اوپن اے آئی کی سربراہ اور سیلیکون ویلی کی سب سے بااثر خواتین میں شامل میرا مورتی کون ہیں؟

نومبر کے آخر میں جب میرا مورتی نے اوپن اے آئی کے سی ای او کا عہدہ سنبھالا تو وہ شہ سرخیوں میں آئیں۔ لیکن وہ کون ہیں اور کہاں سے تعلق رکھتی ہیں؟
میرا مورتی
Getty Images

نومبر کے آخر میں جب میرا مورتی نے اوپن اے آئی کے سی ای او کا عہدہ سنبھالا تو وہ شہ سرخیوں میں آئیں۔ یہ ایک عارضی عہدہ تھا لیکن انھوں نے جب ایک بحران حل کر دیا تو وہ بین الاقوامی منظر نامے پر کافی اہم شخصیت کے طور پر سامنے آئیں۔

اور اس طرح اوپن اے آئی کی چیف ٹیکنالوجی آفیسر میرا مورتی کمپنی کے نمایاں چہروں میں سے ایک بن گئیں۔ اس کمپنی کی مشہور ترین مصنوعات میں چیٹ جی پی ٹی ہے جو کہ مصنوعی ذہانت کا ایک نظام ہے اور جس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔

فورچون میگزین کے مطابق البانیہ سے تعلق رکھنے والی 34 سالہ انجینیئر کو رواں سال دنیا کی 100 طاقتور ترین خواتین میں سے ایک کے طور پر چنا گیا اور وہ سیلیکون ویلی کے چہروں میں سے ایک نمایاں چہرہ بن گئی ہیں۔

تاہم میرا مورتی کا کہنا ہے کہ کمپنی کے اندر ان کا کام آسان نہیں ہے۔

’دی ڈیلی شو‘ کے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’بہت سارے سوالات ہیں جن کے ساتھ ہم ہر روز نبردآزما ہوتے ہیں۔‘

اگرچہ ان کے مشاغل اور ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں، لیکن اس کے بارے میں کچھ اشارے ضرور دیئے ہیں۔

انھوں نے ’بہائنڈ دی ٹیک‘ پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ ’مجھے پڑھنا پسند ہے اور مجھے ہائیکنگ پسند ہے۔ ہائيکنگ (پہاڑوں میں پیدل سفر کرنا) کرتے ہوئے فطرت کے درمیان ہونا میری پسندیدہ سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔‘

اور مشہور ٹائم میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ان کے پسندیدہ گانوں میں ریڈیو ہیڈ کا ’پیرانوائے اینڈرائیڈ‘ ہے۔ ان کی پسندیدہ کتابوں میں رینر ماریا رلکے کی نظموں کا مجموعہ ’ڈینو الیجیز‘ یا ڈینو کے مرثیے ہیں۔ اور اسی طرح فلموں میں سٹینلی کیوبرک کی ’2001: اے سپیس آڈیسی‘ ان کی پسندیدہ فلم ہے۔

میرا مورتی کون ہیں؟ وہ کہاں سے آئی ہیں، ان کا کریئر کیسا ہے اور وہ مصنوعی ذہانت کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ آئیے ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

میرا مورتی
Getty Images
میرا مورتی نے اوپن اے آئی میں سنہ 2018 میں شمولیت اختیار کی

البانوی نژاد

میرا مورتی کی پیدائش سنہ 1988 میں البانیہ میں کمیونسٹ حکومت کے زوال سے کچھ پہلے ہوئی تھی۔ یہ بلقان کا ایک چھوٹا سا ملک ہے اور یورپ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

ادب کے پروفیسروں کی بیٹی کی حیثیت سے ان کا بچپن ’جابر کمیونزم سے لبرل سرمایہ داری کی طرف منتقلی‘ کے درمیان گزرا۔ انھوں نے ’بہائنڈ دی ٹیک‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں دو سال کی تھی تو آمرانہ حکومت گر گئی۔ اور راتوں رات انارکی (بدنظمی) پھیل گئی۔‘

انھوں نے اس پروگرام کے دوران بتایا کہ انھیں بچپن سے ہی ریاضی اور فزکس یعنی علم طبیعیات میں دلچسپی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’البانیہ ناقابل یقین حد تک الگ تھلگ ملک ہوا کرتا تھا جیسا کہ آج شمالی کوریا ہے۔ اور پھر کتابوں کے علاوہ زیادہ تفریح یا کچھ اور سرگرمیوں کا سامان نہیں تھا۔‘

