پاکستانی خواتین اور استعمال شدہ کپڑوں کی خرید و فروخت: ’ان کپڑوں کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دیں، کسی کو پتا نہ چلے‘

سحرش رضا نے اپنی کمپنی پر ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’مجھے بہت باتیں سننے کو ملیں کہ تم لنڈا بیچ رہی ہو اور زیادہ تر خواتین یہ کہتی تھیں کہ میں تو کبھی کسی کی اترن نہیں پہنوں گی۔‘
کپڑے
Getty Images

اکثر خواتین کو آپ نے یہ گلہ کرتے ضرور سنا ہو گا کہ ’ہمارے پاس تو کپڑے ہی نہیں ہیں پہننے کے لیے‘ جبکہ یہ پریشانی اس وقت خواتین کے لیے زیادہ بڑھ جاتی ہے جب انھیں کسی تقریب میں شرکت کرنی ہو۔

اس شرکت سے پہلے تیاری کے مرحلے میں الماری کا دروازہ کھلتا ہے تو اکثر خواتین کے منھ سے یہ سوال بھی نکلتا ہے کہ ’میں کیا پہنوں؟‘

گھر والوں سے مانگے جانے والا یہ مشورہ چند ہی لمحوں میں اس شکایت پر ختم ہو جاتا ہے کہ کچھ نیا نہیں ہے پہننے کو۔ چاہے گھر والے ہزار کوششیں کر لیں انھیں قائل کرنے کی کہ الماری تو کپڑوں سے بھری ہوئی ہے۔

یہی نہیں عموماً خواتین کو یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ ’کپڑوں اور جوتوں پر اتنے پیسے مت ضائع کیا کرو۔‘

کچھ خواتین اس مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے کپڑے، جوتوں اور دیگر چیزوں کی خریداری جاری رکھتی ہیں تو دوسری جانب خواتین کی ایسی تعداد بھی موجود ہے جو کپڑوں سے بھری الماری کو خالی کرنے میں کامیاب بھی ہوتی ہیں اور پرانے کپڑوں کو بیچ کر ان سے پیسے بھی کما رہی ہیں۔

کپڑے
Getty Images

خواتین پری لووڈ (استعمال شدہ) کپڑے کیوں بیچتی ہیں؟

پری لوّڈ یعنی استعمال شدہ کپڑے جوتے یا کسی بھی ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جو آپ کے خریدنے سے پہلے کسی شخص کے استعمال میں رہی ہوں اور وہ اس کی پسندیدہ بھی رہی ہوں۔

پچھلے چند برسوں میں پری لووڈ کپڑوں کی خریدو فروخت کا رجحان دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ اور جب سے سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے تب سے خواتین کے لیے ان کی خرید و فروخت کا عمل بھی آسان ہو گیا ہے۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک چیز پہلے سے ہی کسی شخص کی پسندیدہ ہے تو وہ اسے بیچتا کیوں ہے؟

یہ سوال ہم نے ایسی خواتین کے سامنے رکھا جو ان کپڑوں کو بیچتی ہیں۔

سمانہ عباس استعمال شدہ کپڑوں کی خریدو فروخت کے لیے دیگر خواتین کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں جہاں وہاستعمال شدہکپڑوں کی خرید و فروخت کر سکتی ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں یہ کام پچھلے پانچ سال سے کر رہی ہوں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ خواتین کی بڑی تعداد اب پری لووڈ کپڑوں کی خریداری کرتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسا کہ برانڈڈ کپڑوں کا بہت زیادہ مہنگا ہونا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’بے شک یہ رجحان بڑھ رہا ہے لیکن میں آپ کو یہ بتا سکتی ہوں کہ ابھی بھی بہت سے خواتین اور مرد پری لوّڈ کپڑے خریدتے تو ہیں لیکن خریدنے کے بعد ان کا اکثر یہ مطالبہ ہوتا کہ آپ ان کپڑوں کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دیں تاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔

