کون یقین کر سکتا ہے کہ کبھی کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والی عظیم ویسٹ انڈیز کی ٹیم آج صبح اپنے ہی ہوم گراؤنڈ سبائنا پارک پر ٹیسٹ کی تاریخ کا سب سے کم سکور بناتے بناتے بچی ہے۔ تاہم تقریبا سو سالہ اپنی ٹیسٹ تاریخ کا اس نے سب سے کم سکور ضرور بنایا۔
مچل سٹارک نے ابتدائی 15 گیندوں پر پانچ وکٹیں لینے کا ریکارڈ بنایا ہےکون یقین کر سکتا ہے کہ کبھی کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والی ویسٹ انڈیز کی ٹیم اپنے ہی ہوم گراؤنڈ ’سبائنا پارک‘ پر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے کم سکور بناتے بناتے بال بال بچے گی! اگرچہ ویسٹ انڈیز یہ ریکارڈ بنانے سے تو بچ گئی لیکن اس نے تقریباً اپنی 100 سالہ ٹیسٹ تاریخ کا سب سے کم سکور بنانے کا اعزاز ضرور اپنے نام کیا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ اپنی تمام تر دلچسپیوں کے ساتھ گذشتہ رات نظر آئی جب ایک جانب لارڈز کے میدان میں انڈیا زبردست مقابلے کے بعد انگلینڈ کے ہاتھوں سیریز کا تیسرا ٹیسٹ محض 22 رنز سے ہار گئی۔ تو دوسری جانب لارڈز سے سینکڑوں میل کے فاصلے پر کنگسٹن میں ویسٹ انڈیز کے سامنے 204 رنز کا ہدف تھا اور پوری ٹیم 14.3 اوورز میں محض 27 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی اور اس طرح آسٹریلیا نے 176 رنز سے یہ میچ اور تین صفر سے سیریز اپنے نام کر لی۔
27 رنز بنا کر ویسٹ انڈیز کی ٹیم نیوزی لینڈ کے سنہ 1955 میں بنائے گئے کم سے کم 26 رنز کا ریکارڈ توڑنے سے بال بال بچی۔ میچ کے دوران ایک وقت پر ویسٹ انڈیز کی نو وکٹیں 26 رنز پر گر گئی تھیں لیکن مچل سٹارک کے ہاتھوں آخری وکٹ گرنے سے قبل ایک مس فیلڈ کی وجہ سے ویسٹ انڈیز اس پشیمانی والے سکور سے ایک رنز آگے نکل گئی۔
سوشل میڈیا پر اس وقت آسٹریلین ٹیم کے فاسٹ بولر مچل سٹارک کا ذکر ہو رہا ہے جنھوں نے پانچ وکٹیں لینے کے لیے سب سے کم ابتدائی گیندوں کا ریکارڈ بنا ڈالا۔ انھوں نے محض ابتدائی 15 گیندوں میں دو رنز کے عوض ویسٹ انڈیز کے پانچ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جبکہ اسی میچ میں بولر بولانڈ نے ہیٹ ٹرک کی۔
بولانڈ نے اپنی ہیٹ ٹرکاور سٹارک کے بارے میں میچ کے بعد کہا: ’میں اس آخری گیند پر نروس تھا۔ حیرت انگیز احساس۔ پہلے سیشن میں دس وکٹیں گرنے کی امید نہیں تھی۔ سٹارک کا اس طرح آغاز کرنا۔۔۔ ناقابل یقین۔‘
یہ مچل سٹارک کا 100واں ٹیسٹ میچ تھا جس میں انھوں نے اپنی 400 وکٹیں بھی مکمل کیں۔ سب سے کم گیند میں 400 وکٹ لینے کے معاملے میں وہ صرف جنوبی افریقہ کے فاسٹ بولر ڈیل سٹین سے پیچھے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان کی فاسٹ بولنگ اور ٹیسٹ کرکٹ سے ان کے لگاؤ کو سراہا جا رہا ہے۔
مچل سٹارک نے اپنے 100ویں ٹیسٹ میں 400ویں وکٹ حاصل کیمچل سٹارک کو ان کی بہترین کارکردگی کے لیے ’مین آف دی میچ‘ قرار دیا گیا جبکہ سیریز میں 15 وکٹیں لینے اور 46 رنز بنانے کے باعث انھیں ’پلیئر آف دی سیریز‘ کا حقدار بھی قرار دیا گيا۔
سٹارک نے میچ کے بعد کہا کہ ’یہ شاندار سیریز رہی، مشکل بیٹنگ کنڈیشنز رہیں۔ بہت مزے کے چند دن تھے۔ ہم نے رات دیکھا کہ نئی گیند کے ساتھ حالات اور بھی مشکل ہونے والے ہیں۔‘
