’میں11 سال کی عمر میں پولیس کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوا کہ میری ماں کا قاتل میرے والد ہی ہیں‘

زیادہ تر بچے اپنی ماں کے اچانک غائب ہو جانے کی وجہ سے ابتر حالت میں ہوتے ہیں اور اپنے والد سے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن کولیئر کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ گویا ان کے جذبات تھم سے گئے تھے۔

میرا نام کولیئر لینڈری بوائل ہے۔

آپ کتنے سال کے ہیں؟

’میری عمر 12 سال ہے۔‘

آپ نے کہا کہ آپ 30 دسمبر کو قریب نو بجے سونے کے لیے گئے تھے۔ کیا اس رات کے دوران کچھ ایسا ہوا تھا جس سے آپ بیدار ہو گئے ہوں؟

’میں نے اپنی بہن کی چیخ سنی۔ پہلی بات جو میرے ذہن آئی وہ یہ تھی کہ کہیں میری ماں کے ساتھ کچھ غلط تو نہیں ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد، شاید دو تین منٹ بعد میں نے ایک تیز دستک سنی۔‘

کیا آپ ہمیں اس آواز کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

’وہ بہت تیز تھی۔‘

کولیئر نے اپنے سامنے لکڑی کی میز پر اپنے دونوں ہاتھ زور سے ایک ساتھ مارے۔

’پھر، تقریباً ڈیڑھ منٹ بعد، میں نے اس طرح کی ایک زوردار آواز سنی۔‘

کولیئر دونوں ہاتھوں سے دوبارہ میز پر مارتا ہے۔

’شاید اس سے بھی زیادہ تیز رہی ہو اور اس وقت میں گھبرا گیا تھا۔ میرا مطلب ہے، میں ڈر گیا تھا۔‘

اچھا، کیا آپ یہ جاننے کے لیے اٹھے کہ کیا ہوا تھا؟

’نہیں، میں نے نہیں اٹھا۔‘

کیا آپ جیوری کو بتا سکتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟

’کیونکہ میں اپنے والد سے بہت ڈرتا تھا اور ہمیشہ ڈرتا رہا ہوں۔‘

کولیئر کا یہ مکالمہ سنہ 1990 میں امریکہ کی ایک عدالت میں اس وقت سامنے آیا تھا جب ایک وکیل نے ان سے پوچھا تھا کہ اس رات کیا ہوا تھا جب لڑکے کی ماں قتل کر دی گئی تھی۔ اس وقت وہ 11 سال کا تھا لیکن اس نے اپنی والدہ کے قتل کے الزام میں اپنے والد کو جیل بھیج دیا۔

لیکن یہ کہانی اس سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔

شدت کے ساتھ طلاق کا مطالبہ

کولیئر اپنے والدین جان اور نورین بوئل اور اپنی بہن کے ساتھ اوہائیو کے ایک چھوٹے سے شہر مینسفیلڈ میں رہتا تھا۔

اس نے اپنا زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارا کیونکہ اس کے والد ان کی برادری میں ایک ممتاز اور معزز ڈاکٹر تھے اور ان پر کام کی دھن سوار رہتی تھی۔ یا کم از کم ان کے بیٹے کا یہی خیال تھا۔

جب وہ 11 سال کا ہوا تو کولیئر کو پتا چلا کہ یہ سچ نہیں تھا۔ اس کے والد اسے ایک دو مواقع پر دوسرے گھر لے گئے جہاں شیری نام کی ایک عورت اپنے بچوں کے ساتھ رہتی تھی اور آخری ملاقات میں اس نے اپنے والد کو اس عورت کو چومتے ہوئے دیکھا تھا۔

گھر واپس آنے پر کولیئر نے اپنی والدہ کو بتایا کہ اس ڈاکٹر کی ایک ’گرل فرینڈ‘ ہے کیونکہ اسے ویسا ہی لگا تھا۔

یہ جان بوئل کا شادی کے علاقہ پہلا غیر ازدواجی رشتہ نہیں تھا۔ نورین کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنے شوہر کے متعدد افیئرز کے بارے میں علم تھا اور اس نے اسے صرف اس شرط پر قبول کیا کہ وہ اپنے بچوں کو اس میں شامل نہیں کرے گا۔

