زمین کی تہہ میں موجود پراسرار پہاڑی سلسلے جن کا راز کوئی نہیں جان سکا

زمین کی تہہ میں اتنے وسیع پہاڑی سلسلے موجود ہیں کہ جن کی چوٹیاں دنیا کے بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سے چار گنا زیادہ اونچی ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔
تصویر
Getty Images

یہ انٹارکٹیکا میں موسم گرما کا ایک دن تھا۔ سمانتھا ہینسن کے سامنے برف کی ایک سفید دیوار تھی اور زمین آسمان سے جا مل رہی تھی۔ اُن کی بھنوؤں پر برف جمی ہوئی تھی، اور موسم گرما میں بھی درجہ حرارت منفی 62 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

ایسے حالات میں انھوں نے برف میں ایک موزوں مقام چُن کر اپنا بیلچہ نکالا۔

ہینسن انٹارکٹیکا کے ایک دور دراز مقام پر موجود تھیں جہاں مقامی جنگلی حیات تک کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ الاباما یونیورسٹی اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی اس ٹیم کا حصہ تھیں جو چھپے ہوئے پہاڑی سلسلوں کی تلاش کر رہی تھی۔

اب تک ان پہاڑی سلسلوں تک کوئی مہم جو بھی رسائی حاصل نہیں کر سکا ہے۔ نہ ہی ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے کیوںکہ یہ پہاڑی سلسلے زمین کی تہہ میں موجود ہیں۔

یہ 2015 کا سال تھا اور محققین کی ٹیم ایک سیسمولوجی سٹیشن قائم کرنے یہاں پہنچی تھی۔ ان کا مقصد سیارہ زمین کے اندرونی حصے کا جائزہ لینا تھا۔ مجموعی طور پر انھوں نے ایسے 15 سٹیشن پورے انٹارکٹیکا میں قائم کیے۔

اس ٹیم کی تحقیق میں جن پہاڑ نما سلسلوں کو دریافت کیا گیا وہ انتہائی پراسرار ہیں۔ لیکن حیران کُن طور ہر ہینسن کی ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ ’الٹرا لو ویلاسٹی زون‘ نامی یہ سلسلے ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔

اس بات کا امکان موجود ہے کہ آپ دنیا میں کسی بھی جگہ ہوں، ایسا کوئی نہ کوئی سلسلہ آپ کے قدموں کے نیچے انتہائی گہرائی میں موجود ہو گا۔

ہینسن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ان کے شواہد ہر جگہ سے ملے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیا ہیں اور ہمارے سیارے پر کیا کر رہے ہیں؟‘

ایک پراسرار تاریخ

پہاڑی سلسلے
Getty Images

زمین کی عجیب اندرونی پہاڑیاں ایک اہم موڑ پر ہیں۔ وہ دھاتی کور اور پتھریلے حصے کے درمیان کی کیفیت میں ہیں۔ ہینسن کی ٹیم سمیت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے یہ ایک معمہ ہے تاہم ان کا ماننا ہے کہ یہ سیارے کی ارضی حیثیت (جیالوجی) کے لیے کافی اہم بات ہے۔

واضح رہے کہ زمین کی کور مینٹل باوئنڈری سطح سے ہزاروں کلومیٹر دور پائی جاتی ہے تاہم ان اتھاہ گہرائیوں اور ہماری زمین میں حیران کن تک رابطہ رہتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جگہ سمندری تہہ کی قدیم اشیا کا ایک طرح کا قبرستان ہے اور شاید اس کا تعلق ہوائی جیسے مقامات پر پائے جانے والے غیر متوقع آتش فشاں پہاڑوں سے بھی ہو جس میں زمین کے کرسٹ تک انتہائی گرم ہائی وے بنتی ہو۔

ان پہاڑوں کی کہانی 1996 میں شروع ہوئی تھی جب سائنس دانوں نے بحر الکاہل کے وسط میں زمین کی کور مینٹل کی سرحد کی چھان بین شروع کی۔ انھوں نے زیر زمین ایسے واقعات کی جانچ کی جن سے لہریں پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ زلزلے۔

ایسی لہریں زمین میں سے گزرتی ہیں اور ان کو سائنسی سٹیشن سُن سکتے ہیں۔ ان لہروں کے راستوں کی جانچ سے سائنس دانوں نے زمین کے سیارے کے اندرونی حصے کی ایکس رے جیسی تصویر بنائی۔

25 سے زیادہ زلزلوں سے پیدا ہونے والی لہروں کا جائزہ لینے کے بعد سائنس دانوں کو علم ہوا کہ زیر زمین ایک مقام پر جا کر یہ سست ہو جاتی ہیں۔ اس مقام پر زیر زمین پہاڑی سلسلے ایک جیسے نہیں تھے، کہیں چوٹیاں 40 کلومیٹر تک مینٹل میں پھیلی ہوئی تھیں جو ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی سے ساڑھے چار گنا زیادہ ہے جبکہ کچھ صرف تین کلومیٹر اونچی تھیں۔