جبکہ آسٹریلین کپتان پیٹ کمنز نے کہا کہ ’یہ میچ پاگل کر دینے والا تھا۔ ایسا لگا کہ ہم نے اسے فاسٹ فارورڈ میں کھیلا۔ یہ میچ کسی بھی طرف جا سکتا تھا لیکن ہماری ٹیم نے اپنا راستہ بنایا۔‘
انھوں نے مچل سٹارک کے بارے میں کہا کہ ’آج انھوں نے دکھا دیا کہ ایک حقیقی مچل سٹارک کیا کر سکتا ہے۔ اس کا ہونا ہماری خوش قسمتی ہے۔‘
دوسری جانب ویسٹ انڈیز کے کپتان نے کہا کہ ’اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہونا دلدوز ہے اور یہ پوری سیریز میں ہوتا رہا جو کہ اور بھی افسوسناک ہے۔ بولروں نے تو ہمیں میچ میں زندہ رکھا، لیکن بلے باز اپنا جوہر نہ دکھا سکے۔‘
سرفراز نواز کو بھی یاد کیا جا سکتا ہے
اگرچہ سٹارک کا یہ منفرد کارنامہ ہے لیکن ایسے میں کوئی آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی بولر سرفراز نواز کی بولنگ کو بھی یاد کر سکتا ہے جب انھوں نے 33 گیندوں پر محض ایک رن دے کر آسٹریلیا کی سات وکٹیں لی تھیں اور آسٹریلیا کی یقینی جیت کو شکست میں بدل دیا تھا۔
کرکٹ کے مؤقر جریدے ’وزڈن‘ نے سنہ 1979 کے اس میچ کو یاد کرتے ہوئے فیس بک پر پوسٹ کیا تھا کہ ’1979 میں آج کے دن سرفراز نواز نے ٹیسٹ تاریخ کا سب سے بڑا سپیل کیا تھا۔ آسٹریلیا نے 382 رنز کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 305-3 رنز بنا لیے تھے۔ لیکن پھر وہ جلد ہی وہ 310 پر آل آؤٹ ہو گئے، سرفراز نے 33 گیندوں میں ایک رن کے عوض سات وکٹیں حاصل کیں۔ اس کے آخری اعداد 86 رنز کے عوض 9 وکٹیں تھیں اور بچی ایک وکٹ وہ رن آؤٹ تھی۔
سوشل میڈیا پر کرکٹ شائقین مچل سٹارک کی وکٹوں اور مخالف ٹیم کو تباہ کرنے کی ان کی صلاحیتوں کا ذکر کر رہے ہیں جبکہ بہت سے لوگ یہ لکھ رہے ہیں کہ ’کیا اس سے بہتر کسی کا 100واں ٹیسٹ میچ ہو سکتا ہے؟‘
اس سے پہلے کہ ہم سٹارک کی بات کریں۔ ویسٹ انڈیز کے اپنے سب سے کم سکور کے ساتھ آٹھ ٹاپ ٹیسٹ ٹیموں کے سب سے کم سکور کا ذکر کرتے چلیں۔
مختلف ٹیموں کے سب سے کم سکور
یاد رہے کہ اس سے قبل ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم سنہ 2004 میں کنگسٹن کے اسی سبائنا پارک پر انگلینڈ کے خلاف 47 رنز پر آؤٹ ہو گئی تھی جو کہ اس وقت تک کا اُن کا سب سے کم سکور تھا۔
ویسے سب سے کم سکور بنانے کے معاملے میں سنہ 1955 سے نیوزی لینڈ کا ریکارڈ برقرار ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم انگلینڈ کے خلاف آکلینڈ میں 27 اوورز میں محض 26 رنز بنا کر آل آوٹ ہو گئی تھی۔
اس کے بعد ویسٹ انڈیز کا تازہ سکور 27 رنز آل آؤٹ ہے۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم دو بار 30 رنز پر آؤٹ ہوئی ہے اور دونوں بار انگلینڈ اس کے مخالف تھی۔ پہلی بار سنہ 1896 میں اور دوسری بار سنہ 2024 میں برمنگھم میں جنوبی افریقہ 30 رنز کے سکور پر آوٹ ہوئی۔
آسٹریلیا برمنگھم میں 36 رنز پر آؤٹ ہوئی تھی جو اس کا اب تک سب سے کم سکور ہے۔ ایک بار پھر مخالف ٹیم انگلینڈ تھی۔ یہ واقعہ سنہ 1902 میں رونما ہوا تھا۔
