ایک عرصے تک آدھی دنیا پر حکومت کرنے والا برطانوی شاہی خاندان، آج بھی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے اور لوگ ان کے بارے میں آنے والی خبروں میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ملکہ الزبتھ کے بیٹے چارلس سوئم کو برطانوی بادشاہت کا تاج پہنایا گیا ہے، جس کی کوریج پوری دنیا میں دیکھی گئی۔
عام طور پر جب بھی برطانوی بادشاہت کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے مخصوص لباس پہنے محافظوں کا خیال بھی ذہن میں آتا ہے۔ یہ اپنے لباس اور ٹوپی کی وجہ سے کافی منفرد دکھتے ہیں، ساتھ ہی یہ 1800 کی دہائی سے برطانوی دشمنوں سے لڑ رہے ہیں۔ مگر آخر یہ محافظ سرخ قمیض اور لمبی سیاہ ٹوپی کیوں پہنتے ہیں؟ اور یہ کس سے بنتی ہے؟
سیاہ ٹوپی کے پیچھے کی حقیقت:
ان سپاہیوں کی ٹوپیوں کو بیئر اسکنز کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ریچھ کی کھال سے بنی ہوتی ہیں۔ شاہی محافظوں کی ریچھ کی کھال کی مشہور ٹوپیاں نپولین کی جنگوں کی ہیں، نپولین کے امپیریل گارڈ میں موجود ہر شخص ٹوپیاں پہنتا تھا تاکہ ان کی حیثیت کو اشرافیہ کے فوجیوں کے طور پر ظاہر کیا جا سکے۔ لیکن جب برطانوی افواج نے "واٹر لو" کی جنگ میں نپولین کو شکست دی تو انہوں نے ٹوپیاں بطور ٹرافی اپنے قبضے میں لے لیں۔
ماہرین کے مطابق لمبے چوڑے سپاہی زیادہ دہشت ناک نظر آتے ہیں اور اسی سوچ کو ذہن میں رکھ کر لڑائی کے لیے سپاہیوں کے ایسا لباس تیار کیا گیا۔
ریچھ کی کھال کہاں سے منگوائی جاتی ہے؟
یہ ٹوپیاں کینیڈین کالے ریچھوں کی کھال سے بنتی ہیں۔ ہر ایک پیلٹ کی قیمت 650 پاؤنڈز ہے اور یہ تقریباً 80 سال تک چلتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے کینیڈا کے سیاہ ریچھوں کی کھال کو استعمال کیا جاتا ہے جن کی مخصوص تعداد کو ہر سال مارا جاتا ہے تاکہ ریچھوں کی آبادی کنٹرول میں رہ سکے۔ یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 18 انچ لمبی اس ٹوپی کے لیے خاص طور پر کسی ریچھ کو مارا نہیں جاتا۔
ایسی ٹوپیاں پہننے والے سپاہی رسمی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں جیسے بکنگھم پیلس میں محافظوں کی تبدیلی یا بادشاہ یا ملکہ کی سالگرہ پر ہونے والی سالانہ پریڈ میں فرائض ادا کرنا۔ درحقیقت یہ سب فوجی ہوتے ہیں جن کی خدمات کچھ عرصے کے لیے شاہی محل کے حوالے کی جاتی ہیں۔
موسم ِ گرما اور سرما کیلیئے الگ لباس:
یہ سپاہی گرمیوں میں سرخ جبکہ سردیوں میں گرے کوٹ پہنتے ہیں اور ماہرین کے مطابق سرخ رنگ کو اس لیے اپنایا گیا تاکہ پیسوں کی بچت ہوسکے۔ کیونکہ سرخ رنگ سب سے سستا اور آسانی سے تیار ہونےوالا رنگ ہے جبکہ میدان جنگ میں اس سے دشمنوں اور دوستوں کی شناخت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