پیرس اولمپکس 1924: روشنیوں کے شہر نے ایک صدی قبل اولمپکس کو کیسے تبدیل کیا

فرانس کا دارالحکومت پیرس رواں برس اولمپکس کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ پیرس ان مقابلوں کا میزبان ہے اورپہلی بار اسے یہ میزبانی ٹھیک 100 برس قبل ملی تھی۔ جانیے کہ پیرس میں اس ایک صدی میں کیا کچھ بدلا۔
Various images of athletes at the 1924 Paris Olympics
Getty Images

پیرس 2024 اولمپکس، فرانس کے دارالحکومت میں آخری بار ان کھیلوں کے مقابلے کی میزبانی کو 100 سال مکمل ہو چکے ہیں، اور تب سے اب تک بہت کچھ بدل چُکا ہے آرٹ کے مقابلوں سے لے کر سپرنٹ تک، جس کے بعد ’چیریٹس آف فائر لیجنڈ‘ سامنے آئی، 1924 کے اولمپکس بہت سے لوگوں کے لیے یہ مقابلے پہلے اور بہت سوں کے لیے یہ آخری ثابت ہوئے۔

تقریباً 3,089 ایتھلیٹس نے 17 کھیلوں کے 126 مقابلوں میں حصہ لیا لیکن اب ایک صدی کے بعد کھیلوں میں بہت وسعت آ چکی ہے۔ پیرس 2024 میں 32 کھیلوں میں 329 تمغوں کے مقابلے ہوں گے۔

بہت سے کھیلوں کے مقابلوں کو اس بڑے ایونٹ سے نکال دیا گیا ہے جبکہ اور بہت سے دوسرے کھیل اب اس میگا سپورٹس ایونٹ کا حصہ ہیں۔ ریکارڈ بار بار توڑے گئے ہیں، اور ٹیکنالوجی اور سہولیات نے پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔

سنہ 1924 کے کھیل آخری بار بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے صدر پیئر ڈی کوبرٹن کی سربراہی میں منعقد کیے گئے تھے یہ وہ نام تھا کہ جنھوں نے 19 ویں صدی کے آخر میں کھیلوں کو دوبارہ زندہ کیا تھا۔ کھیلوں کی فیڈریشنوں نے کھیلوں کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا تھا۔

مقابلوں کے قواعد کو معیاری بنایا گیا اور بہت سے ممالک میں اولمپک تنظیموں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوالیفکیشن کا عمل متعارف کرایا تھا کہ بہترین کھلاڑیوں کو مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔

اگرچہ 2024 کے اولمپکس اپنے پیش رو سے بہت دور نظر آئیں گے کیونکہ پیرس اپنے کھیلوں کے عظیم کیلنڈر میں حصہ لینے کے لیے 10،500 ایتھلیٹس کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی پینٹ برش نہیں ہے سنہ 1924 کے ایڈیشن نے اس عالمی منظر نامے کی طرف اشارہ کرنے میں مدد کی جسے ہم آج کھیلوں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔

سنہ 1924 کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کھیلوں کی افتتاحی تقریب دیکھنے کے لیے 19،052 شائقین اولمپک سٹیڈیم میں جمع ہوئے تھے، جسے سٹیڈ ڈی کولمبس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پیرس کے شمال مغربی مضافات میں واقع سٹیڈیم کی کھیلوں کے لیے تزئین و آرائش کی گئی تھی اور یہ ٹریک اینڈ فیلڈ، فٹ بال اور رگبی مقابلوں کا مقام بھی تھا۔

100 سال مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ 2024 کی افتتاحی تقریب ایک غیر معمولی، تفریحی اور انوکھا جشن ہونے والی ہے۔

کشتیوں کا ایک سلسلہ پیرس کے راستے سین کے 6 کلومیٹر کے حصے سے گزرے گا، جس میں ہر اولمپک سکواڈ اپنی اپنی کشتی پر سوار ہوگا، جو شہر کے مشہور مقامات سے گزرتے ہوئے اپنے انداز میں پہنچے گا۔

