وہ مسلم ملک جو ’نِکل‘ کے ذخائر اور نئے زیر تعمیر دارالحکومت کے ساتھ دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں شامل ہونا چاہتا ہے

کیا انڈونیشیا 2045 تک 25000 ڈالر کی اوسط آمدنی اور غربت کے مکمل خاتمے کے ساتھ دنیا کی پانچ بڑی معیشت میں سے ایک بننے کا ہدف پورا کر سکے گا؟
تصویر
Getty Images

ملازمت کی تلاش میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے 55 سال کے مسمل یادی اور اُن کی 50 سالہ اہلیہ نورمس ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کر کے اپنے ملک کے نئے دارالحکومت میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ یہ نیا دارالحکومت ایک جنگل میں بنایا جا رہا ہے۔

مسمل یادی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’جب تک یہاں تعمیراتی کام جاری ہے تب تک یہاں ملازمت ڈھونڈنا آسان ہو گا۔‘

مسمل اور اُن کی اہلیہ کا نیا گھر اب بورنیو جزیرے پر واقع نوسانتارا شہر ہے۔ ’نوسانتارا‘ جاوا زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’جزیرہ نما‘۔

نورمس سیمنٹ تیار کر رہی ہیں جبکہ ان کے شوہر مسمل یادی ٹائلیں لگا رہے ہیں۔

ان میاں بیوی کا خواب وہی ہے جو ’انڈونیشیا کا خواب‘ ہے۔ مسمل یادی کی خواہش ہے کہ انھیں ایک مستحکم ملازمت ملے اور وہ کسی بڑے تعمیراتی منصوبے پر ایک چھوٹے ٹھیکیدار بن جائیں۔

انڈونیشیا کے لیے ایک نیا دارالحکومت جنگل میں تعمیر کیا جا رہا ہے
Oki Budhi
انڈونیشیا کے لیے ایک نیا دارالحکومت جنگل میں تعمیر کیا جا رہا ہے

جب صدر جوکو ویدودو نے دو سال قبل ’نوسانتارا‘ کے نام سے ملک کے ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد سےیہاں کاروبار میں کافی تیزی آئی ہے۔

حکومتی اندازے کے مطابق اس نئے زیرِ تعمیر شہر میں سنہ 2029 تک 20 لاکھ لوگ مقیم ہوں گے۔

لیکن اسی جگہ پر آباد 51 سال کے پانڈی اور ان کی اہلیہ سیامسیاح کو یہ خطرہ ہے کہ شہر کی تعمیر کے نام پر انھیں اُن کے گھر سے نکال دیا جائے گا۔

اُن کا تعلق مقامی آبادی سے ہے، وہ مقامی آبادی جو اس جگہ پر نسلوں سے آباد ہے مگر اس کے پاس زمین کی ملکیت کے کاغذات نہیں ہیں۔ ایسے قدیم مقامی افراد کی تعداد تقریباً 20 ہزار ہے۔

پانڈی بتاتے ہیں کہ ایک دن جب ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے گھر کے باہر چند افراد زمین کی نشاندہی (نقشہ بندی) کر رہے تھے۔

یہ ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے لیکن پانڈی کو اس پر آباد رہنے کے لیے لڑتے رہنا پڑے گا
Oki Budhi
اگرچہ یہ اُن کے آباؤ اجداد کی سرزمین ہے لیکن پانڈی کو اس پر آباد رہنے کے لیے لڑتے رہنا پڑے گا

حکومت سیلاب سے تحفظ کے لیے اس جگہ کو خالی کروانا چاہتی تھی جہاں پانڈی اور ان جیسے دیگر مقامی افراد آباد ہیں، تاہم ان افراد نے اپنی بیدخلی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے حکام کو حکم دیا کہ وہ مقامی افراد کو ان کے آبائی مکانوں سے بیدخل نہ کریں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’یہ میں اپنے بچوں اور اگلی نسلوں کے لیے کر رہا ہوں۔ اگر میں کچھ نہیں کرتا تو میرے بچے اور ان کے بچے حکومت کے لیے کچرے کی طرح ہوں گے۔ اس طرح ہم ناانصافی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘

