ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں آتش زدگی: ’جان پر کھیل کر بیٹے کو وارڈ سے نکال تو لایا مگر اُسے بچا نہیں سکا‘

ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں آگ لگ جانے کی وجہ سے بچوں کی ہلاکت اور اس پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا نوٹس لیا جانا اب تک اس واقعے میں کیا ہوا اور والدین نے ریسکیو اہلکاروں کے ساتھ مل کر کیسے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش گئی۔

صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال کے ٹیچنگ ہسپتال کے نرسری وارڈ میں موجود نومولود بچوں کے والدین کے لیے ایک قربناک دن تھا۔

گذشتہ روز یہاں اچانک آتش زدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے وجہ ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹرفرخ شہزاد کے مطابق ’نرسری وارڈ میں لگے ایئر کنڈیشنر میں شارٹ سرکٹ‘ بتائی گئی ہے جس کے بعد وارڈ میں موجود بچوں کو پہلے ہسپتال کی ایمرجنسی اور پھر بچوں کے سرجری وارڈ میں منتقل کیا گیا تھا۔

ہسپتال انتظامیہ تاحال ان خبروں کی تردید کر رہی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آتش زدگی کے باعث بچوں کی ہلاکت واقعہ ہوئی ہے۔

ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس پروفیسر ڈاکٹر اختر محبوب رانا کا دعویٰ ہے کہ ’میڈیا پر جو پانچ بچوں کی ہلاکت کی وجہ آگ کا لگنا بتائی جا رہی ہے وہ درست نہیں ہے۔‘

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے ایک بچے کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ جب وہ وارڈ سے اپنے بچے کو نکال کر ایمرجنسی میں پہنچے تو ’ڈاکٹروں کی جانب سے آکسیجن ماسک لگا کر بچے کو بچانے کی کوشش کی گئی تاہم وہ نہیں بچ سکا۔‘

ہنگامی صورتحال سے نمٹنے والے ادارے ریسیکو 1122 کے مطابق نرسری وارڈ میں 75 سے زیادہ بچے موجود تھے۔ جن میں سے 41 کو ریسیکو اہلکاروں جبکہ باقی بچوں کو یا تو اُن کے والدین یا پھر ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود وارڈ بوائزنے محفوظ مقام پر منتقل کیا تھا۔

ادھر گذشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر ساہیوال سے رپورٹ طلب کر لی تھی اور ان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انھوں نے ’سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل تحقیقات کروانے اور ذمہ داروں کا تعین کر کے سخت سے سخت کارروائی کرنے کا حکم دیا۔‘

ایڈیشنل کمشنر ساہیوال شفیق ڈوگر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر کمشنر ساہیوال کی نگرانی میں تحقیقاتی کمیٹی کام کر رہی ہے۔ ہسپتال انتظامیہ سے جو معلومات موصول ہوئی ہیں وہ یہی ہیں کہ حادثے کے وقت اور اس سے بعد کئی گھنٹوں تک صورتحال کنٹرول میں رہیں اور موقع پر ریسیکو انتظامیہ نے مل کر بچوں کو منتقل کیا تھا۔‘

وزیر اعلیٰ ڈسرکٹ مانیٹر کمیٹی کے چیرمین محمد ارشد ملک کا کہنا تھا کہ ’آٹھ جون کو اس وارڈ میں پہلی ہلاکت رات کو دو بجے ہوئی تھی جبکہ آگ لگنے کے واقعہ میں سب بچوں کو محفوظ طریقے سے ہسپتال میں دوسرے وارڈ میں منتقل کردیا گیا تھا جہاں بعد میں بچوں کی ہلاکتیں مختلف وجوہات کی بنا پر ہوئیں۔‘

بی بی سی ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

ہسپتال انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس پروفسیر ڈاکٹر اختر محبوب رانا کے مطابق ’جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا بچوں کو فوری طور پر گائنی، بچوں کے سرجری وارڈ اور ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کرکے ان کو آکسیجن فراہم کی گئی تھی۔‘

ڈاکٹر اختر محبوب رانا کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال اور وارڈ میں آگ بجھانے کے آلات موجود تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان آگ بجھانے کے آلات کو استعمال نہیں کیا گیا تھا شاید افراتفری میں یہ کسی کو خیال ہی نہیں آیا ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ قدرت کی طرف سے تھا کہ موقع پر ایک ریسیکو اہلکار موجود تھا جبکہ ہمارے اپنے سٹاف اورریسیکو اہلکار نے فی الفور ایکشن لیا اوربچوں کو محفوظ کیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’شور شرابہ سُن کر میں وارڈ کی جانب بھاگا‘