حالیہ اولمپکس کے اعداد و شمار کے مطابق اس تقریب کو دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب لوگ اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر دیکھیں گے۔ ایک صدی سے کیا فرق پڑتا ہے۔

سنہ 1924 میں مجموعی طور پر چھ لاکھ 25 ہزار تماشائی اس تقریب کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ اس موسم گرما میں 15 ملین سے زیادہ کی توقع کی جا رہی ہے۔

The 1924 Games were the first to have an Olympic Village, with a number of cabins built near the stadium to accommodate visiting athletes.
Getty Images
1924 کے کھیلوں میں پہلا اولمپک ولیج تھا جس میں مہمان کھلاڑیوں کی رہائش کے لیے سٹیڈیم کے قریب متعدد کیبن بنائے گئے تھے۔

اولمپکس کا ابتدائی منظر

اولمپکس ویلیج

پہلی بار 1924 میں ان کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی اور ایتھلیٹس یہاں قیام کی غرض سے بنائے جانے والے اولمپک ولیج میں ایک ساتھ رہنے کا موقعہ ملا۔ اولمپکس سٹیڈیم کے قریب تعمیر کی جانے والی اس رہائش گاہ میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے فلیٹس کی قطاریں تھیں اور اس جگہ پر ایک پوسٹ آفس، نیوز ایجنٹ، بیورو ڈی چینج، ہیئر ڈریسنگ سیلون اور ایک ریستوراں تھا۔

میڈیا کوریج

1924 کے کھیل ریڈیو پر براہ راست نشر ہونے والے پہلے کھیل بھی تھے۔ کھیلوں کی کوریج کے لیے سرکاری طور پر 724 صحافیوں کو کام کرنے کا موقعہ ملا تھا جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک سے آئے تھے جو کھیلوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عالمی دلچسپی کا ثبوت تھا۔

Edmond Dehorter, sometimes referred to as ‘the unknown speaker’ and later as the ‘father of sports commentary’, commentated on the Games for Radio-Paris.
Getty Images
ایڈمنڈ ڈیہورٹر جنھیں بعض اوقات ’نامعلوم مقرر‘ اور بعد میں ’کھیلوں کی کمنٹری کا بادشاہ‘ کہا جاتا ہے، نے ریڈیو پیرس کے کھیلوں پر تبصرہ کیا۔

اولمپک مقامات

1924 کے اولمپک سٹیڈیم میں بعد میں فٹ بال کے 1938 کے ورلڈ کپ کا فائنل بھی منعقد کیا۔ تزئین و آرائش کے بعد، اسی جگہ کو موسم گرما کے کھیلوں میں ہاکی کے مقابلوں کی میزبانی کے لیے استعمال کیا گیا۔

100 سال پہلے کھیلوں کے لیے کئی دیگر مقامات خاص طور پر تعمیر کیے گئے تھے جیسے ایک نیا آبی سٹیڈیم اور ٹینس کورٹ۔

2024 میں تیراکوں کے تربیتی مقام کے طور پر استعمال ہونے والا پسین ڈیس ٹوریلس پہلا 50 میٹر اولمپک پول بن گیا۔ اس کی گلیوں کو کارک فلوٹس سے نشانات لگایے گئے تھے۔

2024 کے لیے صرف دو نئے مقامات تعمیر کیے گئے ہیں کیونکہ سٹی آف لائٹ اپنے موجودہ مقامات کو استعمال کرنا چاہتا ہے، جس میں مشہور مقامات کو واقعات کے پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ کھیلوں کے عارضی سٹیج بنائے جا رہے ہیں، جن میں سے ایک ایفل ٹاور میں ہے جس میں بیچ والی بال کی نمائش کی جائے گی۔

اختتامی تقریب

1924 کے کھیلوں کی اختتامی تقریب آج کے کھیلوں سے مماثلت رکھنے والی پہلی تقریب تھی۔ اس میں مقابلہ کرنے والے ممالک کو تمغوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ چار پرچم لہرائے گئے بین الاقوامی اولمپک کمیٹی، فرانس، یونان جنھوں نے 1896 میں افتتاحی جدید کھیلوں کا انعقاد کیا تھا اور 1928 کے میزبان نیدرلینڈز۔

