والدین کے بغیر پشاور میں زیرِعلاج افغان بچے، سرحد کیسے پار کرتے ہیں؟

image
چار ماہ کے ایان خان کا تعلق افغانستان کے دارالحکومت کابل سے ہے۔ شیرخوار ایان پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیرِعلاج ہے مگر بچے کے والدین اور نہ ہی کوئی رشتہ دار تیماداری کے لیے اس کے پاس موجود ہے۔

معصوم ایان خان ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا ہے جس کے علاج کی سہولت افغانستان کے ہسپتالوں میں نہیں تھی۔

ڈاکٹروں کے مشورے پر بچے کو پشاور منتقل کیا گیا۔ تاہم ایان خان کے والدین کے پاس سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے اُن کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ مل سکی۔

ایان خان کی تیماداری کا بیڑا اٹھانے والے ضلع خیبر کے سماجی ورکر اسلام بادشاہ آفریدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بچے کو اُس کے والدین نے ایک افغان باشندے کے ہمراہ پشاور بھیجا۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ایان خان کو ایچ ایم سی پیڈز وارڈ میں داخل کیا گیا جہاں اس کی حالت ابھی بہتر ہے تاہم ماں کے بغیر بچے کی دیکھ بھال ایک مشکل کام ہے۔

پشاور کے ہسپتالوں میں زیرِعلاج افغان بچے سماجی ورکر اسلام بادشاہ نے بتایا پشاور میں اس وقت تین ایسے افغان بچے زیرِعلاج ہیں جن کے والدین اُن کے ہمراہ نہیں۔

’ایک بچے کو خون کی بیماری ہے جس کا علاج ہو رہا ہے۔ ایک نومولود بچہ اپنی چھ سالہ بہن کے ساتھ پشاور کے سرکاری ہسپتال میں زیرِعلاج ہے۔ والدین کو ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے چھوٹی بہن کو بچے کے ساتھ بھجوایا گیا۔‘ 

سماجی ورکر کہتے ہیں کہ بیمار بچوں کو والدین بالخصوص ماں کے بغیر سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ ’شیرخوار بچے ہوتے ہیں ان کو خوراک کے لیے ماں کے دودھ کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

اسلام بادشاہ نے مزید کہا کہ مخیر حضرات کے مالی تعاون کی بدولت ان بچوں کے علاج معالجے میں کوئی کمی نہیں ہونے دیتے تاہم والدین کی عدم موجودگی سے بچوں کی پریشانی زیادہ ہوتی ہے۔

اسلام باد شاہ کے مطابق اس سے قبل مدثر خان نامی ایک بچے کو والدین کے بغیر ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ بچے کی والدہ کو کچھ دنوں بعد ویزہ مل گیا تھا، اب وہ بچہ صحت یاب ہو کر اپنی والدہ کے پاس ہے۔ ’اسی طرح ایک افغان بچہ آفریدی میڈیکل کمپلیکس میں زیرِعلاج تھا اور حکومت نے والدین کو ایمرجنسی بنیاد پر ویزے لگا کر بچے کے پاس رہنے کا موقع دیا۔

سماجی ورکر کہتے ہیں کہ بیمار بچوں کو والدین بالخصوص ماں کے بغیر سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ فوٹو: اسلام بادشاہ

ان کا کہنا تھا کہ بارڈر انتظامیہ اس معاملے میں کافی تعاون کر رہی ہے۔ 

معصوم بچہ والدین کی عدم موجودگی میں دم توڑ گیا پشاور میں زیرِعلاج ایک افغان بچہ والدین کے انتظار میں دم توڑ گیا تھا۔ نصیر ٹیچنگ ہسپتال میں زیرِعلاج بچے کو جھٹکے لگ رہے تھے جس کے علاج کی بھرپور کوشش کی گئی۔

اسلام بادشاہ کا کہنا تھا کہ بچے کے والدین نے ویزہ لگانے کی بہت کوشش کی تھی مگر اس میں تاخیر ہوئی اور وہ معصوم دنیا سے چلا گیا۔

سماجی ورکر نے بتایا کہ بچے کے جسد خاکی کو ایمبولینس کے ذریعے کابل بھجوایا گیا۔

ہسپتال انتظامیہ کا موقف پاک افغان طورخم بارڈر کے راستے لائے گئے زیادہ تر بیمار افغان بچوں کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لایا جاتا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق بچوں کا علاج بلاتفریق کیا جاتا ہے تاہم ایسے بچوں کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے جن کے والدین ان کے پاس موجود نہیں ہوتے۔ 

انتظامیہ کے مطابق افغان بچے مدثر خان کو صحت یابی کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا ہے جبکہ اس وقت ایان خان زیرِعلاج ہے جس کے تمام ٹیسسٹ مکمل کر لیے گئے ہیں۔ 

کیا والدین کے بغیر بچوں کو بارڈر پار کرنے کی اجازت ملتی ہے؟ پشاور کو افغانستان سے ملانے والی سڑک پر طورخم بارڈر کراسنگ ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں روزانہ ہزاروں افغان باشندے اسی راستے سے داخل ہوتے ہیں۔

زیادہ تر بیمار افغان بچوں کو پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس لایا جاتا ہے۔ فائل فوٹو

بارڈر انتظامیہ کے مطابق ان افغان باشندوں میں دو ہزار سے تین ہزار افراد علاج معالجے کی غرض سے پشاور آتے ہیں۔ 

بارڈر حکام کے مطابق طورخم بارڈر انتظامیہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسے بیمار اور مجبور بچوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ 

باردڑ پر تعینات ایک اہلکار نے بتایا کہ 8 سال سے کم عمر کے بچوں کو طورخم بارڈر کے راستے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے کئی افغان بچوں کی جانیں بچائی گئیں جن کی حالت نازک تھی اور انتظامیہ نے خود گاڑی میں ہسپتال پہنچایا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ والدین کے پاس سفری دستاویزات نہ ہونے پر بچے کو ان کے کسی رشتہ دار یا سوشل ورکرز کے حوالے کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان حکومت نے یکم اپریل 2025 سے پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اب تک طورخم بارڈر کے راستے پانچ لاکھ سے زائد افغان باشندے اپنے ملک جا چکے ہیں۔

 


News Source   News Source Text

پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.