کولیئر کی بات سن کر نورین نے فون اٹھایا، اپنے شوہر کو فون کیا، اس پر چیخنا شروع کر دیا اور طلاق کا پرزور مطالبہ کیا۔

یہ 1989 کا اواخر تھا اور جوڑے نے چھٹیاں ختم ہونے تک ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ پھر سنہ 1990 میں نورین ایک نئی زندگی شروع کرنے والی تھی۔

کولیئر نے بی بی سی کو بتایا: ’میرے والد پہلے سے زیادہ جارحانہ ہونے لگے اور مجھے کہنے لگے کہ وہ مجھے اور میری ماں سڑکوں پر رہنے پر مجبور کر دیں گے۔ انھوں نے ہماری پوری زندگی کو جہنم بنا دیا کہ ان کا ایک نیا خاندان تھا جو بہت بہتر حالت میں تھا۔ شیری کے بچے مجھ سے بہت بہتر حالت میں تھے۔‘

اب کولیئر 46 سال کے ہیں۔ انھیں یاد ہے کہ ایک بار ان کے والد انھیں ایک دکان پر لے گئے جہاں سے انھوں نے ایک نیلی ترپال خریدی، جسے انھوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

پھر ایک دن اس کے والد سبز بیرونی دری لے کر آئے جسے انھوں نے گھر کے پچھلے حصے میں لگا دیا۔

یہ خریداری معمولی لگ رہی تھی لیکن جلد ہی ان کی حقیقت سامنے آنے والی تھی۔

گارفیلڈ کے جسم میں فہرست چھپائی

جب نورین نے شادی توڑنے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے کولیئر کو اس کے والد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باتیں بتانی شروع کیں۔

وہ کہتے ہیں ’نومبر 1989 میں میری ماں نے مجھے سکول سے اٹھایا اور ایک چھوٹے سے ریستوراں میں لے گئیں۔ ہم گاڑی میں تھے اور میری ماں نے مجھ سے کہا: ’کولیئر، میں چاہتی ہوں کہ تم کچھ جانو۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ اور اگر میں کبھی ایسا کرتی ہوں اور آپ کے والد کہتے ہیں کہ آپ کو چھوڑ دیا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں نے چھوڑ دیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ آپ کے والد نے مجھے قتل کر ڈالا۔‘

اس کے بعد کولیئر نے اپنی ماں کے تمام دوستوں کے فون نمبروں کی فہرست بنائی اور انھیں اپنے سونے کے کمرے میں گارفیلڈ نامی کھلونے کی جلد میں چھپا دیا۔

30 دسمبر 1989 کو کولیئر اپنی بہن اور ماں کے ساتھ گھر پر تھا، اپنی دادی کے آنے کا انتظار کر رہا تھا، جو ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

ان کے والد دادی کو لائے اور چھوڑ کر چلے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ’وہ آخری بار تھا جب میں نے اپنی ماں کو دیکھا تھا۔‘

31 دسمبر 1989 کو کولیئر آدھی رات کو اس وقت بیدار ہوئے جب انھوں نے ایک چیخ سنی۔

اور انھوں نے ڈیڑھ دو منٹ کے وقفے سے دو بہت تیز دستکیں سنیں۔

ان دونوں آواز کے درمیان اس نے اپنے باپ کی سرگوشی سنی۔

کولیئر نے خود سے پوچھا کہ ’کیا میں اٹھ کر دیکھوں کہ کیا ہو رہا ہے؟ یا میں بستر پر ہی پڑا رہوں؟‘ پھر وہ بستر میں چھپے ہال میں آہستہ آہستہ ان کے قدموں کی آواز سنتے رہے اس وقت دیوار پر لگی بیٹ مین گھڑی کی طرف جب انھوں نے دیکھا تو صبح کا 3:18 کا وقت تھا۔

