’جیتا ہوا میچ کیسے ہارا جاتا ہے، یہ کوئی پاکستان سے سیکھے‘: انڈیا کے خلاف شکست پر پاکستانی شائقین ٹیم پر برہم

پاکستان کے خلاف انڈیا کی بیٹنگ لائن بری طرح لڑکھڑا گئی اور پوری ٹیم 19 اوور میں 119 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ تاہم 120 رنز کے ہدف کے جواب میں قومی ٹیم مقررہ 20 اوور 7 وکٹوں کے نقصان پر 113 رنز بنا سکی جس پر پاکستانی کرکٹ شائقین ٹیم پر برہم ہیں۔
پاکستان، انڈیا، ٹی20 ورلڈکپ
Getty Images
شائقین کو گیم کے یوں بدل جانے پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا

انگریزی میں ایک لفظ ’ڈیجاوو‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ جو ابھی ہو رہا ہے شاید وہ ہم ماضی میں بھی دیکھ چکے ہیں۔

ایسا ہی گذشتہ روز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سب سے بڑے میچ میں دیکھنے کو ملا جب انڈیا نے پاکستان کو چھ رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کو جیت کے لیے 120 رنز درکار تھے تاہم پاکستان سات وکٹوں کے نقصان پر صرف 113 رنز بنا سکا۔

یہ میچ نیو یارک کی ایک ایسی پچ پر کھیلا گیا میچ تھا جہاں بلے بازوں کے لیے سکور کرنا بہت مشکل تھا۔ ایسے میں پاکستانی بیٹرز شاید صحیح موقع پر جارحانہ انداز اپنانے میں ناکام رہے اور یوں صرف چھ رنز سے شکست کھا بیٹھے۔

امریکہ کے شہر نیویارک میں روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے میچ کا چرچا ورلڈ کپ کے شیڈیول کے ساتھ ہی ہونا شروع ہو گیا تھا اور دنیا بھر سے شائقین نے نو جون کو ہونے والے اس مقابلے کے لیے سٹیڈیم کو بھر دیا تھا۔

اس میچ میں پاکستان کے لیے جتنی اچھی باتیں ہو سکتی تھیں سب ہوئیں، میچ سے پہلے بارش ہوئی، پاکستان نے ٹاس جیتا، انڈیا کو مقررہ 20 اوورز میں 119 رنز پر آل آؤٹ کر دیا، بابر اور رضوان کے کیچز بھی چھوٹے اور چھوٹے سے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے 13 اوورز میں پاکستان نے دو وکٹوں کے نقصان پر 71 رنز بھی بنا لیے لیکن پھر بھی گرین شرٹس یہ میچ نہیں جیت سکے۔

سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ ’جیتا ہوا میچ کیسے ہارا جاتا ہے، یہ کوئی پاکستان سے سیکھے۔‘

ایسا ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے جب ایک روزہ میچ میں پاکستان کا دبدبہ تھا اور شارجہ کا گراؤنڈ پاکستانی کرکٹ کی جنت سمجھا جاتا تھا۔

22 مارچ سنہ 1985 کو راتھ مینس کپ کے پہلے میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر بولنگ کی اور انڈیا کی مضبوط بیٹنگ آرڈر کو 125 رنز پر آل آوٹ کر دیا۔ محمد اظہرالدین نے 47 رنز اور کپتان کپل دیو نے 30 رنز بنائے جبکہ آٹھ کھلاڑی دوہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ سکے۔

عمران خان نے اپنے کریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 14 رنز کے عوض چھ وکٹیں لیں، تاہم پاکستان یہ میچ 38 رنز سے ہار گیا۔

