ایک مطالعے میں 170 افراد کے بارے میں تحقیق کے بعد پایا گیا کہ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے افراد گرم موسم میں اور چھوٹے قد کے چوڑے سینوں والے لوگ سر موسم میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔

اگر آپ ایک میراتھون دوڑنے والے ہیں اور عمدہ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں تو آپ کی تربیت کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی ساخت بھی اتنی ہی اہم ہے۔
ایک مطالعے میں 170 افراد کے بارے میں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لمبی اور پتلی ٹانگوں والے افراد گرم موسم میں اور چھوٹے قد کے چوڑے سینوں والے لوگ سرد موسم میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں۔
لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ فرق صرف مردوں میں دیکھا گیا ہے۔
امریکہ کے ڈارٹ ماؤتھ کالج میں حیاتیاتی علوم کے پروفیسر اور تحقیق کے مصنف پروفیسر ریان کیلس بیک کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق ان اولین تحقیقوں میں سے ایک ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسان کی جسمانی خصوصیات یعنی فزیاوجی کو آب و ہوا کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے تا کہ جسمانی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’عالمیدرجہ حرارت اور آب و ہوا نے انسانی جسم کو اس طرح سے دکھائی دینے اور کام کرنےکے لیے ڈھالا ہے جس طرح وہ آجہیں۔ لہذا آئرن مین ٹرائیتھلونز، میراتھن اور دیگر سخت مقابلوں میں کچھ مرد اپنے جسم کی ساخت اور درجہ حرارت کی بنیاد پر دوڑ کے لیے مقابلے کے دوسرے شرکا سے زیادہ موزوں ہو سکتے ہیں۔‘

انسان جانوروں کی طرح ہو سکتے ہیں جن میں سردی سے ڈھلنے والی انواع شامل ہیں جن کے اعضا گرمی کے نقصان کو محدود کرنے کے لیے تنو مند، چھوٹے یا موٹے ہو جاتے ہیں۔ اور گرم آب و ہوا میں ٹھنڈا رہنے کے لیے انسانوں اور جانورں کے پتلے بنائے جاتے ہیں۔
پی ایل او ایس ون نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کم از کم دو آئرن مین مقابلوں میں حصہ لینے والے 171 ٹرائی ایتھلیٹس کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے ایک گرم مقام پر اور دوسرا سرد مقام پر تھا اور مقابلوں کی تصاویر کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے جسم کی پیمائش کے لیے سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا۔

آئرن مین کے شرکا کو یہ مقابلے سر کرنا تھے۔:
- تیراکی: 3.8 کلومیٹر
- سائیکلنگ: 180 کلومیٹر
- دوڑ:42.2 کلومیٹر
ٹرائی ایتھلیٹس کو اس مطالعے کے لیے اس لیے چنا گیا کیونکہ ان کے ایونٹ انسانی جسم کی ساخت اور کارکردگی پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بہترین تھے۔
’پروفیسر ریان کیلس بیک کا کہنا ہے کہ ’ایک ایونٹ، خاص طور پر دوڑ ہمیں انسانی ارتقا کے بارے میں بتاتا ہے اور باقی یعنی دو تیراکی اور سائیکلنگ اتنے اہم نہیں۔ اس نے تقابل زیادہ آسان کر دیا۔ ‘
انھوں نے دوڑ کے مرحلے میں جسمانی ساخت کی بنیاد پر کارکردگی میں بہت بڑا فرق پایا۔
ایتھلیٹس پر زور دیا جاتا ہے کہ تربیتکے ساتھ ساتھوہ اس بارے میں سوچیں کہ ان کے جسم کی ساخت اور قسم کس آب و ہوا کے لیے قدرتی طور پر موزوں ہوسکتی ہے۔
پروفیسر کیلس بیک کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ بہترین کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں انھیں ریس کے مقامات اور اوسط درجہ حرارت کے بارے میں سوچنا چاہیے اور وہ اس بات کی بنیاد پر جگہ کا انتخاب کر سکتے ہیں کہ ان کے جسم کی قسم کو کس طرح پرفارم کرنے کے لیے ڈھالا گیا ہے۔‘