کولیئر نے مزید بتایا: ’میں لحاف کے نیچے جتنا ساکت رہ سکتا تھا رہا دروازے پر پاؤں کی آہٹ سنتا رہا۔ میں نے اپنا سر نیچے کر لیا اور میرے اندر کی ہر چیز جیسی کوئی روح ہو جو کہہ رہی ہو کہ چاہے کچھ ہو ’اوپر مت دیکھنا۔ اوپر مت دیکھنا۔‘

انھوں نے ایسا ظاہر کیا جیسے وہ گہری نیند میں سو رہے ہیں۔ انھیں جاتے ہوئے سنتا رہا۔ وہ خاموشی کے ساتھ لیٹا رہا اور پھر سو گیا۔

بیدار ہونے کے بعد۔۔۔

جب وہ بیدار ہوئے تو سورج نکل چکا تھا۔ وہ سیدھا اپنی ماں کے کمرے کی طرف بھاگے۔

بستر کی چادریں خراب تھیں اور اس بات نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی کیونکہ نورین جاگنے کے فوراً بعد ہی بستر درست کر دیتی تھی۔

انھوں نے نیچے جا کر دیکھا تو جان صوفے پر کمر کے گرد تولیہ باندھے بیٹھے تھے۔ وہ ابھی شاور لے کر باہر نکلے تھا۔

انھوں نے پوچھا: ’ماں کہاں ہیں؟‘

ان کے والد نے اطمینان سے ان کی طرف دیکھا اور جواب دیا: ’کولیئر، ماں نے تھوڑی چھٹی لی ہے۔‘

’اسی وقت مجھے پتا چل گیا کہ ان کے ساتھ کچھ ہو گيا ہے۔‘

جان نے بے دھڑک سوال کرنا شروع کر دیا تو پھر رات کو کیسا جھگڑا ہو رہا تھا، ماں ان پر کیوں چیخ رہی تھیں اور ان کی محبوبہ، پیسے اور طلاق کے بارے میں کیوں بات کر رہی تھی۔

اور وہ آوازیں کیا تھیں جو میں نے آدھی رات کو سنی تھی؟

تمہاری ماں نے اپنا پرس مجھ پر پھینک کر مارا تھا تو وہ پرس کی دیوار سے ٹکرانے کی آواز تھی جو تم نے سنی ہو گی۔

دو بار؟

ہاں، ہاں، وہی تم نے سنا، کولیئر۔

اسی لمحے دادی نمودار ہوگئیں تو جان نے انھیں بتایا کہ نورین لڑائی کے بعد چلی گئی ہیں اور کہا کہ وہ پولیس کو نہیں بلانے والے ہیں۔

انھوں نے کہا: ’گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ تمہاری ماں واپس آجائے گی۔ وہ پہلے بھی ایسا کر چکی ہے۔‘

وہ جاسوس جس نے لڑکے کی بات پر یقین کیا

کولیئر کو یاد نہیں آیا کہ اس سے پہلے ان کی ماں کبھی گھر سے گئی ہو اور انھیں اپنے باپ پر یقین نہیں تھا۔

انھوں نے کارڈ لیس فون اٹھایا، اپنے کمرے کی طرف بھاگے، اور گارفیلڈ کے اندر سے فون نمبروں کی فہرست تلاش کی۔ وہ خود کو باتھ روم میں بند کر کے کال کرنے لگے۔

انھوں نے نورین کے دوستوں کو بتایا کہ ’میرے والد نے مجھ سے کہا کہ میں پولیس کو کال نہیں کر سکتا، لیکن آپ پولیس کو کال کر سکتے ہیں۔‘

پولیس گھر پہنچی تو دادی نے دروازہ کھولا۔ انھیں دیکھ کر وہ پاگل ہو گئیں۔

انھوں نے ملامت کرتے ہوئے کہا: ’تمہارے والد نے تم سے کہا تھا کہ پولیس کو نہ بلاؤ!‘

لڑکا ایک ایجنٹ کو ایک طرف کھینچ کر لے جانے میں کامیاب ہوا اور اس سے کہا: ’میری ماں کو کچھ ہوا ہے۔ میں اپنے والد پر ذرا بھی بھروسہ نہیں کرتا۔‘

