مسلمان خاتون کی کہانی جنھوں نے اپنے گھر کام کرنے والی ہندو خاتون کے تین بچوں کو گود لیا

دہائیوں قبل انڈیا میں ایک مسلمان خاتون نے اپنے گھر کام کرنے والی خاتون کی وفات کے بعد اس کے تین ہندو بچوں کو گود لیا اور یوں ماں کی محبت، شفقت اور رواداری میں ڈوبی ایک ایسی غیر معمولی داستان کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ایک فلم کے ذریعے امر کیا جا رہا ہے۔

دہائیوں قبل انڈیا میں ایک مسلمان خاتون نے اپنے گھر کام کرنے والی خاتون کی وفات کے بعد اس کے تین ہندو بچوں کو گود لیا اور یوں ماں کی محبت، شفقت اور رواداری میں ڈوبی ایک ایسی غیر معمولی داستان کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ایک فلم کے ذریعے امر کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی ہندی کے عمران قریشی نے ان بچوں سے بات کی ہے جنھیں سنہ 1976 میں تھینادن صوبیدا نے گود لیا تھا۔

ان میں سے ایک بیٹے جعفر خان نے جب پہلی مرتبہ فلم اینو سوانتھم شری دھارن دیکھی تو ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ تاہم ان کے بھائی شری دھارن جو اس فلم کی رونمائی کے دوران ان کے ساتھ بیٹھے تھے، ’زار و قطار رونے لگے۔‘

جعفر خان اور شری دھارن دونوں ہی 49 برس کے ہیں تاہم ان کا آپس میں خون کا رشتہ نہیں ہے۔ جعفر خان مسلمان، جبکہ شری دھارن ہندو ہیں۔ تاہم جب آپ جعفر خان سے پوچھتے ہیں کہ شری دھارن ان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ’یہ میرا بھائی ہے، بلکہ یہ اس بھی بڑھ کر ہے۔ یہ ہر وقت میرے ساتھ ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں اسے کیا کہوں۔۔۔ یہ میرا ساتھی ہے۔‘

تاہم جس خاتون کے باعث جعفر اور شری دھارن اکھٹے پلے بڑھے وہ دراصل جعفر خان کی والدہ صوبیدہ تھیں جن کی وفات سنہ 2019 میں ہوئی۔

صوبیدا کی دل موہ لینے والی کہانی اس بات کی یاددہانی ہے کہ مذہبی اختلافات کے درمیان فتح آخر کار انسانیت کی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آنے والی کہانی ہے جب انڈیا میں گذشتہ کئی برسوں سے مذہبی بنیادوں پر ہونے والے تنازعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

یہ کہانی سنہ 1976 میں شروع ہوتی ہے جب شری دھارن اور ان کی دو بڑی بہنوں رامانی اور لیلا کی والدہ چاکی چوتھے بچے کی پیدائش کے دوران وفات پا گئیں۔ اس دوران چوتھا بچا بھی نہ بچ سکا۔

چاکی دراصل صوبیدا کے گھر پر کام کرتی تھیں۔ یوں صوبیدا نے ان کے بچوں کو گود لینے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایسا قانونی طور پر تو نہیں کیا یعنی کاغذی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ ان دنوں میں اس بارے میں قوانین اتنے سخت نہیں تھے۔

شری دھارن بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کے رشتہ دار بھی بچوں کو گود لینے کے لیے تیار نہ تھے تاہم بچوں کے والد نے صوبیدا کو اجازت دے دی کیونکہ وہ ’خود بچوں کو پالنے کی توفیق نہیں رکھتے تھے۔‘

صوبیدا کے پہلے ہی دو بیٹے تھے، جعفر خان اور ان کے بڑے بھائی شاہ نواز۔ چاکی کے بچوں کو گود لینے کے بعد انھوں نے اپنی بیٹی جوشینا کو جنم دیا۔ یوں ان بچوں نے اپنا بچپن ایک ساتھ شروع کیا۔

ان کی کہانی اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنی جب صوبیدا کی سنہ 2019 میں وفات ہوئی۔ اس وقت عمان میں کام کرنے والے شری دھارن نے فیس بک پر اپنی والدہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایک جذباتی پوسٹ کی جو وائرل ہوئی۔ اس میں انھوں نے اپنے دوستوں سے والدہ کے ’جنت میں عظیم الشان استقبال‘ کے لیے دعا کرنے کو کہا۔

انھوں نے اس پوسٹ میں اپنی والدہ کو ’اماں‘ کہہ کر پکارا جو عام طور پر ملیالی مسلمان اپنی والدہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس پوسٹ کو دیکھ کر اکثر افراد نے یہ سوال کیا کہ اگر تمھارا ہندو نام ہے تو تم اپنی والدہ کو ’اماں‘ کیوں کہہ رہے ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم ہندو ہو یا مسلمان، کیونکہ میرا نام شری دھارن تھا تو یہ بات عیاں تھی کہ میں ہندو ہوں۔

ان سے ان گنت اور کئی مرتبہ تکلیف دہ سوالات کیے گئے تاہم شری دھارن نے ان تمام سوالات کا صبر سے جواب دیے، ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنی والدہ کی وفات کے غم میں مبتلا تھے۔

انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نہ تو صوبیدا اور نہ ہی ان کے شوہر عبدالعزیز حاجی نے اپنے گود لیے ہوئے بچوں سے اسلام قبول کرنے کا کہا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ وقت میرے لیے اداس کر دینے والا تھا۔ میرے والدین نے مجھے ہمیشہ یہی سکھایا کہ ذات اور مذہب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں رحم دلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم انسان نظریات میں تبدیلی کرتے ہیں۔‘

صوبیدا نے اس فلسلفے کے تحت اپنی زندگی گزاری اور اپنے بچوں کو بڑا کیا۔

لیلا اب 51 برس کی ہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ ان کی ماں (صوبیدا) انھیں مندر لے جایا کرتیں ’جب بھی میرا دل کرتا۔‘ وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ٹرانسپورٹ کی سہولیات اتنی بہتر نہیں تھیں اس لیے وہ ایک گروپ کی شکل میں تہواروں پر جایا کرتے تھے۔

شری دھارن بتاتے ہیں کہ ’میری اماں کہتی تھیں کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ تم ہندو مذہب کی پیروکاری کرو، اسلام کی یا عیسائیت کی۔ ہر مذہب ہمیں ایک ہی پیغام دیتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کسی سے پیار کرو اور ان کا احترام کرو۔‘

دیگر بچوں کی بھی بچپن کی بہت ساری یادیں ہیں۔ شاہ نواز کو وہ دن یاد ہے جب ان کی والدہ گھر آئیں تو انھوں نے دو سالہ شری دھارن کو اٹھا رکھا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ان کی بہنیں لیلا اور رمانی پیچھے پیچھے تھیں۔ میرا والدہ نے اس دن کہا تھا کہ اب سے یہ ہمارے ساتھ رہیں گی کیونکہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘

اس کے بعد سے وہ ایک خاندان تھے۔

شاہنواز بتاتے ہیں کہ کیسے سب بچے فرش پر ایک ساتھ سوتے تھے اور ان سب کی اس وقت خوشی کی انتہا نہیں تھی جب جوشینا چار سال بعد پیدا ہوئیں۔

وقت کے ساتھ جب سب بچے بڑے ہونے لگے تو شری دھارن اور جعفر خان کا آپس میں رشتہ گہرا ہوتا گیااور وہ سب کچھ ساتھ کرتے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ’جڑواں بھائی ہوں۔‘

شاہنواز اور جعفر خان بتاتے ہیں کہ ہم بہن بھائیوں کی آپس میں شاذ و نادر ہی کبھی لڑائی ہوتی تھی حالانکہ ’شری دھارن والدہ کو سب سے زیادہ پسند تھے اور انھیں زیادہ لاڈ پیار سے رکھتی تھیں۔‘

جعفر خان مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میرے برعکس شری سارے کام کرتا تھا اور بہت ایماندار تھا۔ شاید اسی لیے اماں کو وہ بہت پسند تھا۔‘

یہ بہن بھائی بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے والدین سے متعدد اہم سبق بھی سیکھے۔ مثال کے طور پر شاہنواز کو یاد ہے کہ ان کی والدہ اپنے استطاعت سے بھی بڑھ کر لوگوں کی مدد کیا کرتی تھیں اور ان کی ذات، مذیب یا طبقاتی فرق کو ذہن میں نہیں رکھتی تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کوئی بھی میری والدہ کے پاس آ کر ان سے پڑھائی، شادی بیاہ یا طبی مسائل کے لیے رقم مانگ سکتا تھا اور وہ کسی نہ کسی طرح اس کا بندوبست کر دیتیں۔ وہ ایسا اکثر قرض لے کر کرتیں جو بعد میں انھوں نے اپنی آبائی زمین بیچ کر ادا کیے۔‘

یہ تمام کہانیاں فلم اینو سوانتھم شری دھارن کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہیں۔ فلم کے ہدایتکار صدیق پراوور ہیں۔

پراوور ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے شری دھارن کی فیس بک پوسٹ پڑھ کر ان سے رابطہ کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کہانی میں اتنی انسانیت چھپی ہوئی ہے جو معاشرے کو پتا چلنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے انسانی رشتوں کی خوبصورتی کو اس فلم کے ذریعے دکھانے کی کوشش کی ہے۔

اس فلم کی کیرالہ کے ایک تھیٹر میں نو جنوری کو خصوصی سکریننگ کروائی گئی تھی اور پراوور اب اس کی کمرشل ریلیز کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں۔

شری دھارن اور جعفر خان کے دیگر بہن بھائی جو اب انڈیا کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کو اس سے بہتر انداز میں خراجِ تحسین نہیں دیا جا سکتا۔

لیلا کہتی ہیں کہ ’میری اماں کے ساتھ صرف اچھی یادیں ہیں۔ یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ یہ یادیں محدود تھیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ ایک فلم کے ذریعے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘

شاہنواز کہتے ہیں کہ ’جب اماں کی وفات ہوئی تو اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ لوگ ہم میں فرق کرتے ہیں۔

’لیکن ہم تو اب بھی ویسے ہی ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.