آئرلينڈ

آئرلینڈ کو پیرس 1924 کے لیے ایک آزاد حریف ملک کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا تھا، جس نے اولمپک کھیلوں میں پہلی بار شرکت دی تھی۔

سرمائی اولمپکس

پیرس اولمپکس کے تعاون سے 25 جنوری اور 5 فروری 1924 کے درمیان چیمونکس میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں کو بعد میں افتتاحی سرمائی اولمپکس کے طور پر نامزد کیا گیا۔ ان کھیلوں میں 16 ممالک کے ایتھلیٹس نے 16 شعبوں میں حصہ لیا جن میں کرلنگ، بوبسلنگز، فگر اور سپیڈ سکیٹنگ اور سکیئنگ شامل ہیں۔

Austrian figure skater Herma Planck-Szabo during the 1924 Winter Olympics in Chamonix, France, in January 1924
Getty Images
آسٹریا کی ایتھلیٹ ہرما پلانک زابو

آرٹ مقابلوں کو اولمپک پروگرام کا حصہ بنایا گیا جس میں فن تعمیر، مجسمہ سازی، ادب، مصوری اور موسیقی میں تمغے دستیاب تھے۔

پیرس سے ہالی ووڈ تک: ’چیریٹس آف فائر لیجنڈ‘

Scottish athlete Eric Liddell is paraded by fellow students around Edinburgh University after returning victorious from the 1924 Summer Olympics.
Getty Images
سکاٹش ایتھلیٹ ایرک لڈل کو 1924 کے سمر اولمپکس سے فاتح واپس آنے کے بعد ایڈنبرا یونیورسٹی کے آس پاس ساتھی طالب علموں نے انھیں کندھوں پر اُٹھا کر اُن کا استقبال کیا۔

1924 کے اولمپکس نے آسکر جیتنے والی فلم چیرتھس آف فائر کے لیے کے موضوع فراہم کیا۔ سنہ 1981 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں برطانوی سپنرز ہیرالڈ ابراہمز اور ایرک لڈل کے لیجنڈ اور اولمپک گولڈ میڈل کو دکھایا گیا تھا۔

ابراہمز نے 100 میٹر کے فائنل میں 10.6 سیکنڈ میں سونے کا تمغہ جیتا اور چھ کھلاڑیوں کے فائنل میں چار مضبوط امریکی حریفوں کو شکست دی، جن میں 1920 کے گولڈ میڈلسٹ چارلی پیڈک بھی شامل تھے۔

ابراہمز نے برطانیہ کو 4×100 میٹر ریلے میں چاندی کا تمغہ جیتنے میں بھی مدد کی۔

Following his two Olympic medals at the 1924 Games, Abrahams was forced to retire one year later when he broke a leg. He later turned to journalism and became an Olympics commentator for BBC radio
Getty Images
1924 کے مقابلوں میں اپنے دو اولمپک تمغوں کے بعد، ابراہمز کو ایک سال بعد ریٹائرمنٹ پر مجبور ہونا پڑا جب ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ بعد میں انھوں نے صحافت کا رخ کیا اور بی بی سی ریڈیو کے لیے اولمپکس کمنٹیٹر بن گئے۔

ٹیم کے ساتھی لیڈیل نے مذہبی بنیادوں پر 100 میٹر دوڑ میں حصہ نہیں لیا تھا اور اس سال کے اوائل میں انھیں معلوم ہوا تھا کہ کُچھ مقابلے اتوار کے روز ہونے ہیں جو مسیحیوں کے آرام اور عبادت کے دن ہوتا ہے۔

