی گئی۔ مزید کسی جنگ و جدل سے بچنے اور مستقبل میں ارغونوں سے دوستی بنائے رکھنے کے لیے انھیں قندھار کا بیرونی علاقہ دینے کا بھی وعدہ کیا گیا مگر مؤرخین کے مطابق بابر کے اس اچھے سلوک کے باوجود ماہ بیگم کے دل میں پڑی گرہ کھل نہ سکی اور انھوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہر صورت اپنی قید کا بدلہ بابر سے سیاسی میدان میں لے کر رہیں گی۔

ماہ بیگم کے واپس آنے سے چچا شاہ بیگ کو ایک بہترین سیاسی مشیر حاصل ہوگیا۔ وہ اپنی نوعمر بھتیجی کی سیاسی بصیرت کے قائل تھے، اس لیے مستقبل کی ہر حکمت عملی میں ان کی رائے کو اہمیت دیتے اور وہ بھی چچا کے ساتھ نت نئی فتوحات کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گئیں۔

شاہ بیگ نے بھتیجی کی شادی اپنے بیٹے شاہ حسن سے کر دی تھی۔

ماہ بیگم کا سیاسی اثر و رسوخ

ماہ بیگم سیاسی فیصلوں میں کتنی دخیل تھیں اس کا اندازہ شیخ عزیز کی کتاب ’سندھ کی محلاتی داستانیں‘ سے ہوتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’یہ سبی شہر کے ایک محل نما گھر کا منظر ہے جہاں مستقبل کے حوالے سے ایک اہم اجلاس جاری تھا جس میں صرف چند افراد موجود تھے۔ میزبان اور شاہ بیگ کا وفادار سنبل بیگ، شاہ بیگ، بیٹا شاہ حسن اور ماہ بیگم موجود تھیں۔ شاہ بیگ سیوی کا قلعہ فتح کرچکے تھے۔ اب سیوی قلعے کی فتح کے بعد موضوع گفتگو یہ تھا کہ بابر سے ٹکر لینے کے لیے قندھار پر دوبارہ حملہ کیا جائے۔ شاہ بیگ کے علاوہ ان کا بیٹا شاہ حسن بھی اسی حق میں تھا۔‘

’واضح رہے کہ کمرے میں موجود افراد میں ماہ بیگم سب سے کم عمر تھیں مگر ان کا قطعی فیصلہ تھا کہ قندھار کے بجائے سندھ پر قبضے کے لیے دارالحکومت ٹھٹھہ پر حملہ کر دیا جائے تاکہ بابر اپنے زخم چاٹتے رہیں۔ وہ جانتی تھیں کہ بابر کی بھی شدید خواہش تھی کہ وہ سندھ پر قبضہ کر لے مگر اس کے لیے مطلوبہ طاقت انھیں حاصل نہ تھی۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’شاہ بیگ بھی ٹھٹھہ کی جانب رُخ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا مگر ماہ بیگم نے یقین دلا دیا کہ انھوں نے تمام تیاریاں کر رکھیں ہیں۔ اگرچہ وہ تینوں جنگی حکمت عملی کے حوالے سے تجربہ کار تھے مگر ماہ بیگم کا فیصلہ حتمی تھا کہ سندھ کی طرف رُخ کیا جائے گا لہذا بقیہ افراد نے اس پر صاد کیا۔‘

لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹھٹھہ پر جام نظام الدین جنھیں ان کی رعایا پیار سے ’جام نندو‘ بلاتی تھی، کی حکومت تھی۔ یہ امن و خوشحالی کا دور تھا۔

پروفیسر نور احمد جھنجی بتاتے ہیں کہ سمّہ دور سندھ میں علم و فضل کا دور تھا۔ ’یہ ایک جدید سوسائٹی تھی۔ مدارس کی بہتات تھی، دنیا بھر کے علوم پڑھائے جاتے۔ علمائے کرام کی آمدورفت عام تھی۔ کوریئر کا وہ نظام تھا کہ بغداد تک ڈاک ایک ہی دن میں پہنچ جاتی۔ اس کے لیے بڑا شان دار نظام موجود تھا۔ ایک مخصوص فاصلے پر چاق و چوبند گھڑ سوار موجود ہوتے جو ڈاک کو دوسرے گھڑ سوار کے حوالے کرتے، یوں ایک دن میں ڈاک منزل مقصود تک پہنچ جاتی۔‘

