15 لاکھ سے زیادہ تنخواہ، بھاری مراعات اور انصاف پھر بھی نہیں ملتا، بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدگی کے بعد عدالتی نظام میں پاکستان سے آگے کیسے نکل گیا۔
پاکستان میں آئین اور قانون ایک تو ججوں کے فیصلے اور رائے مختلف کیوں، پاکستان کے ججوں کی تنخواہیں اور پینڈنگ کیسز کی تعداد ، پاکستان میں غریب عدالتوں سے انصاف لینے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتا، آج کی اس رپورٹ میں ہم آپ کو بتائینگے۔
پاکستان میں ان دنوں ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان موضوع بحث ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ آئین کے تحفظ اور کچھ غیر آئینی اقدامات کے دعوے کررہے ہیں جبکہ ججوں کی تنخواہیں اور مراعات بھی ایک بار پھر زیر بحث ہیں۔ آیئے آپ کو بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ججوں کی تنخواہیں کتنی ہیں اور کون کون سی مراعات ملتی ہیں۔
پاکستان سے باہر دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ہوں اگر وہاں کسی کے ساتھ کوئی جھگڑا یا تنازعہ ہو تو وہ لوگ کہتے ہیں میں تمہیں کورٹ میں دیکھوں گا لیکن پاکستان میں کوئی بھی مسئلہ ہو عوام کو اپنے عدالتی نظام پر اتنا اعتماد ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں تمہیں اللہ کی بارگاہ میں پوچھوں گا۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان صرف آج ہی نہیں بلکہ اپنے قیام کے بعد سے ہی مالی مسائل سے دوچار ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم، صحت اور دیگر چیزوں کیلئے پیسے نہ ہوں لیکن آپ یہ جان کر حیران رہ جائینگے کہ مفلس، غریب اور بھکاری ملک میں ججوں کی تنخواہ اور مراعات اتنی ہیں کہ جس کا آپ شائد تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے ہم آپ کو آگے چل کر بتائینگے۔
پاکستان میں قانون اور انصاف صرف امیروں کیلئے ہے، غریب آدمی پاکستان میں انصاف کا تصور بھی نہیں کرسکتا، یہاں انصاف کے حصول میں انسان کی زندگی ختم ہوجاتی ہے لیکن کیس ختم نہیں ہوتا۔
یہاں امیر کھربوں روپے لوٹ کر عدالتوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نکلتے ہیں لیکن غریب کو صرف ایک روٹی چرانے پر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
جن عوام کے پیسوں سے ججوں کو لاکھوں کی تنخواہ اور بھاری مراعات ملتی ہیں وہ غریب عدالتوں کے چکر لگانے سے زیادہ اپنی قسمت کو روکر خاموش ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
آج کل سپریم کورٹ میں الیکشن کے حوالے سے ایک کیس کا چرچا ہے۔ اب یہاں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ ججوں نے فیصلے سے اتفاق کیا اور کچھ نے نہیں۔
یہاں ہماری ناقص عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب قانون اور آئین ایک ہے تو پھر ججوں کی رائے الگ الگ کیسے ہوسکتی ہے، پاکستان میں ایک نہیں بلکہ سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ بینچ میں موجود اتنے ججوں نے حق میں اور اتنے ججوں نے مخالفت میں فیصلہ کیا۔
انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے یہاں ججوں کی ذاتی پسند نہ پسند اور رائے کا کیا مطلب ہے، لیکن یہ بات عقل تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ کیا ججوں کی ذاتی رائے آئین اور قانون سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے یا ہر جج نے الگ قانون پڑھا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب شائد مشکل ہی مل سکے۔
