بھارت میں کئی سال پہلے اپنی گھریلو ملازمہ کے 3 بچوں کو گود لینے والی مسلمان خاتون کی زندگی پر بنی فلم نے لوگوں کو رلادیا، انسان دوستی اور شفقت کی ایسی داستان جس کی مثال نہیں۔
بی بی سی کے مطابق یہ کہانی 1976 میں شروع ہوئی جب شری دھارن اور ان کی دو بڑی بہنوں رامانی اور لیلا کی والدہ چاکی چوتھے بچے کی پیدائش کے دوران وفات پا گئیں اور اس دوران چوتھا بچہ بھی نہ بچ سکا۔چاکی صوبیدا نامی مسلمان خاتون کے گھر پر کام کرتی تھیںجس کی وجہ سے صوبیدا نے چاکی کے بچوں کو گود لینے کا فیصلہ کیا۔
صوبیدا نے بچوں کو گود لینے کیلئے کاغذی کارروائی نہیں کی کیونکہ ان دنوں میں اس بارے میں قوانین اتنے سخت نہیں تھے۔ان دنوں چاکی کے اپنے رشتہ دار بھی ان بچوں کو گود لینے کے لیے تیار نہ تھے جس کی وجہ سے بچوں کے والد نے صوبیدا کو اجازت دے دی۔
یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ صوبیدا کے پہلے ہی دو بیٹے تھے جعفر خان اور شاہ نواز۔ چاکی کے بچوں کو گود لینے کے بعد انھوں نے اپنی بیٹی جوشینا کو جنم دیا۔ یوں ان بچوں نے اپنا بچپن ایک ساتھ شروع کیا۔2019 میں صوبیدا خاتون کی وفات کے بعد یہ کہانی میڈیا کی زینت بنی،
اس کہانی میں ایک اور دلچسپ بات تو یہ تھی کی صوبیدا نے ان گود لئے بچوں کو ان کے ہندو مذہب کے مطابق ہی ان کی پرورش کی اور کبھی بھی انہیں اسلام قبول کرنے کا نہیں کہا۔
صوبیدا کے گود لئے گئے بچوں میں بیٹی لیلا 51 سال کی ہوچکی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی ماں صوبیدا انہیں مندر لے کر جاتی تھیں اور ہندو تہواروں پر بھی ان کے ساتھ جاتی تھیں۔
لے پالک بیٹے شری دھارن کہتے ہیں کہ ’میری اماں کہتی تھیں کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ تم ہندو مذہب کی پیروکاری کرو، اسلام کی یا عیسائیت کی۔ ہر مذہب ہمیں ایک ہی پیغام دیتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کسی سے پیار کرو اور ان کا احترام کرو۔‘
شاہنواز اور جعفر خان بتاتے ہیں کہ ہم بہن بھائیوں کی آپس میں شاذ و نادر ہی کبھی لڑائی ہوتی تھی حالانکہ ’شری دھارن والدہ کو سب سے زیادہ پسند تھے اور انھیں زیادہ لاڈ پیار سے رکھتی تھیں۔‘
جعفر خان بتاتے ہیں کہ ’میرے برعکس شری سارے کام کرتا تھا اور بہت ایماندار تھا۔ شاید اسی لیے اماں کو وہ بہت پسند تھا۔‘