کپڑے
Getty Images

ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایسی ہی ایک کمپنی چلانے والی سحرش رضا نے بتایا کہ یہ کام شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ’میرے ارد گرد بہت سی ایسی خواتین تھیں، جو اپنی الماری کھولتی تھیں اور ان کے کپڑے الماری سے باہر گر رہے ہوتے تھے لیکن ان کا بس یہی ایک ڈائیلاگ سننے کو ملتا تھا کہ میرے پاس تو کچھ پہننے کو نہیں ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس جملے کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اتنے کپڑے ہونے کے باوجود خواتین کہتی ہیں کہ کچھ پہننے کو نہیں لیکن جب میں نے اپنی تحقیق کی تو پھر یہ سمجھ آیا کہ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ خواتین کے پاس کپڑے نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بار بار وہی کپڑے نہیں پہننا چاہتیں۔‘

سحرش کا کہنا ہے کہ اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے میں نے ایسا پلیٹ فارم بنایا جہاں خواتین ان کپٹروں کو بیچ اور خرید سکتی ہیں تاکہ خواتین کو ان کے زائد کپڑوں سے نجات مل جائے گی اور وہ کچھ پیسے بھی کما سکیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ ایسی خواتین جو کپٹروں پر زیادہ پیسے نہیں خرچ کرنا چاہتیں وہ کم پیسوں میں بہت اچھے اور برانڈڈ کپڑے خرید سکیں گی۔

جیسا کہ برائیدل ڈریس آپ ایک مرتبہ پہن لیں تو دوبارہ نہیں پہن سکتے، اسی طرح آپ پارٹی وئیر خاندان کی ایک شادی میں پہن لیں تو اس خاندان میں وہ آپ دوبارہ پہن کر نہیں جا سکتے۔

سحرش رضا نے اپنی کمپنی پر ہونے والی تنقید کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ’مجھے بہت باتیں سننے کو ملیں کہ تم لنڈا بیچ رہی ہو اور زیادہ تر خواتین یہ کہتی تھیں کہ میں تو کبھی کسی کی اترن نہیں پہنوں گی۔‘

اس سب کے باوجود بھی وہ یہ کام کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کپڑے
Getty Images

’میں اپنی شادی کے لیے مہنگا لہنگا نہیں خرید سکتی‘

عائشہ (فرضی نام) میری شادی اگلے دو ماہ میں ہے۔ اپنی شادی کے لہنگے کی خریداری کے لیے جب میں بازار گئی تو ذہن میں شادی کے لہنگے کو لے کر ایک خاکہ موجود تھا۔ لیکن جب میں نے اس خاکے سے ملتے جلتے لہنگوں کی قیمت کا سنا تو مایوس ہو کر گھر لوٹ آئی۔

’ہم لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے میرے گھر والوں کے لیے شادی کا مہنگا جوڑا خریدنا ممکن نہیں ہے۔

’مجھے گھر والوں کی طرف سے پچاس ہزار روپے لہنگے کے لیے دیے گئے ہیں جبکہ میں نے خود سے کچھ پیسے جوڑ کر 70 ہزار تک کا بجٹ رکھا ہے تاکہ اپنی پسند کا لہنگا خرید سکوں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اب جب اتنے پیسوں میں بھی میرا کام نہیں ہو رہا تو میں نے اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر فیس بک پر مختلف گروپس میں اپنی صورت حال بتاتے ہوئے لکھا کہ مجھے اس طرح کا لہنگا اتنے پیسوں میں چاہیے تو کئی خواتین نے مجھے مثبت جواب دیے۔

’انھوں اپنے پری لووڈ لہنگوں کی تصاویر اپ لوڈ کیں اور ساتھ ہی قیمت بھی بتائی۔ جس کے بعد جو دو چار مجھے پسند آئے ان سے میں نے بات چیت آگے بڑھائی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ دو ایسی خواتین ہیں جن سے میری بات چل رہی اور وہ مجھے اپنے استعمال شدہ میری پسند کے لہنگے پچاس ہزار میں دینے کو بھی تیار ہیں۔