یہ بھی پڑھیے:

’شفا‘: وہ خاتون جنھیں ان کی کاروباری ذہانت کی بدولت اسلام کی ’پہلی مارکیٹ منتظم‘ مقرر کیا گیا

سنہرا اسلامی دور: قرون وسطیٰ کی فارسی شاعرائیں رابعہ بلخی، مھستی گنجوی، جنھوں نے محبت کو نئی زبان دی

حضرت خدیجہ: پیغمبرِ اسلام کی پہلی بیوی جنھوں نے شوہر اور دین کی خاطر وہ سب کچھ کیا جو ان کے بس میں تھا

نور احمد جھنجی کا کہنا ہے کہ ایسے ماحول میں جب رعایا بھی حکمراں سے پیار کرتی ہو، بیرونی طاقتوں کے لیے قبضہ کرنا آسان نہیں ہوتا اور اگر کسی جوڑ توڑ سے قبضہ کر بھی لیا جائے تو اس قبضے کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔

شاہ بیگ کے ساتھ بھی یہی ہوا، سیوی پر قبضہ کرنے میں اگرچہ انھیں کوئی مشکل نہ ہوئی لیکن اس قبضے کو برقرار رکھنے میں انھیں ضرور مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ یہ اطلاعات مل رہی تھیں کہ شاید جام نظام الدین اپنا علاقہ آزاد کروانے کے لیے سیوی پر حملہ کر دیں لہذا انھوں نے یہیں قیام کا فیصلہ کیا۔

کوئی سال بھر بعد توقع کے مطابق جام نظام الدین 12 ہزار نفری کے ساتھ سیوی پہنچ گئے۔ اگرچہ ماہ بیگم اور شاہ حسن پُراعتماد تھے مگر اس بار ان کے اندازے درست نہ نکلے۔

جام نظام الدین کی اصل طاقت ان کا بہادر اور صاحب بصیرت سپہ سالار دریا خان تھا۔ خاصے جنگ و جدل کے بعد دریا خان نے سیوی پر قبضہ کرلیا۔ شاہ بیگ پسپا ہو چکے تھے اور سپاہیوں کی قلیل تعداد کے ساتھ شال کوٹ قلعے میں پہنچ گئے۔

بعد ازاں ان کا بیٹا شاہ حسن بھی ان حالات سے نالاں ہو کر بابر کے دربار میں پہنچ گیا۔ ماہ بیگم شاہ حسن کے ساتھ ہی تھیں۔

شاہ حسن دو سال بابر کے دربار سے وابستہ رہے پھر ماہ بیگم کے ساتھ باپ کے پاس لوٹ آئے۔

شاہ حسن کی واپسی سے سندھ پر قبضے کا خواب ان تینوں کی آنکھوں میں دوبارہ زندہ ہو گیا۔ اس بار قدرت بھی ان کے ساتھ تھی کیونکہ جام نظام الدین کی وفات ہو چکی تھی اور ان کے بعد تخت کے حوالے سے تنازعات کھڑے ہوگئے تھے۔ اصول کے مطابق جام نظام الدین کا نوعمر بیٹا جام فیروز تخت نشیں ہوچکا تھا مگر جام نظام الدین کے بھائی یعنی جام فیروز کے چچا جام صلاح الدین بھی تخت کے آرزو مند تھے۔ دونوں میں شدید رسہ کشی جاری تھی۔

ماہ بیگم کا خیال تھا کہ اس تنازع کو ہوا دے کر وہ اپنی مراد پا سکتے ہیں مگر شاہ بیگ نے خبردار کیا کہیہ مت بھولو کہ سپہ سالار دریا خان ابھی زندہ ہے۔

ماہ بیگم پُرامید تھیں کہ وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماہ بیگم کے بھیجے ہوئے افراد نے نوعمرجام فیروز کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیا تھا۔ دریا خان کی مخالفت کے باوجود جام فیروز نے ان افراد کو امور سلطنت میں دخیل کر لیا اور اہم عہدے دے دیے۔