انڈیا کا کم سے کم سکور بھی 36 رنز ہے۔ ایڈیلیڈ میں سنہ 2020 میں انڈین ٹیم 22 ویں اوور میں 36 رنز بنا کر آل آوٹ ہو گئی۔
آئر لینڈ اگرچہ ٹاپ ٹیموں میں نہیں آتی لیکن وہ ایک بار 38 رنز پر ڈھیر ہو چکی ہے۔
سری لنکا کا سب سے کم سکور 42 رنز ہے جو اس نے جنوبی افریقہ کے خلاف ڈربن میں سنہ 2024 میں بنایا تھا۔
بنگلہ دیش کی ٹیم ویسٹ انڈیز کے خلاف سنہ 2018 میں نارتھ ساؤنڈ میں 43 رنز پر آل آؤٹ ہوئی جو کہ اس کا اب تک کا سب سے کم سکور ہے۔
انگلیند کا سب سے کم سکور 45 رنز ہے جو اس نے آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں سنہ 1887 میں بنایا تھا اور اپنا سب سے کم سکور بنا کر بھی وہ ٹیسٹ میچ جیت گئی تھی۔
پاکستان کا سب سے کم سکور 49 رنز ہے جو اس نے جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ میں بنایا تھا۔
سوشل میڈیا پر سٹارک کی پزیرائی
ویسٹ انڈیز کے خلاف سٹارک نے شاندار پہلا اوور کیا۔ پہلی گیند پر جان کیمبل کی وکٹ لی۔ اس طرح اپنے کریئر میں انھوں نے چوتھی بار اننگز کی پہلی گیند پر وکٹ حاصل کی۔
چار گیندوں کے بعد کیولن اینڈرسن ایل بی ڈبلیو ہو گئے لیکن انھوں نے ریویو لیا جو کہ ضائع چلا گیا۔ پھر اگلی ہی گیند پر انھوں نے برینڈن کنگ کے بلے اور پیڈ کے درمیان سے وکٹیں اڑا دیں۔ یہ ٹیسٹ کی تاریخ میں چھٹا موقع تھا جب کسی ٹیم کی تین وکٹیں صفر کے سکور پر گر گئی تھیں۔
جب انھوں نے میکائل لوئس کی وکٹ لی تو وہ شین وارن، گلین میک گرا، ناتھن لیون کے بعد آسٹریلیا کے چوتھے 400 وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی بن گئے۔
اور جب انھوں نے شائی ہوپ کو ایل بی ڈبلیو کیا تو وہ سب سے کم گیندوں میں پانچ وکٹیں لینے والے بولر بن گئے۔
سابق ایتھلیٹ برینڈن فیوولا نے لکھا کہ ’سٹارک نے 15 گیندوں میں پانچ وکٹیں لی ہیں۔ کیا ہم ٹیسٹ کرکٹ میں پھر کبھی ایسا کارنامہ دیکھیں گے؟‘
رفیع نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’سٹارک نے ہمیشہ ٹیسٹ کرکٹ کو اہمیت دی ہے۔ آج ٹیسٹ کرکٹ نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔400 وکٹیں اور کھڑے ہو کر ان کے لیے پزیرائی۔‘
چکس سیز نامی ایک صارف نے لکھا: ’مچل سٹارک اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ بولر کی میراث کی تعریف اعدادوشمار سے نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو بہتر اوسط رکھتے ہیں وہ یہ نہیں کر سکے جو سٹارک نے ابھی کر دکھایا ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ 'سٹارک کی کوئی بھی گیند کھیلنے کے قابل نہیں تھی۔ یہ ایک غیر حقیقی بولنگ کا مظاہرہ تھا۔‘
بہت سے لوگوں نے اُس فہرست کو بھی شیئر کیا ہے جس میں اُن سے قبل تین کھلاڑیوں نے 19 گیندوں پر پانچ وکٹیں لیں جن میں آسٹریلیا کے بولانڈ اور انگلینڈ کے سٹوارٹ براڈ شامل ہیں۔
کرکٹ آسٹریلیا نے ایک فہرست شیئر کی ہے جس میں بولرز کے سویں ٹیسٹ سے پہلے کے اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں جن میں میکگرا 451 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ وسیم اکرم 209 وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور پھر ان کے بعد مچل سٹارک ہیں۔