200 میٹر دوڑ کے بعد جہاں لڈیل نے کانسی کا تمغہ جیتا اور ابراہمز چھٹے نمبر پر رہے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ 100 میٹر دوڑ سے محروم رہنے والے اس مختصر دوڑ میں اپنے ہم وطن کا مقابلہ کرسکتے تھے اور سونے کا تمغہ جیت سکتے تھے اگر وہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر اس سے باہر ہونے کا فیصلہ نہ کرتے۔

تاہم، لڈیل کے پاس اب بھی ایک اور موقع تھا، اور وہ 400 میٹر دوڑ کا تھا۔

1945 میں چین میں جاپانی زیرِ انتظام حراستی کیمپ میں مرنے سے قبل اپنی بقیہ زندگی مشنری کاموں کے لیے وقف کرنے والے لڈیل نے 400 میٹر کے فائنل کے لیے پیرس میں اپنے آخری موقع کا فائدہ اٹھایا۔

سخت محنت کرتے ہوئے لڈیل نے 47.6 سیکنڈ کا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے سونے کا تمغہ جیتا جس نے سب سے مشہور اولمپک کہانیوں میں سے ایک کو جنم دیا۔

’چیریٹس آف فائر لیجنڈ‘ نے اکیڈمی ایوارڈز میں چار بار کامیابی حاصل کی جس میں وینگلیس کی شاندار کمپوزیشن کے لیے بہترین فلم اور بہترین اوریجنل میوزک کا ایوارڈ شامل ہے۔

Great Britain's Eric Liddell on his way to victory in the Olympic 400m final at the Stade de Colombes
Getty Images
برطانیہ کے ایرک لڈیل اولمپک 400 میٹر کے فائنل میں جیت کی راہ پر گامزن

فلائنگ فنز

سپرنٹر ابراہمز اور لڈیل یقینی طور پر پیرس میں نمایاں ہونے والے صرف دو ٹریک ایتھلیٹ نہیں تھے۔

فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے دو ایتھلیٹس نے کھیلوں کو شاید اس سے بھی زیادہ شاندار انداز میں روشن کیا، ریکارڈ توڑا اور درمیانی اور طویل فاصلے کے مقابلوں میں تمغے حاصل کیے۔

پاوو نورمی نے 1500 میٹر (3:53.6) میں سونے کا تمغہ جیتا اور دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں 5،000 میٹر (14:31.2) میں اولمپک ریکارڈ قائم کیے۔

Pictured (L-R) are: V.J. Sipila; E.E. Berg; Ville Ritola and Paavo Nurmi
Getty Images

نورمی نے انفرادی کراس کنٹری، ٹیم کراس کنٹری اور 3000 میٹر ٹیم ایونٹ میں مزید تین طلائی تمغے حاصل کیے۔

بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔

اس کی وجہ سے 38 میں سے 15 مقابلوں کو چھوڑ کر باقی تمام کھلاڑیوں نے ریس چھوڑ دی، جن میں سے آٹھ کو سٹریچر پر لے جایا گیا۔

Nurmi was already a three-time Olympic champion when he arrived in Paris in 1924, having won gold in the 10,000m, individual cross country and team cross country in Antwerp in 1920.
Getty Images
نورمی 1924 میں پیرس پہنچنے پر پہلے ہی تین بار کے اولمپک چیمپیئن تھے۔ انھوں نے 1920 میں اینٹورپ میں 10،000 میٹر، انفرادی کراس کنٹری اور ٹیم کراس کنٹری میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔

پیرس میں نورمی کو سب سے زیادہ چیلنج کرنے والے ایتھلیٹ ان کے ہم وطن ویل ریٹولا تھے جنھوں نے 10 ہزار میٹر کی دوڑ میں نصف راؤنڈ میں سونے کا تمغہ جیتا اور اپنا ہی عالمی ریکارڈ 12 سیکنڈ میں توڑ دیا۔

ریٹولا نے 3000 میٹر سٹیپل چیز، 3000 میٹر ٹیم ایونٹ اور ٹیم کراس کنٹری میں طلائی تمغے حاصل کیے، انفرادی کراس کنٹری اور 5000 میٹر میں چاندی کا تمغہ جیتا اور بعد میں نورمی سے 0.2 سیکنڈ پیچھے رہے۔

