کرائم پٹرول سے دلی کرائم تک، حقیقت پر مبنی کرائم شوز کی لت کیوں لگتی ہے؟

انڈیا میں حقیقی زندگی پر مبنی کرائم شوز میں دلچسپی کوئی نیا رجحان نہیں مگر بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ اکثر خواتین اس لیے دلی کرائم اور بُچر آف دلی جیسے نیٹ فلکس شوز کی لت میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ اپنے تحفظ کے بارے میں فکرمند رہتی ہیں۔

22 برس کی راکھی کہتی ہیں کہ وہ رات کو سنسان گلیوں سے گزرتے ہوئے گھبرا جاتی ہیں اور بار بار پیچھے دیکھتی ہیں کہ کوئی ان کا پیچھا تو نہیں کر رہا۔

انڈیا کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں رہنے والی راکھی، سائیکولوجی کی طلبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حقیقت پر مبنی کرائم شوز کی مداح ہیں کیونکہ وہ یہ دیکھ کر لطف اندوز ہوتی ہیں کہ ’مجرم کا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔‘

لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں دیکھنے کے بعد وہ اپنے تحفظ کو لے کر فکر مند رہتی ہیں۔

وہ ان ہزاروں انڈینز میں شامل ہیں جو معروف اور کبھی کبھار سنسنی خیز کرائم شوز دیکھتے ہیں یا ایسی پوڈکاسٹ سنتے ہیں۔

یہ شوز انڈیا میں مجرموں اور ان کے بُرے اعمال پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں ملک کی جرائم کی تاریخ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

’دی انڈین پریڈیٹر‘ جیسی دستاویزی فلموں میں سیریل کلرز کے جرائم پر نظر دوڑائی جاتی ہے۔ ’ہاؤس آف سیکرٹس: دی براڑی ڈیتھس‘ نامی شو میں دلی میں ایک ہی خاندان کے 11 افراد کی پُراسرار موت سے جڑے متنازع نظریات بیان کیے گئے۔

جبکہ ایمی ایوارڈ یافتہ ڈرامہ سیریز، دلی کرائم، 2012 کے دوران انڈین دارالحکومت میں ایک خاتون کے ہولناک گینگ ریپ پر مبنی ہے۔

شائقین کا کہنا ہے کہ یہ شوز انڈین مجرموں اور جرائم کے بارے میں معلومات دیتے ہیں جو اس سے پہلے اس انداز میں موجود نہیں تھیں۔

راکھی نے ماضی میں امریکی سیریل کلرز ’جیفری ڈہمر‘ اور ’ٹیڈ بنڈی‘ کے بارے میں پڑھا مگر ان کے مطابق اب وہ ان غیر ملکی سیریل کلرز کی جگہ ’چارلس سوبھراج‘ اور ’جولی جوزف‘ کے بارے میں بات کرتی ہیں۔

حقیقی جرائم پر مبنی یا کرائم شوز انڈیا کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ سنہ 2000 کی دہائی کے جاسوسی میگزین اکثر اپنی کہانیوں کے لیے حقیقی زندگی کے جرائم سے متاثر ہوتے تھے، اسی طرح ٹی وی شوز کرائم پٹرول اور سی آئی ڈی بھی انھی کہانیوں سے متاثر ہو کر بنائے گئے۔

لیکن ان شوز کے بُرے گرافکس اور مکالمے لوگوں کو خوف کی بجائے لوگوں ہنساتے ہیں۔ شائقین کا کہنا ہے کہ آج کی ویب سیریز زیادہ دلکش اور معلوماتی ہیں۔ وہ مجرم کے پس منظر، ذہنیت کو تلاش کرتی ہیں اور کیس پر متعدد نقطۂ نظر پیش کرتی ہیں۔

تھراپسٹ سیما ہنگورانی کہتی ہیں کہ کرائم شوز کی لت اس لیے لگتی ہے کیونکہ ان سے ناظرین کے دماغ میں ایسے کیمیکل خارج ہوتے ہیں جن سے انھیں اچھا محسوس ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ شوز ’آپ کو اصل زندگی میں خود کو نقصان پہنچائے بغیر انتہائی سنسنی خیز حالات کے تجربے کا موقع دیتے ہیں۔‘

یہ شو اکثر توجہ حاصل کرنے کے لیے جذبات سے بھرپور تصاویر یا منظر کشی استعمال کرتے ہیں۔ دستاویزی فلم ’بُچر آف دلی‘ کے ایک منظر میں قاتل کو لاش کے ٹکڑے کرتے بار بار دکھایا گیا جبکہ پورا سین فریم میں نظر نہیں آتا۔ اس میں کٹی ہوئی لاشوں، بندھے ہوئے متاثرین اور خون کے نشان کی دھندلی تصاویر دکھائی گئیں۔

یہ شو چندرکانت جھا کی کہانی بیان کرتا ہے، ایک دوسری ریاست سے آیا مزدور جس نے 1990 اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں کئی غریب مزدوروں کا قتل کیا اور ان کی لاشوں کے ٹکڑے کیے۔ وہ پولیس پر طنزیہ پیغامات کے ساتھ ان لاشوں کو ایک جیل کے سامنے پھینک جاتا تھا۔

