ڈھائی کروڑ پاؤنڈ کا فراڈ کرنے والے نوجوان کی وہ معمولی غلطی جو اسے قانون کی گرفت میں لے آئی

ایلیٹ اب لوگوں کو فراڈ سے بچانے کے لیے بطور ماہر کام کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی کہانی بی بی سی سکاٹ لینڈ کی ایک ڈاکیومنٹری ’کنفیشنز آف آ ٹین ایجر فراڈسٹر‘ میں بیان کی ہے۔

ایلیٹ کاسترو صرف 16 برس کے تھے جب انھوں نےگلاسگو کے ایک کال سینٹر میں ملازمت کے دوران پہلی مرتبہ کسی کو دھوکا دے کر ان کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات حاصل کیں۔

جلد ہی وہ ایک پرتعیش زندگی جی رہے تھے، جس میں فرسٹ کلاس فلائٹس اور مہنگی گھڑیاں بھی شامل تھیں۔

اس نوجوان نے آگے جا کر لوگوں کو دھوکا دے کر 25 ملین پاؤنڈ حاصل کیے لیکن بعد میں وہ ایڈنبرا میں واقع ایک ڈپارٹمنٹل سٹور کے ٹوائلٹ سے گرفتار کیے گئے۔

ایلیٹ اب لوگوں کو فراڈ سے بچانے کے لیے بطور ماہر کام کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی کہانی بی بی سی سکاٹ لینڈ کی ایک ڈاکیومنٹری ’کنفیشنز آف آ ٹین ایجر فراڈسٹر‘ میں بیان کی ہے۔

اس ڈاکیومینٹری میں ایلیٹ کے عروج کو دکھایا گیا ہے کہ کیسے سکول کو ادھورا چھوڑنے والا ایک نوجوان، جس کے پاس کوئی تعلیمی قابلیت بھی نہیں تھی، اس قابل ہو گیا کہ وہ نیو یارک کے ایک شراب خانے میں اپنے دوستوں کے لیے ایک ہزار ڈالر کی شراب تک خریدنے لگا۔

کاسترو کی عمر اب 42 برس ہو چکی ہے اور وہ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں کہ کیسے انھوں نے کال سینٹر فون کرنے والے ایک گاہگ کو دھوکا دیا۔

جب گاہک نے انھیں اپنا آرڈر لکھوایا تو کاسترو نے انھیں بتایا کہ ان کا کریڈٹ کارڈ کام نہیں کر رہا۔ کاسترو نے گاہک کو اس بات پر قائل کر لیا کہ ان کے ساتھ فون پر دوسری طرف بینک کا نمائندہ موجود ہے جسے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات درکار ہیں۔

کچھ سیکنڈز بعد کاسترو کے پاس اس گاہک کے بینک اکاؤنٹ کی تمام تفصیلات موجود تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ میرے لیے کوئی اطمینان بخش لمحہ نہیں تھا۔ وہ صرف کچھ ایسا تھا جو میں نے پہلی بار کیا تھا اور پھر میں نے سوچا کہ کیا میں ایسا دوبارہ بھی کر سکتا ہوں؟‘

کاسترو شروع میں متوازن انداز میں پیسے خرچ کیا کرتے تھے لیکن پھر اچانک اس میں تیزی آنے لگی۔

انھوں بی بی سی سکاٹ لینڈ ریڈیو کو بتایا کہ ’وہ پاگل کر دینے والے پانچ برسوں کی ابتدا تھی اور یہ سب 16 برس کی عمر سے 21، 22 برس کی عمر تک جاری رہا۔

’جب پہلی مرتبہ میرے ہاتھ کسی کا کریڈٹ کارڈ لگا تو میں نے اس سے سی ڈیز خریدیں، بال کٹوائے اور ٹی شرٹس خریدیں۔ اس وقت اندازہ ہی نہیں تھا کہ آگے جا کر یہ ایک قسم کے پاگل پن میں بدل جائے گا۔‘