سنہ 1920 کی دہائی میں نورمی اور ریتولا کے کھیل میں شاندار کامیابی کی وجہ سے انھیں ’فلائنگ فنز‘ کا لقب دیا۔

Ritola’s haul of six medals in Paris remains the most won by any individual in athletics at a single Olympic Games.
Getty Images
ریٹولا نے پیرس میں چھ تمغے جیتے جو ایتھلیٹکس میں کسی ایک اولمپک کھیل میں کسی بھی فرد کی جانب سے جیتے جانے والے سب سے زیادہ تمغے ہیں۔

خواتین ایتھلیٹس

سنہ 1924 میں پیرس میں حصہ لینے والے 3،089 ایتھلیٹس میں سے 135 خواتین تھیں۔ ایک سو سال بعد 2024 کے کھیلوں میں 10,500 ایتھلیٹس حصہ لیں گے۔ یہ کھلاڑیوں کی تعداد کے لحاظ سے مکمل صنفی مساوات تک پہنچنے والے پہلے مقابلے ہوں گے۔

غوطہ خوری، تیراکی، فینسنگ اور ٹینس وہ واحد کھیل تھے جو 1924 میں خواتین ایتھلیٹس کے لیے مقابلوں کا انعقاد ہوا۔ برطانیہ نے مجموعی طور پر 267 مقابلوں میں ایتھلیٹس کو بھیجا جن میں 239 مرد اور 28 خواتین شامل تھیں۔

The women of the Great Britain team at the opening ceremony
Getty Images
افتتاحی تقریب میں برطانیہ کی ٹیم کی خواتین کھلاڑی

یہ بھی پڑھیے

دو برطانوی خواتین نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں:

  • ان میں سے ایک کٹی میک کین تھیں۔ اس اولمپکس مقابلوں میں صرف چار برطانوی خواتین نے پانچ یا اس سے زیادہ تمغے جیتے تھے۔ ان میں ڈیم کیتھرین گرینجر، ڈیم لورا کینی، شارلٹ ڈوجرڈین اور ٹینس کھلاڑی کیتھلین ’کیٹی‘ میک کین تھیں۔ میک کین نے 1920 میں اینٹورپ میں تین تمغے جیتے اور پیرس میں دو، ٹینس کے ڈبلز مقابلوں میں انھوں نے چاندی اور سنگلز مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ تمام مقابلوں میں مجموعی طور پر میڈلز کی تعداد نے انھیں سب سے زیادہ میڈلز حاصل کرنے والی برطانوی خاتون اولمپیئن بنا دیا اور اس کے 88 سال بعد گرینجر نے ان کا ریکارڈ توڑا۔ جب سنہ 1924 اور 1926 میں انھوں نے ومبلڈن ویمنز سنگلز ٹائٹل جیتا، اور آل انگلینڈ کلب میں دو مکسڈ ڈبلز ٹائٹل بھی جیتے، جن میں سے دوسرا 1926 میں ان کی شادی کے چند ماہ بعد انھوں نے اپنے شوہر لیسلی گوڈفری کے ساتھ کھیلا تھا۔
  • دوسری خاتون لوسی مورٹن تھیں۔ مورٹن 200 میٹر بریسٹ سٹروک تیراکی کے مقابلے میں انفرادی طور پر طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی برطانوی خاتون بن گئیں تھی۔
 Lucy Morton
Getty Images
لوسی مورٹن تیراکی کے مقابلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی برطانوی خاتون کھلاڑی تھیں

امریکی کھلاڑی جونی ویزمولر

سنہ 1924 کے مقابلوں میں امریکی تیراک جونی ویز مولر بلاشبہ سوئمنگ پول کے ایک سٹار بن کر ابھرے۔ وہ ان مقابلوں میں اپنے پچیدہ ماضی کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ وہ ہنگری کی ایک چھوٹی سی بستی میں پیدا ہوئے تھے جو اب رومانیہ کا حصہ ہے، اور بچپن میں ہی اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ چلے گئے تھے۔