آیئے آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کا بتاتے ہیں۔ پاکستان میں غریب کیلئے اس وقت دو تو کیا ایک وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوچکا ہے لیکن غریب کا بچہ چاہے روٹی کھائے یا بھوکا مرجائے، اسی غریب کے ٹیکس سے ججوں کی تنخواہ اور مراعات نہیں رکتیں۔
جیو نیوز کی تحقیق کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس وقت دیگر مراعات اور سہولیات سمیت 17 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس ماہانہ 10 لاکھ 24 ہزار 324 روپے گھر لے کرجاتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے ہر جج کو9 لاکھ 67 ہزار 638روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔
ایک ملین سے زیادہ یعنی 10 لاکھ سے بھی زیادہ تنخواہ لینے والے چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججز کو بھی4 لاکھ 28 ہزار 40 روپے ماہانہ سپیریئر جوڈیشل الاؤنس ملتا ہے۔
دیگر ماہانہ مراعات میں ایک جج کے لیے 600 لیٹر پیٹرول اور 1,800سی سی دو گاڑیاں بمعہ ڈرائیورز شامل ہیں، چیف جسٹس کو 2400 سی سی گاڑی الاٹ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 68000 ہاؤس رینٹ الاؤنس اور شہر سے باہر جانے پر 8000 روپے یومیہ سفری الاؤنس بھی شامل ہے۔
یہ غریب، بھکاری اور قلاش ملک کے قاضیوں کی تنخواہ اور مراعات ہیں لیکن اب اگر ہم اپنی معزز عدلیہ کا حال دیکھیں تو پاکستان کی صرف سپریم کورٹ میں ہی 50 ہزار سے زیادہ کیسز زیر التوا ہیں۔
ہائیکورٹ اور مقامی عدالتوں میں تو حال اس سے بھی بدتر ہے جہاں لاکھوں کیسز فائلوں کی صورت میں قوم کا منہ چڑاتے ہیں۔ یہاں مزے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان معزز جج صاحبان کو سالانہ چھٹیاں بھی ملتی ہے، یہ ایک الگ دلچسپ کہانی ہے جس کا احوال آپ کو پھر کبھی بتائیں گے۔
ہم اکثر بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہیں کیونکہ بنگلہ دیش نے پاکستان کی کوکھ سے جنم لیااور ایک بات کہ ہمارا کسی مہذب ملک سے کوئی مقابلہ کیسے ممکن ہے جب بھوک، بدحالی اور مفلسی کا شکار بنگلہ دیش بھی پاکستان سے ہر لحاظ سے آگے ہیں۔
بنگلہ دیش کی معیشت ہم سے بہت آگے نکل چلی ہے اور نظام انصاف میں بھی بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے ہے، یہاں تک کہ وہ ٹکا جسے پاکستانی کبھی حقارت کے طور پر دیکھتے تھے آج پاکستانی روپے کو ٹکے کا نہیں سمجھتا۔۔
اب اگر آپ شرمندہ نہ ہوں تو آپ کو بتاتے چلیں کہ دنیا کی 140 اقوام کی عدالتوں میں پاکستان کا آخر سے 11 واں نمبر ہے مطلب ہم 129 نمبر پر موجود ہیں جبکہ بنگلہ دیش 124 نمبر پر موجود ہے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایشیا کے 6 بڑے ممالک میں ہمارا دوسرا نمبر ہے لیکن آخر سے یعنی ہم ایشیا کی 6 اقوام میں بھی پانچویں نمبر پر موجود ہیں۔
بنگلہ دیش نے اپنے کرپٹ ججوں کو سخت سزائیں اور پھانسی تک دی تب جا کر وہاں انصاف کا نظام کچھ بہتر ہوا ہے، اگر ہمیں اپنے ملک کو تنازعات، مسائل اور مشکلات سے نکالنا ہے تو سب سے پہلے انصاف کا نظام قائم کرنا ہوگا۔ ججوں کی ذاتی رائے اورپسند نہ پسند نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق برابر فیصلے کرنے ہونگےکیونکہ جب تک انصاف قائم نہیں ہوگا پاکستان اسی طرح مشکلات سے دوچار رہے گا۔