کتاب سندھ کی محلاتی داستانیں میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ماہ بیگم کے ٹھٹھہ بھیجے ہوئے ان افراد میں سب سے اہم میر قاسم کبیکی تھے، جنھیں جام فیروز نے نہ صرف ملازمت پر رکھ لیا بلکہ ایسے امور بھی سونپ دیے جو صرف حکومت کے خاص افراد کے لیے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ میر قاسم کو ٹھٹھہ شہر میں ایک علیحدہ رقبہ بھی بطور جاگیر عطا کیا جس کو مغل واڑہ کا نام دیا گیا۔ آج بھی وہ علاقہ اسی نام سے مشہور ہے۔ اس وقت وہاں ارغون افراد کے علاوہ کوئی پر نہیں مار سکتا تھا۔ میر قاسم نے ماہ بیگم کا دیا ہوا کام احسن طریقے سے انجام دیا اور جام فیروز اور ان کے چچا کو تخت کے لیے مدمقابل لا کھڑا کردیا۔

میر قاسم نے جام فیروز کو یہ راہ سجھائی کہ چچا صلاح الدین سے جنگ کے لیے ارغونوں کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر دانا و بینا دریا خان نے روکنے کی کوشش کی کہ ارغون تو خود سندھ پر قبضے کا خواب دیکھ رہے ہیں کہ اگر ان کی فوج یہاں آگئی تو ہمارے لیے بُرا ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ صرف چند ماہ قبل ماہ بیگم سندھ کے مزارات کی زیارت کے بہانے آئی تھیں جبکہ ان کی آمد کا اصل مقصد حالات سے واقفیت اور خصوصی ہدایات دینا تھا۔

ناتجربہ کار جام فیروز اس ساری جوڑ توڑ کو سمجھنے سے قاصر تھے اور انھیں دریا خان کی بات کا یقین نہ تھا۔

’کیا ایک خاتون ارغون سرداروں پر اتنا حاوی ہو سکتی ہے؟‘ جام فیروز نے ماہ بیگم کے حوالے سے اعتراض کیا لیکن جام فیروز ہواﺅں کا رخ نہ پہچان سکے۔ بہرحال گھمسان کا رن پڑا اور بالآخر ارغونوں نے جام فیروز کو شکست دے کر سندھ پر قبضہ کرلیا۔

دیر سے سہی مگر ماہ بیگم نے جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوا۔ اب ان کے شوہر شاہ حسن حکمران تھے اور وہ ایسی ملکہ جن کی مرضی کے بغیر امور سلطنت کا کوئی فیصلہ نہ ہوتا۔ ماہ بیگم اب ٹھٹھہ کے شاہی محل میں قیام پذیر تھی۔ شاہ حسن زیادہ تر بکھر میں ہوتے، جہاں انھیں شمالی چھاﺅنی اور حتمی دارالحکومت بنانا تھا۔

شاہ بیگ کی وفات ہو چکی تھی اور شاہ حسن کے تمام امور کی نگرانی عیسی خان ترخان کر رہے تھے، جنھیں شاہ حسن نے منھ بولا بیٹا بنا رکھا تھا لیکن انھیں بھی ہر حکم کے لیے ماہ بیگم کی اجازت کی ضرورت تھی۔ ماہ بیگم اب سندھ کے ہر سیاہ و سفید کی مالک تھیں۔

ماہ بیگم نے سندھ کا اقتدار تو حاصل کرلیا تھا مگر انھیں بابر کاخوف لاحق تھا کہ وہ انھیں چین سے بیٹھنے نہ دے گا کیونکہ سندھ پر قبضہ بابر کی بھی خواہش تھی۔ اس خطرے کو ماہ بیگم کے ذہن رسا نے ایسے ٹالا کہ انھوں نے اپنی خوبصورت بیٹی ناہید بیگم کو بابر کے حرم میں دے دیا۔ یوں اب بابر سے قریبی رشتے داری ہوچکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بابر نے ٹھٹھہ کا رُخ نہیں کیا اور دلی کی طرف روانہ ہو گئے۔