ایلیٹ 1982 میں سکاٹ لینڈ کے شہر ابرڈین میں پیدا ہوئے تھے اور 1998 میں اپنے خاندان کے ہمراہ گلاسگو منتقل ہونے سے قبل آٹھ سکول تبدیل کر چکے تھے۔

فراڈ، گلاسگو، جرائم
Getty Images
کاسترو شروع میں متوازن انداز میں پیسے خرچ کیا کرتے تھے لیکن پھر اچانک اس میں تیزی آنے لگی

وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک خواب دیکھنے والے شخص ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے کال سینٹر میں ملازمت حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر 18 برس بتائی تھی، جبکہ ان کی اصل عمر 16 برس تھی۔

’میرے دماغ میں بس یہ تھا کہ مجھے ایک زبردست زندگی گزارنی ہے۔‘

پھر ان کے مجرمانہ پیشے نے انھیں ایک پرتعیش زندگی دی جس میں بہترین چھٹیاں، فائیو سٹار ہوٹلز، شاندار پارٹیاں اور لیموزین گاڑیوں کی سواری بھی شامل تھی۔

ایسے ہی ایک دورے کے دوران 1999 میں کاسترو نے لندن میں 300 پاؤنڈ کا گوچی کا بیلٹ بھی خریدا تھا۔ ان کے مطابق اس بیلٹ کی قیمت ان کی کال سینٹر کی ایک ہفتے کی تنخواہ سے زیادہ تھی۔

اس کے بعد کاسترو نے آٹھ ہزار ڈالر نیو یارک جانے کے لیے فرسٹ کلاس فلائٹ پر خرچ کیے۔ وہاں وہ پلازہ ہوٹل میں رُکے تھے جس فلم ’ہوم الون‘ میں بھی دکھایا گیا تھا۔

انھوں نے نیو یارک کے تین روزہ دورے کے دوران تقریباً 15 ہزار ڈالر خرچ کیے۔

کاسترو کہتے ہیں کہ: ’میری زندگی میں ایک عام دن ایسا ہوتا تھا کہ میں سو کر اٹھتا تھا، شاپنگ پر جاتا تھا، چیزیں خریدتا تھا، شراب پیتا تھا اور واپس ہوٹل ہو جاتا تھا۔ اگلے دن دوبارہ اٹھتا تھا اور وہی سب کرتا تھا جو میں نے پچھلے روز کیا تھا۔‘

سنہ 2001 میں انھوں نے جرمنی، فرانس اور سپین کے دورے بھی کیے۔

کاسترو کی نوجوانی میں ان کا قانون کے رکھوالوں سے بھی پالا پڑتا رہا۔ سنہ 2001 میں انھوں نے لنکاسٹر میں نوجوان جرائم پیشہ افراد کے لیے قائم ایک انسٹیٹیوٹ میں بھی چار مہینے گزارے۔

کچھ مہینوں بعد انھیں ایڈنبرا کے بالمورل ہوٹل سے گرفتار کیا گیا اور انھیں مانچیسٹر لے جایا گیا جہاں انھیں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

اس سزا کے دوران انھیں جیل کی لائبریری میں نوکری دے دی گئی جہاں وہ انٹرنیٹ پر جو چاہیں پڑھ سکتے تھے۔

اس ریسرچ کے ذریعے وہ رہا ہونے کے بعد انٹرنیٹ کیفے کا استعمال کرنا بھی سیکھ گئے اور پھر وہ انٹرنیٹ کیفے سے چوری شدہ کریڈٹ کارڈز کے ذریعے اپنی فلائٹیں بُک کیا کرتے تھے۔

سنہ 2002 میں انھیں کینیڈا میں گرفتار کیا گیا تھا جہاں انھیں 87 دن جیل میں گزارنے پڑے اور پھر 2003 میں انھیں کینیڈا سے بےدخل کر دیا گیا۔

ان کی بین الاقوامی جرائم کی کہانی کا اختتام بھی بالآخر اسی برس ہوا جب انھیں ایڈنبرا کے ہاروے نکلز ڈپارٹمنٹل سینٹر سے گرفتار کیا گیا۔

