20 سال پہلے ماں باپ سے بچھڑنے والے بچے نے جوان ہوکر گوگل ارتھ کی مدد سے اپنے گمشدہ خاندان کو ڈھونڈ نکالا۔
بچپن میں سارو اور اس کا بھائی ٹرینوں میں سکے اور کھانا ڈھونڈتے تھے، 1986 میں سارو سکے ڈھونڈتے ہوئے ایک خالی ٹرین پر سوار ہوا جو اس کے آبائی قصبے سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوئی تھی۔
اس ٹرین میں اپنے بھائی کا انتظار کرتے کرتے سارو سو گیا اور اس کی آنکھ کئی گھنٹوں بعد کھلی جب وہ گھر سے بہت زیادہ دور پہنچ چکا تھا۔
سارو نے بتایا کہ میں بھوکا تھا اور اپنی ماں، بھائی اور بہن کو یاد کرکے رو رہا تھا۔ٹرین سے نکل کر کولکتہ کی گلیوں میں کئی ہفتوں تک مارا مارا پھرتا رہا اور پھر یتیم خانے پہنچا، جہاں سے ایک خاندان نے گود لے لیا اور وہ آسٹریلیا پہنچ گیا۔
سارو کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں وہ اپنے نئے والدین کے ساتھ خوش باش تھا مگر اپنی ماں کی یاد ہمیشہ اسے تڑپاتی رہی،آسٹریلیا پہنچنے کے 2 دہائیوں بعد سارو نے گوگل ارتھ کی مدد سے اپنے گھر والوں کی تلاش شروع کی۔
اس کے لیے سارو نے گوگل ارتھ سرچ کی مدد لی ، وہ ہر رات گھنٹوں لیپ ٹاپ پر سیٹلائیٹ تصاویر کو دیکھتا رہتا۔سارو نے بتایا کہ میں نے ریاضی اور ہر اس چیز کو استعمال کیا جو میرے آبائی قصبے کے بارے میں مجھے یاد تھی۔
5 سال سے زائد عرصے تک گوگل ارتھ پر یہ تلاش جاری رہی جس کے دوران وہ بھارت میں ٹرینوں کےان ٹریکس کے جال کو کھوجتا رہا جو کولکتہ سے دیگر علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔پھر ایک دن اچانک وسطی بھارت کے ایک گاؤں کی تصاویر سارو کے سامنے آئیں۔ان تصاویر میں جنگل، مندر، ایک چھوٹا پل اور آبشار وغیرہ اس کی بچپن کی یادوں جیسے تھے۔
شروع میں تو سارو کو لگا کہ اس کا ذہن دھوکا دے رہا ہے مگر پھر دیگر چیزوں نے اسے یقین دلایا کہ یہی اس کا آبائی علاقہ ہے۔اس کھوج کے دوران اس نے ان سڑکوں اور راستوں کو تلاش کیا جن پر چل کر آخرکار وہ اپنے جانے پہچانے علاقے میں پہنچا۔اس گاؤں کے لوگ سارو کو ایک معمر خاتون کے پاس لے گئے جو سارو کو دیکھ کر شاک رہ گئی، وہ خاتون سارو کی حقیقی ماں تھی۔
سارو کی حقیقی ماں کا نام فاطمہ تھا جس نے اپنے گمشدہ بیٹے کو گلے لگایا اور وہ دونوں رونے لگے۔اس کے ایک سال بعد سارو کے آسٹریلیا میں موجود والدین نے بھارت آکر فاطمہ سے ملاقات کی۔گوگل کی جانب سے بھی سارو بریرلے کی تلاش پر ایک یوٹیوب ویڈیو جاری کی گئی۔