ہدایتکار عائشہ سود کا کہنا ہے کہ تشدد کو اس طرح کے گھناؤنے انداز میں پیش کرنا ایک شعوری فیصلہ تھا، لیکن انتباہ یہ تھا کہ تشدد اصل میں دکھانے کے بجائے اس کا تاثر دیا جائے گا۔

سود کہتی ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ جرائم وحشیانہ تھے اور میڈیا، پولیس اور عوام نے برسوں تک اس کیس کو نظر انداز کیا۔

’ہم کبھی کبھار صرف اس کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہمارے جیسے ہیں اور نیوز سائیکل اس کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ظلم ہر طبقے میں ہوتا ہے، لیکن جہاں بھی یہ ہوتا ہے ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

سود کہتی ہیں کہ انڈین کرائم شوز اپنے مضامین کی وجہ سے ملک میں جرائم اور اس کی ابتدا کے بارے میں آگاہی پیدا کرتے ہیں کہ کیسے مجرمانہ رویے سے نمٹا جاسکتا ہے۔ ’ان کا مقصد سب کے لیے محفوظ جگہیں فراہم کرنا ہے۔‘

سکون تیاگی ’دیسی کرائم پوڈکاسٹ‘ کے فین ہیں۔ یہ پوڈکاسٹ انڈیا اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہونے والے جرائم پر روشنی ڈالتی ہے۔

تیاگی کا کہنا ہے کہ اس پوڈ کاسٹ نے انھیں اپنے تحفظ کے بارے میں محتاط کیا اور وہ اس بات پر توجہ دیتی ہیں کہ بعض متاثرین کیسے خطرناک صورتحال سے بچ نکلے۔

تیاگی کے مطابق یہ پوڈ کاسٹ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جسے وہ ہمیشہ سے جانتی ہیں۔ وہ دلی میں رہتی ہیں جو کہ جرائم کی بلند شرح کے لیے جانا جاتا ہے۔ انڈیا کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں دلی میں ہر روز دو نو عمر لڑکیوں کا ریپ ہوا۔

وہ کہتی ہیں ’جن جرائم کے بارے میں بات کی جاتی ہے وہ ایسی جگہوں پر کیے گئے جنھیں آپ جانتے ہیں یا اکثر وہاں جاتے ہیں۔ اس لیے آپ خوف سے خود کو دور نہیں کر سکتے۔‘

تحقیق کے مطابق خواتین کا حقیقی جرائم پر مبنی مواد دیکھنے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ وہ متاثرین کے درد کو محسوس کرسکتی ہیں جو کہ اکثر ہی خواتین ہوتی ہیں۔ اور کیونکہ اس سے انھیں یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ جرم کیوں اور کیسے ہوا اور اگر وہ خود اسی صورتحال کا سامنا کریں تو خود کو کیسے بچا سکیں گی۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے شوز اور پوڈ کاسٹ میں بعض اوقات حقائق کی غلط بیانی اور تحقیق کی کمی ہوتی ہے۔

ممبئی میں مقیم کرائم رپورٹر سری ناتھ راؤ کہتے ہیں ’یہ شوز اخلاقی مسائل سے بھی بھرے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا کہ یہ شوز متاثرین یا مجرم کے خاندان پر کیسے اثر انداز ہوسکتے ہیں۔‘

2021 میں براڑی ڈیتھس پر دستاویزی فلم کے بعد، اس افسوسناک واقعے کے بارے میں کئی میمز آن لائن منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔ دستاویزی فلم کا اہم پیغام ذہنی صحت سے متعلق صورتحال کو اجاگر کرنا تھا لیکن اس کے برعکس یہ کافی حد تک مذاق تک محدود ہوگیا۔

بچر آف دلی
Getty Images
’بُچر آف دلی‘ اس کردار پر مبنی ہے جسے 2012 میں عدالت سے نکلتے دیکھا جاسکتا ہے

اسی سال، سیریل کلر جیفری ڈہمر پر نیٹ فلکس سیریز نے اس وقت تنازع کو جنم دیا جب متاثرہ خاندان کے ایک فرد نے دعویٰ کیا کہ انھیں یہ شو ’دردناک‘ لگا۔

سیریل کلر اور ریپسٹ ٹیڈ بنڈی پر 2019 میں ایک فلم بنی جس میں اداکار زیک ایفرون نے ان کا کردار ادا کیا۔ ان پر ’بنڈی کی شخصیت کو گلیمرائز‘ کرنے اور اسے ’راک سٹار کی طرح پیش کرنے‘ کا الزام لگایا گیا اور ناقدین نے اس فلم پر کڑی تنقید کی۔

تھراپسٹ سیما ہنگورانی کہتی ہیں کہ حقیقی جرائم کے شو بھی کسی شخص کی بے چینی یا بے حسی کا باعث بن سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’مجرموں کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ اکثر تنازعات کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور تشدد اور مجرمانہ سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان شوز کو دیکھنے والا شخص نادانستہ طور پر اس طرح کے رویوں کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔‘

تاہم سود یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ شوز اگر اچھے طریقے سے بنائیں جائیں تو ’ہم اپنے اردگرد کے حالات اور اپنے خود کے جذبات پر نظر ڈال سکتے ہیں۔

’خوف ایک طاقتور احساس ہے، یہ آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.