لیکن ماہ بیگم کی آزمائش ابھی باقی تھی۔ سنہ1551 میں شاہ حسن شدید علیل ہو گئے۔

لیم اللہ لاشاری بتاتے ہیں کہ شاہ حسن کو ایک عجیب بیماری لاحق تھی، وہ پانی کے قریب رہنے کو ترجیح دیتے۔ آخری 13 ماہ انھوں نے کشتی پر گزارے اور وہیں وفات پائی۔

آنے والے دنوں میں ماہ بیگم نے عیسیٰ خان ترخان سے شادی کرلی جو شاہ حسن کے بعد ٹھٹھہ کے حکمران بنے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس سیاسی جوڑ توڑ میں بھی ماہ بیگم کا ہاتھ تھا۔ ماہ بیگم ایک بار پھر ملکہ بن چکی تھیں۔

ماہ بیگم کا آخری فیصلہ

1559 میں عیسی خان ترخان بہت کمزور ہو چکے تھے۔ ماہ بیگم کی بدقسمتی تھی کہ شاہ حسن سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی جسے وہ باپ کے مرنے کی بعد تخت پر بٹھاتیں جبکہ عیسیٰ خان کی دوسری بیویوں سے بہت سی اولادیں تھیں جو تخت پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔

یہ سب ماہ بیگم کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ ارغونوں کو سندھ پر حکمران بنا چکی تھیں اور اب بھی ارغونوں کا اثر رسوخ بہت تھا۔ ماہ بیگم بھی حالات کو بھانپ رہی تھی۔ بظاہر مرزا عیسیٰ خان ترخان چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا صالح خان تخت و تاج کا مالک بنے لیکن ماہ بیگم اس بات کی مخالف تھیں۔ ماہ بیگم کا ووٹ مرزا محمد باقی کی جانب تھا۔

عیسیٰ خان کا آخری وقت تھا۔ ماہ بیگم ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھی تھیں جب عیسیٰ خان نے آخری بار انھیں متنبہ کیا کہ ’اگر مرزا محمد باقی کے سر پر حکومت کا تاج رکھا تو جان لو کہ تمھاری موت بھی اسی کے ہاتھوں ہو گی۔‘

ماہ بیگم شوہر کی بات کو خاطر میں نہیں لائی۔ انھوں نے زندگی بھر آزادی سے فیصلے کیے تھے جن میں سے بیشتر صحیح ثابت ہوئے تھے لہذا اس بار بھی انھیں اپنے فیصلے اور بصیرت پر اعتماد تھا۔

عیسیٰ خان کے مرنے کے بعد ماہ بیگم نے مرحوم شوہر کی وصیت کے خلاف مرزا محمد باقی کے حوالے تخت و تاج کردیا لیکن تمام عمر درست فیصلے کرنے والی ماہ بیگم کا آخری فیصلہ ان کے لیے غلط ثابت ہوا، جس کا خمیازہ انھوں نے جان دے کر ادا کیا۔

عیسیٰ خان ترخان کی آنکھیں بند ہونے کے بعد سوتیلے بیٹے مرزا محمد باقی نے ماہ بیگم کو سیوہن قلعے کی جیل میں قید کر دیا۔

ماہ بیگم نے اپنے آخری دن سیوہن قلعے سے دریائے سندھ کے پانی کو دیکھتے ہوئے گزار دیے۔ مرزا باقی صرف چند دن ہی ماہ بیگم کو قید میں رکھ پائے اور اس سے پہلے کہ قید میں ان سے کوئی بدسلوکی کی جاتی، اس بادشا گر خاتون نے نہایت وقار سے اپنی آخری سانسیں لیں۔

مکلی نامہ میں مصنف میر شیر قانع اور پھر حواشیہ میں پیر حسام الدین راشدی لکھتے ہیں کہ ’ماہ بیگم کو گرفتار کر کے مرزا باقی نے ایک کمرے میں قید کر دیا تھا اور حکم دیا کہ ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہ دی جائے اور اس طرح ماہ بیگم بھوک اور پیاس کے ہاتھوں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔‘

اسی مکلی نامہ میں درج ہے کہ ماہ بیگم کو مکلی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ وفات کے وقت ماہ بیگم کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.