پاکستان میں ان دنوں سیاسی گرما گرمی کے دوران رہنماؤں کی ذاتی زندگیوں کو بھی موضوع بحث بنایا جارہا ہے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ دوران عدت میں نکاح کا معاملہ عدالت پہنچ چکا ہے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کا دوبار نکاح پڑھانے والے مفتی محمد سعید خان نے عدالت میں دیئے گئے بیان حلفی میں دعویٰ کیا ہے کہ یکم جنوری 2018 کو شرعی تقاضے پورے ہونے کی یقین دہانی پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کا نکاح پڑھا دیا۔
مفتی محمد سعید خان نے کہا کہ عمران خان نے مجھ سے فروری 2018 کو دوبارہ رابطہ کیا، عمران خان نے درخواست کی کہ بشریٰ بی بی سے دوبارہ نکاح پڑھانا ہے۔
مفتی محمد سعید خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ پہلے نکاح کے وقت بشریٰ بی بی کا عدت کا دورانیہ مکمل نہیں ہوا تھا، عمران خان نے کہا کہ نومبر 2017 میں بشریٰ بی بی کو طلاق ہوئی۔
عمران خان نے مجھے بتایا کہ بشریٰ بی بی سے نکاح کرنے پر پیشگوئی تھی کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے، عمران خان نے بتایاکہ پہلا نکاح غیرشرعی تھا، عمران خان اور بشریٰ بی بی نے سب جانتے ہوئے بھی نکاح اور شادی کی تقریب منعقد کی۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نکاح کا معاملہ گوکہ عدالت میں ہے لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر ان کے نکاح کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کے حوالے سے بحث جاری ہے اور معاملہ عدالت میں تو آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے 2004 میں ایک فیصلے وائے ایل آر کے صفحہ نمبر 619 پر قرار دیا تھاکہ دوران عدت کی جانے والی شادی بے قاعدہ ہوگی لیکن کالعدم نہیں ہوگی۔
یعنی اگر عورت عدت کے دوران دوسری شادی کرتی ہے تو وہ شادی کالعدم نہیں ہوسکتی بلکہ صرف بے قاعدہ ہوگی جو عدت پوری ہونے پر خود بخود ریگولر ہوجائیگی۔