ساہیوال ٹیچنگ ہسپتال میں سنیچر کے روز جب یہ آگ لگی اُس وقت ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار محمد ارسلان ایک مریض بچے کو وہاں سے لاہور منتقل کرنے کے لیے نرسری وارڈ کے باہر موجود تھے۔

محمد ارسلان کہتے ہیں کہ ’میں نرسری وارڈ کے مرکزی دروازے پر کھڑا تھا کہ اچانک سے لوگوں کے چیخنے اور مدد کے لیے پکارنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگ وارڈ سے باہر کی جانب بھاگ رہے تھے اور میں وارڈ کی جانب سے دکھائی دینے والے دھوئیں کو دیکھ کر اُس جانب بھاگا۔‘

محمد ارسلان کا کہنا تھا کہ ’وارڈ کے اندر چیخ و پکار تھی لوگ افراتفری کے عالم میں اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے جبکہ میں اپنے موبائل کی روشنی میں بچوں کو وارڈ سے باہر نکال رہا تھا۔ ابھی یہ سب جاری تھا کہ ریسکیو 1122 کے مزید اہلکار بھی پہنچ گئی اور آگ بجھانے اور بچوں کو بچانے میں مصروف ہو گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وارڈ میں دھواں اس قدر شدید تھا کہ اندر کھڑا رہنا نامُمکن دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے موبائل کی لائٹ جلائی اور بچوں کی جانب بڑھا۔۔۔ بڑی کوشش کے بعد میں نے اُس وارڈ سے اینکیوبیٹرز کو گھسیٹ کر باہر نکالنا شروع کیا اسی دوران میرے کُچھ اور ساتھیوں نے بھی بچوں کے چھوٹے بیڈز کو وارڈ سے باہر کا جانب دھکیلا۔‘

محمد ارسلان کے مطابق ’ریسکیو اہلکاروں نے بیڈز اور اینکیوبیٹرز کو چھوڑ کر تین تین بچوں کو ایک ہی وقت میں اُٹھا کر دھوئیں سے بھرے وارڈ سے باہر نکالنا شروع کیا۔

’بچوں کی مدد اور ریسکیو کے اس کام میں ایک وقت ایسا آیا کہ یوں لگنے لگا کہ کہ بس اب میں گُھٹن کے باعث کسی بھی وقت گر جاؤں گا اور اپنے حواس کھو بیٹھوں گا۔‘

’میرے بیٹے کو آکسیجن تو لگائی مگر وہ اُسے بچا نہ سکے‘

محمد جاویداقبال ساہیوال کے علاقے نور شاہ کوٹ کے رہائشی ہیں اور ان کا بچہ بھی اسی وارڈ میں داخل تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرا بچہ بھی اُسی نرسری وارڈ میں تھا کہ جہاں آگ لگنے کا یہ واقعہ پیش آیا، وارڈ میں آگ لگنے کا سُن کر میں اُس جانب بھاگا۔

’اس وارڈ سے نکالے جانے والے بچوں کو ایمرجنسی وارڈ میں موجود ڈاکٹر طبی امداد دینے میں مصروف تھے۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’اطمینان یہ دیکھ کر ہوا کہ اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے اور وارڈ سے نکالے جانے والے بچوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ عجیب لمحہ تھا مجھے لگا کہ میرا بیٹا مدد کے لیے مُجھے بلا رہا ہے۔ میں نرسری وارڈ پہنچا تو وہاں پر پہلے سے ہی لوگ جمع تھے جو اندر جانا اور اپنے بچوں کو بچانا چاہتے تھے مگر سکیورٹی گارڈ نے ہمیں اندر جانے سے روک دیا۔‘

محمد جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’میں کسی نہ کسی طرح وارڈ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وارڈ میں ہر جانب دھواں بھرا ہوا تھا۔ جہاں سانس لینا دشوار تھا۔ ایک ایک بیڈ پر تین تین بچے تھے۔ موبائل کی روشنی میں میں اپنے بچے کو انتہائی مُشکل سے ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور وارڈ سے باہر کی جانب بھاگا۔ وارڈ میں موجود دھوئیں کی وجہ سے مجھے لگ رہا تھا کہ میں باہر نہںی نکل پاؤں گا مگر میں اپنے بچے کو وارڈ سے نکالنے میں کامیاب رہا، باہر نکلا تو سب نے شور مچایا کہ بچے کو ایمرجنسی وارلا کی جانب لے جاؤ۔ ایمرجنسی میں پہنچا تو وہاں پہلے ہی بڑی تعداد میں بچوں کی دیکھ بھال ڈاکٹر کر رہے تھے۔ میرے بیٹے کو بھی دوبارہ آکسیجن تو لگائی مگر وہ اُسے بچا نہ سکے۔‘

محمد جاوید اقبال کہتے ہیں کہ ’مُجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں شاید یہ سب اللہ کی طرف سے تھا۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.