چونکہ وہ پیدائشی طور پر امریکی نہیں تھے اس لیے پیرس اولمپکس میں بطور امریکی کھلاڑی ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے اپنی اصلی جائے پیدائش کو چھپایا اور اس بات کر اصرار کیا کہ وہ امریکی ریاست پینسلوانیا میں پیدا ہوئے تھے۔

دراصل انھوں نے امریکی تیراک کے طور پر اولمپکس میں امریکی دستے میں جگہ بنانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے پیدائش کے دستاویزات میں رد و بدل کر کے استعمال کیا تھا۔ ان کا چھوٹا بھائی ان کے خاندان کے ہنگری سے ہجرت کرنے کے بعد امریکہ میں پیدا ہوا تھا۔ اور اس طرح وہ امریکی نظام سے گزرتے ہوئے ٹیم میں شامل ہو گئے۔

ویزمولر کے بیٹے جونی ویز مولر جونیئر نے بعدازاں ان دعوؤں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ درست تھے۔

Johnny Weissmuller and Duke Kahanamoku both from the United States
Getty Images
امریکی تیراک ویز مولر اور ان کے ہم وطن تیراک ڈیوک کہاناموکو

اور اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی کہ امریکہ انھیں کیوں اپنی تیراکی ٹیم کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔

سنہ 1922 میں ویزمولر فری سٹائل تیراکی مقابلوں میں ایک منٹ سے کم وقت میں 100 میٹر طے کرنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے تھے اور انھوں نے پیرس میں اپنی اس کارکردگی کو پھر سے دہرایا تھا۔

انھوں نے اپنے ہم وطن تیراک ڈیوک کہاناموکو کو ایونٹ میں مسلسل تیسرا طلائی تمغہ حاصل کرنے سے محروم کرتے ہوئے یہ فاصلہ 59 سیکنڈز میں طے کیا تھا۔

ویز مولر نے 400 میٹر فری سٹائل مقابلوں اور 200 میٹر کے فری سٹائل ریلے ریس تیراکی مقابلوں میں بھی فتح سمیٹی اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے امریکی واٹر پولو ٹیم میں نمائندگی کر کے اسے بھی کانسی کا تمغہ جیتنے میں مدد کی۔

انھوں نے 52 امریکی مقابلوں میں ٹائٹلز اپنے نام کیے جبکہ 67 عالمی ریکارڈ قائم کیے اور وہ ایمچور مقابلوں میں ناقابل شکست کھلاڑی کے ریکارڈ کے ساتھ ریٹائر ہوئے یعنی وہ تیراک جس نے ایمیچور مقابلوں میں کبھی کوئی ریس نہیں ہاری۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سنہ 1928 میں ایمسٹریڈیم اولمپکس میں دو مزید گولڈ میڈلز بھی اپنے نام کیے۔

آج تک عظیم تیراک کہلائے جانے والے ویز مولر نے اپنے کھیل کے کیرئر کو خیرباد کہہ کر ہالی وڈ کی راہ لی اور گولڈن بوائے کے نام سے جانے جانے والے ویز مولر سلور سکرین کے سٹار بن گئے۔

سنہ 1924کے اولمپکس میں امریکہ نے سب سے زیادہ تمغے حاصل کیے اور اس کے بعد سے امریکہ متعدد بار ایسا کرتا آیا ہے۔ سنہ 1924 میں اس نے مجموعی طور پر 99 میڈلز اپنے نام کیے جن میں سے 45 سونے کے تمغے تھے۔

Following his retirement, Weissmuller swapped the swimming pool for the glamour of Tinseltown, being cast as Tarzan in the 1932 film ‘Tarzan the Ape Man’. He went on to play the character in 12 films.
Getty Images
ویز مولر نے تیراکی چھوڑ کر ہالی وڈ فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا

میڈلز حاصل کرنے دوڑ

پیرس اولمپکس 1924 میں امریکہ نے 45 گولڈ میڈلز حاصل کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے 27 چاندی اور 27 ہی کانسی کے تمغے بھی حاصل کیے تھے۔ اس امریکہ کل 99 میڈلز کے ساتھ سرِفہرست رہا۔

پیرس اولمپکس کے میڈلز ٹیبل پر دوسری پوزیشن فرانس نے حاصل کی تھی، جس میں اس نے ایتھلیٹکس مقابلوں میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14 سونے کے، 15 چاندی کے اور 12 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے تھے۔

American athletes do practice stunts at the 1924 Paris Olympics
Getty Images
پیرس اولمپکس کے دوران امریکی ایتھلیٹس

اس کے بعد تیسرے نمبر پر فن لینڈ رہا تھا جس نے 14 سونے کے تمغوں سمیت مجموعی طور پر 37 میڈلز حاصل کیے تھے۔

برطانیہ 35 تمغوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا تھا جن میں نو سونے کے تمغے بھی شامل تھے۔۔

Gymnast group-Pearson, Kriz, Zink, Krus, Wandrer, Novak, Mais, Cremer (Bettmann/Getty Images)
Getty Images

پیرس اولمپکس مقابلوں میں سونے کے تمغوں پر بنی نقش نگاری میں ایک جانب جیتنے والے کھلاڑی کو اپنے حریف کو زمین سے اٹھاتے دکھایا گیا تھا جبکہ دوسری طرف اولمپکس کے ثقافتی پروگرام سے متعلق دکھایا گیا تھا۔

ان مقابلوں کے لیے بنائے گئے تمغوں میں پیرس کے مہشور ایفل ٹاور سے حاصل کردہ دھات کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ تمغے کے وسط میں مسدس نما ٹوکن آئیفل ٹاور کی تزئین و آرائش کے کام کے دوران حاصل کردہ لوہے سے بنائے گئےتھے۔

کیا آپ جانتے ہیں؟

  • پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی پر 1920 اور 1924 کے اولمپکس گیمز میں ٹیمیں بھیجنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اور اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی جرمنی کو 1948 کے اولمپکس میں بھی شمولیت سے روک دیا گیا تھا۔
  • پیرس اولمپکس میں آرٹس سے منسلک پروگرام کو بھی شامل کیا گیا تھا جن میں فنِ تعمیر، مجسمہ سازی، ادب، مصوری اور موسیقی میں بھی میڈلز دیے گئے تھے۔ سنہ 1948 کے بعد سے کسی اولمپکس میں آرٹ کے مقابلوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ان شعبوں میں قوانین کی عدم مطابقت اور ان کھیلوں میں ایمیچور کی جگہ پیشہ ور فنکاروں کا حصہ لینا تھا۔
  • ٹینس کو 1924 کے بعد اولمپکس مقابلوں سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ آئی او سی اور ٹینس کی اس وقت کی تنظیم کے درمیان ایمیچیور کھلاڑیوں سے متعلق تنازعپیدا ہو گیا تھا اور اسے سیول 1988 اولمپکس تک دوبارہ متعارف نہیں کیا گیا۔
  • اولمکپس مقابلوں میں حصہ لینے والی قومی اولمپک کمیٹیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا اور 1920 میں انٹورپ میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں شامل 29 ممالک سے یہ تعداد بڑھ کر پیرس اولمپکس 1924 میں 44 ہو گئی تھی۔
  • پیرس اولمکپس 1924 میں میزبان ملک فرانس کے سب سے نمایاں اولمپیئن ایتھلیٹ فینسر راجر ڈوکریٹ تھے، جنھوں نے پانچ تمغے جیتے، جن میں سے تین سونے کے تھے۔ ڈوکریٹ ایک لیجنڈ تھے، انھوں نے اپنا اولمپکس کیریئر آٹھ تمغوں کے ساتھ ختم کیا، اور فرانس کی کھیلوں کی تاریخ میں آج تک کوئی کھلاڑی ان سے زیادہ تمغے اپنے نام نہیں کر سکا۔

News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.