کاسترو کہتے ہیں کہ: ’مجھے محسوس ہونے لگا کہ مجھے جو کرنا تھا وہ میں کر چکا ہوں، زندگی میں پہلی مرتبہ میں نئے دوست بنانے لگا تھا۔‘

’لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں نئے دوستوں کو بتا نہیں سکتا تھا کہ میں دراصل ہوں کون، یہ صورتحال میرے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکی تھی۔‘

کاسترو کہتے ہیں کہ ’میں اکثر سوچتا ہوں کہ میرے دماغ میں شاید کہیں تھا کہ مجھے اب رُک جانا چاہیے۔‘

کاسترو کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟

اس دن کاسترو نے ایک ڈپارٹمنٹل سٹور سے دو ہزار پاؤنڈ کی خریداری کی لیکن یہ کریڈٹ کارڈ بھی ان کے نام پر رجسٹرڈ نہیں تھا۔

ریسیپشن پر بیٹھی ہوئی خاتون نے کارڈ کمپنی فون کیا اور وہاں سے رقم کی منتقلی کی اجازت بھی مل گئی۔ اچانک ریسیپشن پر بیٹھی خاتون کو کوئی شک پڑا اور انھوں نے دوبارہ بینک کال کی۔

کاسترو کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کریڈٹ کارڈ کے حقیقی مالک سے رابطہ کیا اور انھوں نے تصدیق کی کہ ان کا کریڈٹ کارڈ فراڈ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ میں نے انتہائی بےوقوفی کی اور ایک گھنٹہ بیتنے سے پہلے ہی اس سٹور میں واپس آ گیا، اس ہی لمحے سب کچھ ختم ہو گیا۔‘

’میں فوراً ہی بیت الخلا چلا گیا اور جب دروازہ کھولا تو وہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک پولیس افسر موجود تھا اور پھر وہیں سے ہی میرے اختتام کی ابتدا ہوئی۔‘

اسی برس کاسترو نے مڈل سیکس میں عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ اب تک 73 ہزار پاؤنڈ کے فراڈ کر چکے ہیں۔ اس کے بعد انھیں دو برس کی قید کی سزا سُنا دی گئی۔

کاسترو بتاتے ہیں کہ انھوں نے کریڈٹ کارڈ کمپنیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان عدم تعاون سے فائدہ اُٹھایا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر ان پانچ برسوں کے دوران کریڈٹ کارڈ کمپنیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان اچھا تعاون ہوتا تو شاید مجھے جلدی روک لیا جاتا۔‘

کاسترو کی زندگی میں آنے والی تبدیلی

آج کاسترو ایک بدلے ہوئے شخص ہیں، جنھیں اپنے ماضی پر پچھتاوا ہے اور وہ اب کبھی بھی کسی چوری یا فراڈ کو گلیمرائز نہیں کریں گے۔

اب وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کر رہے ہیں تاکہ دھوکے بازوں اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے فراڈ کرنے والوں کو روکا جا سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے فراڈ کرنا شروع کیا تو میں نے کبھی ان لوگوں کے بارے میں نہیں سوچا، میں کبھی ان لوگوں سے ملا نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ درست تھا۔‘

تقریباً 20 برس گزر جانے کے بعد کاسترو سمجھتے ہیں کہ وہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کو درست کر رہے ہیں۔

’میں کوئی بہانے نہیں بنا رہا لیکن وہ سب ایک لمبے عرصے پہلے ہوا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ میں اب میں بہت کچھ ٹھیک کر چکا ہوں۔‘

کاسترو کے مطابق: ’خوش قسمتی سے اب میں اس پوزیشن میں ہوں کہ مالی اداروں، سفری اور کاروباری کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔‘

’میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اب انڈسٹری میں ایک بھروسہ مند معاون تصور کیا جاتا ہے جو کہ اچھی بات ہے۔ میری زندگی ایک دلچسپ سفر ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.