مگر یہ ایک عارضی حل ہے کیونکہ دیگر دیہاتوں سے بہت ساری مقامی آبادیاں اپنی زمینیں چھوڑ کر وہاں سے نکل گئی ہیں۔ حکومت نے انھیں زمینیں چھوڑنے کے عوض جو معاوضہ دیا لیکن وہ بہت کم تھا۔

مسمل یادی اور پانڈی کی کہانیوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ویدودو کا نیا دارالحکومت آباد کرنے کا یہ منصوبہ دو دھاری تلوار ہے، جہاں یہ ملازمت کے بہت سارے مواقع پیدا کر رہا ہے وہاں یہ مقامی لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔

ماہرین ماحولیات نے نئے دارالحکومت کی تعمیر کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کی رہائش کے نقصان کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے
Getty Images
ماہرین ماحولیات نے نئے دارالحکومت کی تعمیر کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کی رہائش کے نقصان کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے

پانچ پڑی معیشتوں میں شامل ہونے کا عزم

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مطابق جب سنہ 2014 میں صدر ویدودو پہلی بار اقتدار میں آئے تھے تو اُس وقت پرچیزنگ پاور پیریٹی (پی پی پی) کی بنیاد پر انڈونیشیا دنیا کی 10ویں سب سے بڑی معیشت تھا۔

مگر اب ایک دہائی بعد انڈونیشیا ساتویں نمبر پر آ چکا ہے۔

یہ تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک یعنی انڈونیشیا سنہ 2027 تک معاشی میدان میں روس سے آگے نکل جائے گا۔

رواں ماہ 14 فروری کو انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے ہیں اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق وزیر دفاع پرابوو سوبیانتو صدر بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔

پرابوو سوبیانتو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے اور موجودہ صدر ویدودو کے بیٹے اُن کی طرف سے نائب صدر کے امیدوار ہوں گے۔

انڈونیشیا کے 10 بڑے بینکوں میں سے ایک پرماتا بینک میں چیف اکانومسٹ کے عہدے پر تعینات جوسوا پاردیدے کہتے ہیں کہ ’صدر کا منصوبہ دستاویزات میں اچھا لگتا ہے اور یہ انڈونیشیا کو آئی ایم ایف کی پیش گوئی کے کافی قریب لا سکتا ہے۔‘

لیکن انڈونیشیا کے ارادے اس سے زیادہ بڑے ہیں۔ سنہ 2045 میں ملک کی آزادی کے 100 سال مکمل ہونے تک وہ دنیا کی ان پانچ بڑی معیشیتوں میں شامل ہونا چاہتا ہے جہاں آبادی کی فی کس آمدنی زیادہ ہے۔

لیکن اس کے لیے وزیر خزانہ سری ملیانی کے مطابق انڈونیشیا کی معیشت کو ہر سال چھ سے سات فیصد شرح نمو سے بڑھنا ہو گا۔ اس وقت یہ پانچ فیصد پر کھڑی ہے۔

Men drilling on a building site in Nusantara
Oki Budhi
اگر انڈونیشیا کو اپنے اقتصادی اہداف کو پورا کرنا ہے تو اس کی معیشت کو سالانہ 7 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے کی ضرورت ہے

’نِکل کا بخار‘

انڈونیشیا اپنے سیاحتی مقام بالی کی وجہ سے کافی مشہور ہے لیکن اب اس کی وجہ شہرت یہاں دنیا کے سب سے بڑے نِکل (ایک قسم کی سفید دھات) کے ذخائر بھی ہیں۔ نِکل نامی دھات الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کا ایک اہم جزو ہے۔

جب صدر ویدودو نے پہلی بار سنہ 2019 میں خام نکل کی برآمد پر پابندی لگائی تھی تو یورپی یونین نے عالمی تجارتی دارے (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں انڈونیشا کے خلاف مقدمہ کر دیا تھا۔

صدر ویدودو نے اُس وقت کہا تھا کہ وہ انڈونیشیا میں اس دھات کی پروسیسنگ کی قابلیت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، جسے ’ڈاؤن سٹریمنگ‘ کہا جاتا ہے۔

ایک غیر جانبدار تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ آف اکنامک فنانس (انڈیف) کے ایک مطالعے کے مطابق صدر کی ’نِکل پالیسی‘ کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے اور معیشت میں بڑھوتری ہوئی۔