’میرے لیے تو تجربہ ابھی تک کافی اچھا جا رہا ہے۔ البتہ اگر آپ اپنی زندگی کے اہم دن پر پری لووڈ کپڑے پہننا چاہتے ہیں بس چپ کر کے پہن لیں۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد ابھی ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو وہم کرتے ہیں یا پھر تنقید برائے تنقید کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔‘

کپڑے
Getty Images

’ہم کسی کے اترن کیوں پہنیں‘

’ہم کسی کے اترن کیوں پہنیں‘ یہ وہ جملہ ہے جو آمنہ حنین کو اپنے اردگرد کے لوگوں سے اس وقت سننا پڑتا ہے جب وہ انھیں پری لووڈ کپڑوں کے استعمال کا مشورہ دیتی ہیں۔

جڑاںوالہ کی رہائشی آمنہ حنین نوکری پیشہ ہیں اور پیشے کے لحاض سے مائیکروبائیولوجسٹ ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میں استعمال شدہ کپڑوں اور جوتوں کا استعمال گذشتہ ڈھائی برسوں سے کر رہی ہوں۔ جب میں نے سوشل میڈیا اور مختلف کمپنیوں سے استعمال شدہ کپڑے خریدنے شروع کیے تو سب سے پہلے میرے گھر والوں اور دیگر بہنوں کو اعتراض ہوا کہ تم کیوں کسی کے پہنے ہوئے کپڑے خرید رہی ہو۔

آمنہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے پری لووڈ کپڑوں کا استعمال کرنا اس لیے شروع کیا کیونکہ مجھے بازار میں جا کر کپڑے خریدنا انتہائی مشکل کام لگتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر وجوہات ہیں جیسا کہ محنت اور پیسوں کی بچت۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کوئی سوٹ خریدنے جاتے ہیں تو اس کے لیے پہلے آپ کو ہزاروں روپے کا سوٹ خریدنا پڑتا ہے اور پھر اس کی ڈیزائننگ کے لیے لیس، بٹن اور دیگر چیزیں الگ سے لینی پڑتی ہیں۔ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی سوچو کہ اس کی سلائی کیسی کروانی ہے۔ سلائی کے پیسے ملا کر بات کئی ہزاروں میں چلی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میرے گھر والے مجھے پری لووڈ کپڑیں خریدنے پر کہتے ہیں کہ ’ہم کوئی غریب ہیں کہ نئے کپڑے خریدنے کی قوت نہ رکھتے ہوں۔

’میری بہن مجھے کہتی ہے کہ تمھیں الجھن نہیں ہوتی کہ پتا نہیں یہ کپڑے صاف ہوں یا نہ ہوں یا ان کے ساتھ کوئی نحوست نہ ہو۔ تو میں اسے یہی سمجھاتی ہوں کہ بطور مائیکروبائیولوجسٹ میں یہ بات بتا سکتی ہوں کہ آپ اسے استعمال سے پہلے اچھے طرح دھو کر پہنیں گے تو آپ کے تمام وہم دور ہو جائیں گے۔‘

آمنہ کا کہنا ہے کہ یہی نہیں میں جن پلیٹ فارمز سے پری لووڈ کپڑے خریدتی ہوں وہ پہلے ہی تمام تر چھان بین کرکے بھیجتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب کوئی عورت کپڑے فروخت کرنا چاہتی ہے تو ان کپڑوں کی حالت کے مطابق قیمت کا تعین کرتے ہیں اور پھر انھیں دھلوا کر اچھی اور صاف ستھری حالت میں آگے گاہک کو بھیجتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں میں اب کافی شعور آ گیا ہے اور اب وہ پیسوں اور کپڑوں کا ضیاع کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی نہیں وہ لوگ جو پہلے یہ کہتے تھے کہ ہم تو لنڈے کا مال کبھی نہیں پہنتے وہ بھی اب استعمال شدہ چیزوں کو خریدتے ہوئے بدلی ہوئی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.