کپل دیو کہا کرتے تھے کہ اگر آپ اچھی کرکٹ کھیلیں تو یہ آپ کے بہت سے عیبوں کو چھپا سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت پاکستان ورلڈ کپ میں جس مقام پر ہے، وہاں اب صرف اچھی کرکٹ ہی عیب چھپانے کو کافی نہیں ہے۔
کپل دیو کہا کرتے تھے کہ اگر آپ اچھی کرکٹ کھیلیں تو یہ آپ کے بہت سے عیبوں کو چھپا سکتی ہے۔ لیکن فی الوقت پاکستان ورلڈ کپ میں جس مقام پر ہے، وہاں اب صرف اچھی کرکٹ ہی عیب چھپانے کو کافی نہیں ہے۔
پاکستان کے امکانات کا دارومدار اب بہترین کرکٹ کے علاوہ بہت زیادہ قسمت پر بھی ہے۔ ماضی کے کئی آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پاکستان کی قسمت عین مواقع پر جاگتی رہی ہے اور حالیہ ورلڈ کپ میں بھی معاملہ کچھ کچھ اسی سمت بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔
نیٹ رن ریٹ کے معاملے میں پاکستان اس قدر خوش قسمت نہ رہ پاتا اگر پونے میں کیوی کپتان ٹام لیتھم ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کر لیتے اور پروٹیز بولنگ فلڈ لائٹس کی روشنی میں اپنی مہارت کا وہ جادو نہ جگاتی۔
نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ جہاں پر تھا، وہاں سے پاکستان کے امکانات وا ہونے کو کیویز کی ایک بھاری شکست لازم تھی۔ اور پھر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ آسٹریلیا کے خلاف پونے چار سو رنز کے تعاقب میں عین قریب آ جانے والی کیوی بیٹنگ جنوبی افریقی بولنگ کے ہاتھوں مضحکہ خیز بن کر رہ گئی۔
پاکستان کی قسمت منور ہونے کے لیے یہ بھی لازم تھا کہ سری لنکا بھی اس دوڑ سے باہر ہو جاتا۔ یہاں پھر قسمت کی یاوری کام آئی اور سری لنکن بیٹنگ نے ایشیا کپ فائنل کا انہدام دہرا ڈالا۔ انڈین بولنگ غیض بن کر برسی اور ایسی بھاری شکست سری لنکا کا مقدر ٹھہری کہ الامان۔
سو، اب جہاں ارد گرد کے نتائج عین پاکستان کی توقعات پر پورا اتر رہے ہیں، وہاں یہ ضروری ہے کہ پاکستان سیمی فائنل تک رسائی کے لیے کیویز کو بڑے مارجن سے ڈھیر کرے، جس کے لیے صرف اچھی کرکٹ کافی نہ ہو گی بلکہ بہترین سے بھی بہتر کھیل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
پاکستان کی اضافی خوش بختی یہ بھی ہے کہ انجریز کے بوجھ تلے ہانپتی کیوی ٹیم کو گزشتہ میچ میں اپنے مین اٹیک بولر میٹ ہینری کی انجری کا بھی سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کے خلاف میچ میں وہ دستیاب نہ ہوں گے۔ ان کے متبادل کے طور پہ طویل قامت کائیل جیمیسن کو کیوی سکواڈ میں طلب کیا گیا ہے۔
جیمیسن اگرچہ گزشتہ دورۂ نیوزی لینڈ پر ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے بھیانک خواب ثابت ہو چکے ہیں مگر ون ڈے کرکٹ بہرحال ایک مختلف کھیل ہے اور یوں اچانک سکواڈ میں آمد پر وہ کس حد تک متاثر کن ہوں گے، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
لیکن اگر کیوی تھنک ٹینک بہرطور لوکی فرگوسن پر ترجیح دے کر جیمیسن کو الیون میں شامل کرتا ہے تو ان کی طویل قامت اور غیر متوقع باؤنس پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک سرپرائز فیکٹر ضرور ثابت ہو سکتا ہے جس سے محتاط رہنا ہو گا۔
اس ٹورنامنٹ میں نیوزی لینڈ کی ابتدائی کامیابیاں زیادہ تر ان کے ٹاپ اور مڈل آرڈر کی تباہ کن جارحیت کی مرہون منت رہی ہیں لیکن جنوبی افریقی بولنگ نے سب کو وہ رستہ دکھلا دیا ہے جہاں سے کیوی بیٹنگ کے انہدام کا دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے اب تک کے اپنے سفر میں گاہے بگاہے جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے بعد یہ ایک متوازن الیون ہے۔ ٹاپ آرڈر میں فخر زمان کی واپسی سے ابتدائی اوورز کا کھیل مضبوط ہوا ہے جبکہ پیس اٹیک میں محمد وسیم کی شمولیت کے نتائج سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہیں کہ وہ پہلے اپنی منیجمنٹ کا اعتماد کیوں نہیں حاصل کر پائے؟
دھیمے سے رن اپ اور غیر پیچیدہ بولنگ ایکشن کے ساتھ ناصرف محمد وسیم بآسانی 140 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار پیدا کرتے ہیں بلکہ بہترین لینتھ کو ہٹ کرنے میں ان کا ڈسپلن بھی اپنے دیگر ساتھیوں سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔
دیگر ٹیموں کے نتائج کو کنٹرول کرنا تو اب پاکستان کے ہاتھ میں نہیں ہے مگر جو پاکستان کے اختیار میں ہے، وہ پاکستان کو ضرور کرنا ہو گا۔ اور وہ صرف اچھی کرکٹ کھیلنا نہیں بلکہ بہترین کرکٹ کھیلنا ہے۔