یونان کے ساحل کے قریب گذشتہ ہفتے کشتی الٹنے کے واقعے میں بچ جانے والے ایک پاکستانی نوجوان کی کہانی آج ہم آپ سے شئیر کر رہے ہیں۔ اس حادثے میں ابتدا میں 78 افراد کی اموات کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ یونانی کوسٹ کارڈ نے اب تک 12 پاکستانیوں سمیت 104 افراد کو زندہ بچایا ہے۔
پاکستانی نوجوان کی کہانی اسکی اپنی زبانی:
پاکستان سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ رانا، جو اس کشتی میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سوار تھے، نے اسمگلروں کے ہاتھ لگنے اور کشتی ڈوبنے کا سارا واقعہ تفصیل سے سناتے ہوئے بتایا کہ،
میرا بھائی اٹلی میں رہتا ہے اسلیئے ہم نے بھی بہتر زندگی کے لیے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا۔ جس کے لیئے میں نے ایک پاکستانی کو (نام واضح نہیں کیا) آٹھ ہزار ڈالر دیئے۔ اس سے طے پایا کہ جب ہم اٹلی پہنچیں گے تو میرا بھائی باقی رقم دے گا۔ اس نے مجھے اس میں سے دو ہزار ڈالر واپس دے دیے کہ میں یہ رقم لیبیا میں ایک شخص کو دے دوں۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ اس کا بھائی تھا جو ہمیں کشتی میں یورپ لے جانے والا تھا۔
ایک مہینے پہلے ہم پاکستان سے ہوائی جہاز کے ذریعے دبئی اور وہاں سے مصر اور پھر ہوائی جہاز کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ تقریباً 20 دن وہ ہمیں الگ الگ مقامات پر لے جاتے رہے کبھی کسی فلیٹ میں تو کبھی کہیں۔ آخر 9 جون کو وہ ہمیں ایک ٹرک میں بھر کر لیبیا کے ساحل پر لے گئے، جہاں ہمیں چھوٹی کشتیوں میں بٹھا کر بڑی کشتی کی طرف لے جایا گیا جو نیلے رنگ کی تھی اور مچھلی پکڑنے کے لیئے عموماً استعمال ہوتی ہے۔ کشتی میں موجود ان کے آدمیوں نے ہمیں بتایا کہ کہاں بیٹھنا ہے، مجھے اوپر کی طرف لے گئے جبکہ میرے بیوی بچوں کو نیچے کیبن میں رکھا گیا۔
کشتی پر تقریباً 700 افراد سوار تھے۔ ہم تین دن تک سمندر میں سفر کرتے رہے کہ کشتی کا انجن خراب ہو گیا۔ وہاں ایک شخص کشتی کے انجن کو ٹھیک کرتا رہا، مگر یہ بار بار خراب ہو جاتا تھا۔ 13 جون 2023 کی شام کو سمگلروں نے کشتی کا انجن بند کر دیا تاکہ قریب سے گزرنے والے جہازوں کو آواز نہ آئے۔ جہاز گزرنے کے بعد عملے نے دوبارہ انجن سٹارٹ کیا اور کشتی آگے بڑھنے لگی، لیکن آدھے گھنٹے بعد انجن پھر بند ہو گیا۔ میں ڈر کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھا دعائیں مانگنے لگا۔
اچانک مجھے کشتی ایک طرف جھکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس میں پانی بھرنے لگا۔ ہم کشتی کے اس حصے سے ہٹ کر دوسری جانب چلے گئے، مگر اس طرف وزن زیادہ ہو گیا جس کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی کچھ لوگوں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور کچھ نے کشتی کے مختلف حصوں کو پکڑ لیا۔ میں نے سمندر میں چھلانگ لگا دی، لیکن چونکہ مجھے تیرنا نہیں آتا تھا، میں اپنی پانی کی سطح پر پشت کے بل لیٹ کر انتظار کرنے لگا کہ کوئی آ کر مجھے بچائے۔ چند منٹ بعد ایک بڑا جہاز وہاں سے گزرا اور جو لوگ سمندر میں تھے، انہیں اٹھا کر یہاں لے آیا۔ پر جو لوگ باہر نہ نکل سکے وہ کشتی سمیت پانی میں ڈوب گئے، ان میں میری بیوی اور بچے بھی شامل تھے جو کیبن میں تھے۔
کشتی کے انتظامات کے حوالے سے رانا نے بتایا کہ، وہ ٹھیک طرح سے کھانا نہیں دیتے تھے اور پینے کا پانی بھی نہایت گندا ہوتا تھا، ہمیں اپنی جگہ سے ہلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ یہ میری زندگی کا بدترین سفر تھا جس میں، میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