اس وقت سے ایسے بہت سے پہاڑ دنیا بھر میں زمین کی کور کے نیچے پائے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت بڑے ہیں۔ ہوائی کے نیچے موجود ایک ایسا ہی سلسلہ 910 کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔

لیکن آج تک کوئی نہیں جانتا کہ یہ پہاڑ کس چیز کے بنے ہوئے ہیں یا یہ کیسے اس مقام پر پہنچے۔

ایک تصور یہ ہے کہ یہ پہاڑ زمین کے اس نچلے مینٹل کے حصے ہیں جو زمین کی اندرونی تہہ کی وجہ سے بہت زیادہ گرم ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ زمین کی مینٹل کا درجہ حرارت 3700 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے لیکن کور کے درجہ حرارت کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں جو 5500 ڈگری تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ درجہ حرارت سورج کی سطح کے درجہ حرارت سے کچھ زیادہ کم نہیں ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ کور اور مینٹل کی سرحد کے سب سے گرم حصے کچھ حد تک پگھل جاتے ہوں گے اور یہی ’الٹرا لو ویلاسٹی زون‘ نظر آتے ہیں۔

اس تصور کا متبادل یہ ہے کہ زمین کی گہرائی میں موجود یہ پہاڑ شاید آس پاس کے مینٹل سے مختلف ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پہاڑ دوسرے پراسرار مقامات کے نزدیک ہی پائے جاتے ہیں جن میں افریقہ کے نیچے ’ٹوزو‘ نامی مقام بھی ہے جبکہ ایک مقام بحر الکاہل کے نیچے ’جیسن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اربوں سال پرانے ہیں۔ لیکن ان کے بارے میں بھی کوئی کچھ نہیں جانتا۔ لیکن ان دونوں کی قربت اس تصور کی بنیاد ہے کہ ان میں کوئی تعلق ضرور ہے۔

اس تعلق کے بارے میں ایک اندازہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب زمین کی ٹیکٹونک پلیٹس زمین کی مینٹل میں پھسلنا شروع ہوئیں اور زمین کی کور اور مینٹل کی سرحد پر ڈوب گئیں۔ پھر رفتہ رفتہ یہ پھیلتی چلی گئیں جس کے نتیجے میں پہاڑی سلسلوں نے جنم لیا۔

اگر یہ تصور درست ہے تو یہ مانا جا سکتا ہے کہ یہ پراسرار پہاڑ قدیم سمندری کرسٹ کے بنے ہیں جو پتھر اور دیگر سمندری مادے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی ان پہاڑوں نے حدت اور دباؤ سے تشکیل پائی۔

لیکن انٹارکٹیکا کے نیچے اِن کی موجودگی اس تصور کو غلط ثابت کر سکتی ہے۔

ایک مشکل مہم

انٹارکٹیکا میں سیسمولوجی سٹیشن نصب کرنے کی مہم کے دوران ہینسن اور ان کی ٹیم نے ہیلی کاپٹرز اور چھوٹے ہوائی جہازوں کے ذریعے موزوں مقامات چُن کر گہری برف میں آلات نصب کیے۔

چند ہی دن میں ان کو پہلے نتائج حاصل ہو گئے۔ ان آلات سے ان کی ٹیم زمین کے کسی بھی مقام پر زلزے کا کھوج لگا سکتی تھی۔ ہینسن کا کہنا ہےکہ اگر زلزلہ بڑا ہو تو ہم دیکھ سکتے ہیں اور ان کو ایسے کئی مواقع ملے۔

ہر دن امریکی نیشنل ارتھ کویک انفارمیشن سینٹر دنیا بھر میں 55 زلزلے ریکارڈ کرتا ہے۔

ہینسن اور ان کی ٹیم سے پہلے زیر زمین پہاڑی سلسلوں کی شناخت تو ہو چکی تھی لیکن کسی نے انٹارکٹیکا کے نیچے ان کی موجودگی کا سراغ نہیں لگایا تھا۔ حیران کن طور پر ان کی ٹیم کو ہر جگہ سے ان کی موجودگی کا پتہ چلا۔

اس سے پہلے گمان کیا جاتا تھا کہ یہ پہاڑ صرف ان مقامات پر ہی پھیلے ہوئے ہیں جن کو ’بلوب‘ کہتے ہیں۔ لیکن ہینسن کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ شاید یہ پہاڑ زمین کی تہہ پر ایک کمبل کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔

لیکن یہ ایک نظریہ ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے مکمل جانچ پڑتال ضروری ہے۔ اس تحقیق سے قبل کور اور مینٹل کی سرحد کا صرف بیس فیصد حصہ دیکھا گیا تھا۔

ہینسن کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ ہم اس خالی جگہ کو پُر کر سکیں گے۔

تاہم اگر یہ پہاڑ واقعی اتنے پھیلے ہوئے ہیں تو نئے سوال پیدا ہوں گے۔ لیکن جو بھی دریافت ہو گی، اس بات کا امکان موجود ہے کہ انٹارکٹیکا کے عجیب و غریب علاقے سے زیر زمین موجود اتنے گرم پہاڑوں کے سلسلے کی پہیلی کا حل مل سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.