پہلے تو انھوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن ان کے اصرار کی بدولت لاپتہ افراد کی رپورٹ درج کرائی گئی۔

نئے سال کے دن ڈیوڈ میسمور نامی ایک جاسوس نے نورین کی گمشدگی کی رپورٹ پر کام کرنا اور اس کے ارد گرد چھان بین شروع کر دی۔

تو ڈیوڈ میسمور کو گھر دکھایا گیا۔

اس وقت تو کولیئر کے والد جا چکے تھے، دادی گھر پر تھی جو پریشان ہو کر اپنے بیٹے کو فون کرنے کچن میں چلی گئیں۔

کولیئر کے لیے یہی وہ وقت تھا۔

اس نے جاسوس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا اس کی ماں اسے کبھی نہیں چھوڑیں گی اور رابطہ کرنے کے لیے اس کا کارڈ اور نمبر طلب کیا۔

’کل میں سکول جا رہا ہوں، وہیں سے میں آپ کو فون کروں گا کیونکہ میں یہاں بات نہیں کر سکتا۔‘

زیادہ تر بچے اپنی ماں کے اچانک غائب ہو جانے کی وجہ سے ابتر حالت میں ہوتے ہیں اور اپنے والد سے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن کولیئر کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔

گویا ان کے جذبات تھم سے گئے تھے۔

جاسوس سے رابطہ

اگلے دن جب کولیئر سکول پہنچے تو وہ براہ راست پرنسپل کے دفتر گئے اور میس مور کے کارڈ پر موجود نمبر پر کال کرنے کو کہا۔

جانچ کرنے والے افسر ڈیوڈ کار ڈرائیو کرتے ہوئے سکول پہنچے جہاں کولیئر نے انھیں وہ سب کچھ بتایا جو انھیں معلوم تھا۔

کولیئر نے کہا کہ ’ڈیو، جب میں گھر پہنچوں گا تو میں الماریوں اور تہہ خانے میں دیکھوں گا، ہو سکتا ہے مجھے ماں کی لاش مل جائے۔‘

’میں اپنی ماں کا بیگ تلاش کرنے جا رہا ہوں۔ اگر وہ جانے والی تھیں تو انھیں بیگ لے جانا چاہیے تھا اور میں اپنے والد کے رویے پر ایک باز کی طرح نظر رکھوں گا۔‘

وہ ننھا جاسوس کولیئر بن چکا تھا۔

میس مور نے اس پر یقین کیا اور اگلے چند ہفتوں تک تقریباً روزانہ کولیئر کے گھر جاتا رہے، لیکن اسے کولیئر کے والد سے بات کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا کیونکہ انھوں نے پولیس سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بہر حال اس پورے عرصے میں، کولیئر جاسوس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے اور تفتیش میں ان کی مدد کرتا رہے۔

لیکن جب جاسوس نے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی ہی پریشانیوں میں گھر گئے۔

چونکہ جان بوئل امیر اور بااثر تھا اس لیے پولیس محکمے میں ڈیوڈ کے باس نے انھیں اس کیس کو بھول جانے کا حکم دیا۔

تاہم وہ سوچتا رہے: ’یہ بچہ کچھ جانتا ہے۔‘

دو تصاویر جو میل نہیں کھا رہی تھیں

ولیئر نے بتایا: ’میرے والد نے مجھ سے کہا، کیا تم میرے ساتھ میرے دفتر آنا چاہتے ہو؟ میں کچھ کاغذات دیکھنے جا رہا ہوں، میرے ساتھ چلو۔ اور میں نے سوچا، ٹھیک ہے، میں انھیں اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گا۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں: ’واپسی پر، ہم ایک گیس سٹیشن پر رکے۔ میرے والد گیس سٹیشن میں داخل ہوئے تو میں نے اپنی گاڑی کی تلاشی لی۔ مجھے وہاں پلاسٹک میں دو تصاویر لپٹی ملیں۔ اس میں سے ایک تصویر ایک گھر کی تھی جو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اور دوسری ان کی گرل فرینڈ یا محبوبہ کی جس میں وہ دو بچوں کے ساتھ ایک آتش دان کے سامنے بیٹھے تھے۔‘