لیکن خام نکل کو پگھلانے کے لیے انڈونیشیا چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس سارے عمل کے مستقبل پر بڑا سوالیہ نشان لگایا جاتا ہے، کیونکہ چین کی معیشت کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس سال چین کی معیشت کے بڑھنے کی رفتار 5.2 فیصد سے کم ہو کر 4.6 فیصد ہو جائے گی۔

صدر ویدودو پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ کھلی باہوں سے چینی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے زمینی تنازعات، صحت کے مسائل اور ماحول کی تباہی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم مائننگ ایڈویکیسی نیٹ ورک (جاٹام) کے کوآرڈینیٹر میلکی ناہار کہتے ہیں کہ ’نِکل کے بخار سے حکومت کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔‘

People watch the sunrise at Sanur beach on the Indonesian resort island of Bali on 6 February, 2024
Getty Images
بالی میں غروبِ آفتاب کا منظر

قوم کا ورثہ

انڈونیشیا میں 17000 چھوٹے بڑے جزائر ہیں جو تین ٹائم زونز میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ موجودہ دارالحکومت جکارتہ سطح سمندر بلند ہونے کے باعث ڈوب رہا ہے، لہذا ان تمام جزائر کا آپس میں رابطے میں رہنا انڈونیشیا کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔

جب سنہ 2023 میں دنیا کورونا وبا کے اثرات سے نکل رہی تھی تو اس وقت صدر ویدودو نے دارالحکومت کو منتقل کرنے کے قانون پر دستخط کیے تھے جس کی وجہ سے کچھ لوگ حیران بھی ہوئے تھے اور اس فیصلے پر تنقید بھی کی گئی تھے۔

چین سمیت کچھ ممالک نے نئے دارالحکومت میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی ’ٹھوس‘ چیز سامنے نہیں آئی۔

ایک غیر جانبدار تھنک ٹینک سینٹر آف اکنامک اینڈ لا سٹڈیز (سیلی اوس) کی نیلولہدیٰ کہتی ہیں ’اب تک بڑے عالمی سرمایہ کاروں سے ’نوسانتارا‘ (نئے دارالحکومت) میں سرمایہ کاری کروانا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔‘

صدر نے مختلف طریقوں سے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے سرمایہ دار پسند لیبر قانون متعارف کروائے جن کے بارے میں سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ یہ مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

صدر ویدودو اکتوبر میں اقتدار نئے صدر کو منتقل کریں گے اور اطلاعات کے مطابق وہ نوسانتارا کی تعمیر کو ہمیشہ کے لیے رہنے والے ورثے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

Indonesia's President Joko Widodo leaves a ground breaking ceremony for projects funded by private investors at the new national capital Nusantara in Penajam Paser Utara, Indonesia, on Thursday, 21 September 2023
Getty Images
صدر ویدودو ’نوسانتارا‘ کو قوم کے لیے ’تحفہ‘ سمجھتے ہیں

لیکن حکومت کی نیشنل انوویشن ریسرچ ایجنسی (برن) کے سیاسی محقق فرمان نور کا خیال ہے کہ ’یہ ایک داغدار ورثہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’کئی پہلوؤں سے گذشتہ دس برسوں میں کیسے ترقیاتی کاموں اور سیاسی طریقوں میں جمہوری اقدار دھندلے ہوئے، نوسانتارا اس کی عکاسی کرتا ہے۔‘

دوسری جانب اقتدار سمبھالنے والے سوبیانتو نے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ماؤں اور بچوں کے لیے مفت دودھ جیسی پالیسیوں کا وعدہ کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں سے بجٹ پر بہت وزن آئے گا اور پہلی ہی جانے والے صدر کے بڑے منصوبوں کی وجہ سے بہت خرچہ ہو رہا ہے۔

نیلولہدیٰ کہتے ہیں ’مفت خوراکیں اور متعدد پولیسیوں کی وجہ سے ریاست کا بہت بجٹ استعمال ہو گا اور اس سےملکی معیشت قرض تلے دب جاتی ہے۔‘

’دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے خواب کے باوجود اگر اگلی حکومت کی پالیسیاں ایسی ہی غیر ذمہ دارانہ رہیں تو میرے خیال سے 2029 تک قرضہ دگنا ہو جائے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.