21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ پرامن طریقے سے اپنی زبان کا حق مانگ رہے تھے مگر ریاست نے پرامن احتجاج کرنے والے اپنے ہی شہریوں پر گولیاں چلائیں ۔یہ وہ زبان تھی، جس میں ریاست نے اپنے شہریوں سے بات کی اور پھر شہریوں نے بھی یہی زبان سیکھ لی جس کا مظاہرہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہم نے مختلف شہروں میں دیکھا۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں ہمیشہ مظاہروں میں جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری املاک تک کو نقصان پہنچانے کے واقعات پیش آتے ہیں۔تو آیئے دوستو، آپ کو ملک میں پرتشدد مظاہروں کے حوالے سے کچھ اہم حقائق بتاتے ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد گزشتہ ہفتے پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ہولناک مناظر دیکھنے میں آئے۔تاہم پہلی بار لوگوں نے عسکری املاک کو بھی نشانہ بنایا اور کئی سرکاری عمارتوں اور تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا۔
اس حوالے سے محقیقن کا کہنا ہے کہ ویلفیئر اسٹیٹ میں ریاست شہریوں کو بہتر معیار زندگی دیتی ہے جس کے جواب میں لوگ ریاست اور اس کے اداروں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے ہماری آسان اور خوشگوار زندگی کی ضمانت ہیں جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔
پاکستان ویلفیئر اسٹیٹ نہیں بن سکاجس کی وجہ سے لوگ سرکاری اداروں کو اپنی مشکلات کا سبب سمجھتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ تشدد کی ابتداء خود ریاست نے کی جس کا خمیازہ آج بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ تشدد کا راستہ خود ریاست نے عوام کو دکھایا جب اپنی زبان کا حق مانگنے والے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ پر گولیاں چلائی گئیں تو اس کے بعد ملک میں آگ اور خون کا نہ ختم ہونے والا کھیل شروع ہوا۔
اور ریاست اور عوام کے درمیان خلیج وسیع ہوتی گئی،یہاں تک کہ عوام ریاست اور ریاستی املاک کو اپنا نہیں سمجھتے، اس لئے جب موقع ملے، سرکاری املاک کو آگ لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔
یہ رائے یہ بھی ہے کہ مختلف شہروں کے لوگوں کی نفسیات مختلف ہوتے ہیں، چھوٹے شہروں کے لوگوں میں ریاست کا خوف ہوتا ہے جبکہ بڑے شہروں کے لوگ خود کو قانون سے برتر سمجھتے ہیں۔
مظاہروں میں سرکاری املاک جلانے کے حوالے سے یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ہر شخص یہ مانتا ہے کہ ہجوم میں اگر کوئی واقعہ ہو تو فرد واحد اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہوگا جس کی وجہ سے لوگ مظاہروں کے دوران دیدہ دلیری سے جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں۔
یہاں ریاست کی ذمہ داری اور کردار نہایت اہم ہے، جب تک ریاست اپنے لوگوں کی ذمہ داری نہیں لے گی، لوگوں میں بھی ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہوگا۔
جب تک ریاست اپنے لوگوں کی بقاء کی ضامن نہیں بنے گی تب تک لوگ بھی ریاست سے بیگانہ رہیں گے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست واقعی ماں کا کی طرح اپنے عوام کے دکھ درد کا احساس کرے اور ان کے مسائل کو حل کرے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور وہ ریاست کو نقصان پہنچانے کے بجائے ریاست کے دست وبازو بن کر تعمیر ترقی میں ساتھ کھڑے ہوں۔