کولیئر نے میس مور کو تصاویر کے بارے میں بتایا۔

ان تصاویر سے جاسوس کو یہ معلوم کرنے میں مدد ملی کہ مینس فیلڈ سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ایری، پنسلوانیا کے قصبے میں ایک نیا طبی مرکز قائم کرنے کے علاوہ، جان بوئل نے وہاں ایک نیا گھر بھی خریدا تھا اور نورین کے غائب ہونے سے عین پہلے اس میں منتقل ہو گئے تھے۔

میس مور نے ریئل سٹیٹ ایجنٹ سے بھی رابطہ کیا جس نے فروخت میں مدد فراہم کی تھی۔ انھوں نے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی مشتبہ چیز دیکھی ہے؟

ایجنٹ نے انھیں بتایا کہ کولیئر کے والد اس پراپرٹی پر جانے کی جلدی میں تھے اور انھوں نے پوچھا تھا کہ تہہ خانے کے نئے فرش کے نیچے کیا ہے اگر وہ اسے نیچے کرنا چاہیں تو کیسے کریں گے۔

تفتیش تیز ہو رہی تھی اور کولیئر کے والد اسے محسوس کر سکتے تھے۔

کولیئر نے کہا: ’وہ مجھے بٹھاتے اور کہتے ’تم جانتے ہو کولیئر کہ ماں کے لیے ہمیں ایسی حالت میں چھوڑنا بہت مشکل تھا اور میں جانتا ہوں کہ اس کا تم پر بہت اثر ہوا ہے، اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ ہم اس کے بغیر ہیں، میں اسے بہت یاد کرتا ہوں، ہم اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔‘

’میری اگلے ہفتے فلوریڈا میں ایک میڈیکل کانفرنس ہونے والی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں باپ بیٹے کو ایک ساتھ سفر کرنا چاہیے۔‘

کوليئر نے محسوس کیا کہ یہ اچھا خیال نہیں ہے۔

چنانچہ اس نے اگلے دن سکول سے میس مور کو فون کیا اور اس سے کہا کہ ’والد مجھے فلوریڈا لے جانا چاہتے ہیں اور میں نہیں جانا چاہتا ہوں۔‘

’میں ڈرا ہوا ہوں، بہت خوفزدہ۔‘

نیلا کینوس اور سبز قالین

کولیئر کی ماں کے لاپتہ ہونے کے چار ہفتوں سے بھی کم عرصے بعد 24 جنوری کو کولیئر اور اس کی گود لی ہوئی بہن کو ان کے گھر سے لے جایا گیا۔

سماجی خدمت کے ملازمین کے ساتھ میس مور موجود تھے۔

ماں کی لاش کی تلاش میں تفتیش کاروں نے گھر کو ادھیڑ دیا۔ انھوں نے ایری کے گھر کی بھی تلاشی لی۔

اگلے دن، تفتیش کاروں کو نورین بوئل کی لاش ملی۔

کولیئر کی والدہ بالکل نئے گھر کے تہہ خانے کے نیچے دبی ہوئی تھیں۔

’استغاثہ نے مجھے بتایا، آپ کو اپنے والد کے خلاف گواہی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور میں نے کہا کہ میں اپنی جان کی بازی لگا دوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا تھا کہ اسے سزا سنائی جائے کیونکہ میں جانتا تھا کہ حقیقت کیا ہے۔‘

نیلی ترپال جو کوليئر کے والد نے اس کے ساتھ خریدی تھی اسی میں نورین کی لاش لپٹی ہوئی تھی۔

ان کے مینسفیلڈ گھر کے پچھلے پورچ پر سبز قالین تہہ خانے کے فرش پر تازہ سیمنٹ کو ڈھانپنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔

بالآخر جان بوئل کو سنگین قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔

بالغ ہونے کے بعد اس لڑکے نے اپنے والد کا آخری نام ترک کر دیا اور اپنا نام کولیئر لینڈری رکھ لیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.