پاکستان میں اس وقت 25فیصد آبادی کو انٹرنیٹ کی سہولیت میسر ہے اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی تھری، فور اور فائیو جی سہولیات عوام کو ملنا شروع ہوچکی ہیں لیکن ماضی میں ایسا ممکن نہیں تھا، بچے دن بھرماؤں کے ناک میں دم کرتے اور مائیں بھی بچوں کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف رہتی تھیں۔
جیسے فون یا کمپیوٹر میں سافٹ اپ ڈیٹ ہوتا ہے ویسے ہی ماضی میں بچوں کا سافٹ ویئر بھی اپ ڈیٹ کرنا پڑتا تھا لیکن دوستو یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اپ ڈیٹ کے نشان اکثر لوگوں کے چہروں اور جسموں پر نظر آتے تھے۔
فون اور کمپیوٹرز کے فنکشنز اور پروگرامز کے حوالے سے کچھ روز بعد اپ ڈیٹس آتی ہیں جس سے سسٹم زیادہ اچھا چلتا ہے لیکن اس کیلئے تھری یا فورجی انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے تاہم ماضی کے بچوں کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنے کیلئے کوئی خاص وقت مقرر ہوتا تھا نہ انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی تھی۔
جیسے فون یا کمپیوٹر کے سسٹم کی اپ ڈیٹ کیلئے باقاعدہ پروگرامرز اپ ڈیٹ بھیجتے ہیں اور آپ اپنے سسٹم کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں ویسے ماضی میں مائیں اپنے بچوں کو کبھی ڈیٹ کیا کرتی تھیں۔
ماؤں کے پسندیدہ اپ ڈیٹ ٹولز میں چپل سب سے زیادہ فیورٹ جبکہ جھاڑو کا استعمال بھی بہت عام تھا اور جیسے کمپیوٹر کا کچرا صاف کیا جاتا ہے اس طرح بچوں میں زیادہ خرابی کی صورت میں مرغا بنانے کے علاوہ وائپر سے جسم کی صفائی کا کام بھی کیا جاتا تھا۔