ماضی میں جیسے جیسے عید قریب آتی شاپنگ کے ساتھ ساتھ عید کارڈز کیلئے بھی دکانوں پر رش بڑھ جاتا تھا، ہر رشتے کی مناسبت سے کارڈز ملتے تھے، ڈاک خانوں پر ٹکٹ کم پڑجاتے، ڈاکیے سب کام چھوڑ کر عید کارڈز کی ترسیل میں مصروف ہوجاتے لیکن وقت نے اس خوبصورت روایت کو ختم کردیا۔
ماضی میں رمضان کی آمد کے موقع پر بازاروں میں عید کارڈز کی خرید و فروخت شروع ہوجاتی تھی، عید کارڈز رشتوں کے مطابق ہوتے تھے، یہ رواج گذشتہ صدی کے اختتام تک اپنے عروج پر رہا لیکن پھر موبائل اور انٹرنیٹ کی آمد کے ساتھ یہ روایت دم توڑ گئی لیکن عید کارڈز لکھنے والے واٹس اپ اور موبائل میسجز کے دور میں بھی عید کارڈز کو یاد کرتے ہیں۔
عید سے قبل ہر کوئی عید کارڈ کا بے تابی سے انتظارکرتا تھا، کارڈ موصول ہوتے ہی اس کو کھولنے کی بے چینی ہوتی تھی، لوگ کئی کئی سال پرانے عید کارڈز کو سنبھال کر رکھتے تھے جبکہ اکثر عید کارڈز کو گھروں میں سجاوٹ کیلئے بھی لگایا جاتا تھا۔
کارڈز پر رشتوں کی اہمیت بیان کرتے مختصر پیغامات ہوتے تھے تو کسی پر شاعری۔ یہ آپ کی پسند پر ہوتا تھا کہ پیغام والا کارڈ لیں یا پھر اشعار والا۔ کسی پر پھول ہوتے تھے تو کسی پر خوبصورت چہرے۔ خریداروں میں ہرعمر کے لوگ ہوتے تھے۔ عید کارڈز ایک بڑی صنعت تھی جسے ٹیکنالوجی نے نگل لیا۔