16 سال کی عمر میں انھوں نے کینیڈا کے وینکوور میں پڑھنے کے لیے سکالرشپ حاصل کی اور وہیں انھوں نے ہائی سکول کے آخری دو سال مکمل کیے اور پھر ڈارٹ ماؤتھ کالج سے مکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیے

مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ’30 کروڑ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں‘

مصنوعی ذہانت کو سمجھنے کے لیے آسان گائیڈ

مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟

اوپن آئی
Getty Images
اوپن آئی کا سب سے بڑا پروگرام چیٹ جی پی ٹی ہے

اوپن اے آئی میں شمولیت

اس کے بعد وہ جلد ہی سان فرانسسکو چلی گئیں جہاں انھوں نے ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا میں کام کرنے لگیں اور انھوں نے ماڈل ایکسX اور مصنوعی ذہانت پر مبنی آٹو پائلٹ ٹول تیار کرنے میں مدد کی۔

ٹیسلا کے بعد انھوں نے بطور پروڈکٹس اور انجینئرنگ نائب صدر کے لیپ موشن میں مختصر طور پر کام کیا۔ یہ کمپنی ورچوئل ریئلٹی ٹیکنالوجی کے لیے سینسر بناتی ہے۔

اس کے بعد انھوں نے 2018 میں اوپن اے آئی میں شمولیت اختیار کی اور کمپنی کی ساکھ بنانے والے جنریٹر چیٹ جی پی ٹی اور ڈال-ای کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس وقت اوپن اے آئی ایک غیر منافع بخش تحقیقی لیب تھی، لیکن یہ جلد ہی ایک تجارتی کمپنی بن گئی۔

انھوں اپلائیڈ مصنوعی ذہانت کی نائب صدر کے طور پر کمپنی میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی سنہ 2020 میں تحقیق، مصنوعات اور شراکت داری کے سینیئر نائب صدر کے عہدے پر ترقی حاصل کی اور پھر سنہ 2022 میں وہ چیف ٹیکنالوجی آفیسر کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق میرا مورتی نے مائیکروسافٹ کے ساتھ کمپنی کے تعلقات کو سنبھالا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا شراکت دار ہے جس نے اوپن اے آئی میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، اور واشنگٹن اور یورپ میں انٹیلی جنس کی ترقی کے حوالے سے پالیسی کی ترقی میں تعاون کیا ہے۔

مائیکروسافٹ کے چیف ایگزیکٹیو ستیہ نڈیلا نے ٹائم میگزین میں لکھا کہ ’انھوں نے اپنی تکنیکی مہارت، کاروباری ذہانت اور مشن کی اہمیت کے ساتھ ٹیمیں بنانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے نتیجے میں، میرا نے کچھ انتہائی دلچسپ مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز بنانے میں مدد کی ہے، ایسی ٹیکنالوجی جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘

میرا مورتی
Getty Images
میرا مورتی سیم آلٹ مین کے بعد عارضی طور پر سی ای او رہیں

’خطرناک صلاحیتیں‘

فورچون میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ان چیزوں میں سے ایک چیز جو انھیں پریشان کرتی ہے، وہ ہے ’وہ ماڈلز ہیں جن کے پاس خطرناک صلاحیتیں ہوں گی۔‘

’یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو شاید بین الاقوامی سیاست کو ہماری بنائی ہوئی چیزوں میں سب سے زیادہ متاثر کرے گی۔ اور سب سے قریب معاملہ یقیناً جوہری ہتھیاروں کا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایسے میں یہ انتہائی اہم ہوگا کہ ’اس بارے میں ہم کس طرح ایسا ضابطہ بنا سکتے ہیں جو اس خطرے کو کم کرتا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ مصنوعی ذہانت کے ظہور کے بعد ہمارا مستقبل کیسا ہو گا تو اس بات پر غور کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں اس کا ایک پرامید پہلو نظر آتا ہے اور ساتھ ایک وجود خطرے سے متعلق ہے اور ان دونوں کے امکانات ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں بہت پر امید ہوں کہ ہم اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک رہے۔ لیکن ٹیکنالوجی خود فطری طور پر دونوں امکانات رکھتی ہے، اور یہ دوسرے ٹولز سے مختلف نہیں ہے جو ہم نے اس لحاظ سے بنائے ہیں کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور واقعی خوفناک چیزوں کے ہونے کا امکان ہے، یہاں تک کہ تباہ کن واقعات کے ہونے کا بھی امکان ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اور اس کے بارے میں جو بات منفرد ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایک وجودی خطرہ بھی مضمر ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ بنیادی طور پر انسانی تہذیب و تمدن کے خاتمے سے متعلق ہے۔ میرے خیال میں اس کے ہونے کا (محض) ایک چھوٹا سا امکان ہے۔ لیکن یہ چھوٹا سا امکان بھی ایسا ہے کہ اس کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔‘

ٹائم میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں میرا مورتی نے ان تکنیکی ماڈلز میں موجود ممکنہ خطرات کا بھی حوالہ دیا جو وہ اور ان کی ٹیم تیار کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ٹیکنالوجی ہمیں تشکیل دیتی ہے اور ہم اسے تشکیل دیتے ہیں۔ بہت سے مشکل مسائل حل کرنے کے لیے ہیں۔ آپ اپنی مرضی کے مطابق ماڈل کو کیسے تیار کرتے ہیں اور آپ اس بات کو کیسے یقینی بناتے ہیں کہ یہ انسانی ارادے کے تحت کام کرے گا اور بالآخر انسانیت کی خدمت میں کام کر رہا ہوگا۔‘

’فی الحال ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کا جواب ہے کہ فیصلہ سازی کی طاقت کس کے پاس ہوگی، نئے مصنوعی ذہانت کے نظام پر کس کا کنٹرول ہوگا؟ کمپنیوں کا یا حکومتوں کا؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم لوگوں کا ایک چھوٹا گروپ ہے اور ہمیں اس سسٹم کے اندر بہت زیادہ ان پٹ کی ضرورت ہے اور کے ساتھ اس طرح کی اور بھی بہت زیادہ ان پٹ کی ضرورت ہے جو ٹیکنالوجیز سے بالاتر ہو اور یقینی طور پر اس میں ریگولیٹرز، حکومتیں اور باقی سب شامل ہیں۔‘

’یہ تمام طرح کی صنعتوں کو بدل دے گا‘

وائرڈ میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں میرا مورتی نے ان مسائل کا حوالہ دیا جو چیٹ جی پی ٹی یا جی پی ٹی فور جیسے ٹولز کام یا کاپی رائٹ کی دنیا میں پیدا کر سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ تمام طرح کی صنعتوں کو بدلنے والا ہے۔ لوگوں نے اس کا موازنہ بجلی یا پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے کیا ہے۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ اسے معاشرے کی ہر سطح میں ضم کیا جائے اور کاپی رائٹ کے قوانین، رازداری، حکمرانی اور ضابطے جیسی چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا جائے۔‘

نئی ٹیکنالوجیز ’مصنوعی جنرل انٹیلی جنس‘ کے نام سے موسوم ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی اور یہ مصنوعی ذہانت کی ایک شکل ہے جس میں وسیع پیمانے پر علم کو سمجھنے، سیکھنے اور لاگو کرنے کی صلاحیت ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اے جی آئی تک رسائی کے لیے اوپن اے آئی ہی راستہ ہے جا اس تک مختلف راستے سے پہنچا جا سکتا ہے، جہاں لوگوں کے استعمال کے ذریعے سیکھے گئے کاموں کی تکرار سے ٹولز تیار کیے جاتے ہیں تو میرا مورتی نے جواب دیا:

’میں نے تکراری نفاذ سے بہتر طریقہ کے بارے میں نہیں سوچا ہے کہ اس کے ذریعے مسلسل موافقت اور فیڈ بیک کو حقیقی سرے سے کیسے حاصل کیا جائے جو اسے مزید مضبوط بنانے کے لیے ٹیکنالوجی میں پیدا ہو۔‘

’ابھی جبکہ خطرات کم ہیں تو ایسے میں ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ جیسے جیسے ہم اے جی آئی کے قریب ہوتے جائیں گے ممکنہ طور پر اس کا دوبارہ احیا ہوگ اور جب ہم اس کے نزدیک پہنچیں گے تو ہمارے نفاذ کی حکمت عملی بدل جائے گی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.