محمد سراج اور وراٹ کوہلی
Getty Images
محمد سراج اور وراٹ کوہلی کی خوشی کا عالم

’کوئی جیتا ہوا میچ کیسے ہار سکتا ہے؟‘

کرکٹ صحافی اور سلیم ملک کی زندگی پر کتاب لکھنے والے معین الدین حمید نے کینیڈا سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آخر ایسا کیونکر ہو سکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ کوئی جیتا ہوا میچ کیسے ہار سکتا ہے۔ میچ پریڈکشن میں انڈیا کی جیت کے امکانات صرف آٹھ فیصد دکھائے جا رہے تھے اور آپ کو 49 گیندوں پر 49 رنز بنانے تھے، آپ کے پاس آٹھ وکٹیں تھیں اور آپ نہ بنا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایسے ناممکنات تو پاکستان ہی کر سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی جب انڈیا کو تین اوورز میں 48 رنز درکار تھے تو وراٹ کوہلی نے وہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ آج بھی آپ انڈیا کی ٹیم کو اتنے رنز بنانے کو کہیں تو وہ سو میں سے 98 بار ناکام ہو جائے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ابھی جو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بیان دیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب نسیم شاہ جیسا بچہ (میں تو اسے بچہ ہی کہتا ہوں) دو چوکے لگا سکتا ہے تو افتخار احمد اور عماد وسیم جیسے تجربہ کار آل راؤنڈر کیسے رنز نہیں بنا سکتے۔ ویسے تو پی ایس ایل میں یہ سب لمبے لمبے چھکے لگاتے ہیں لیکن ایسا لگتا یہاں انھیں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔‘

بہر حال پاکستان یہ میچ چھ رنز سے ہار گیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے لوگ طرح طرح کے میمز شیئر کر رہے ہیں۔ اس شکست کی سب اپنی اپنی توجیہ پیش کر رہے ہیں۔ کوئی خراب بیٹنگ آرڈر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کوئی مڈل آرڈر میں تجربے کی کمی کی بات کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

دو حامیان دو جذبات
Getty Images
دو کرکٹ فینز، دو جذبات

’یہ کارنامہ صرف پاکستانی ٹیم ہی انجام دے سکتی ہے‘

ڈیجی فیوزن نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اس طرح کا میچ ہارنے کے لیے سپیشل کوشش درکار ہوتی لیکن پاکستان نے کسی طرح یہ کارنامہ انجام دے ہی دیا۔‘

https://twitter.com/DigiFusion24/status/1799889201086804075

محمد عمر نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان صرف خراب بیٹنگ آرڈر، بیمار ذہنیت والے کوچنگ سٹاف اور کپتان کی وجہ سے ہارا۔ یہاں افتخار یا عماد کی کوئی غلطی نہیں۔ افتخار بیچارے کو سکور کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہے۔‘

سلمان رضا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہمارے پاس مڈل آرڈر میں کوئی بھی مضبوط بلے باز نہیں ہے، کس نے بغیر مڈل آرڈر یا بغیر آل راؤنڈر کے ٹیم کا انتخاب کیا ہے؟‘

پاکستانی صحافی عبدالمالک نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا کوئی مجھے یاد دلا سکتا ہے کہ بابر اعظم نے پاکستان کے لیے آخری بار کب ڈیلیور کیا تھا؟ اپنے ذاتی ریکارڈ بنانے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے بڑے میچ میں ڈیلیور کرنے کے لیے؟ ہمارے باؤلرز نے 120 رنز کا ہدف سیٹ کیا اور بلے بازوں کی طرف سے کیے جانے والے گند کو دیکھیں... یہ لوگ کرکٹ کو دیکھنے میں اتنا تکلیف دہ کیوں بناتے ہیں؟‘

جانی براوو نامی ایک صارف کہتے ہیں کہ ’ٹاس جیتنے، انڈین بیٹنگ ڈھہ جانے، 120 بال میں 120 رنز بنانے، رضوان اور بابر کو ایک، ایک زندگی چانس ملنے، 11 ویں نمبر تک بیٹنگ کی صلاحیت کے باوجود پاکستان ہمیشہ کی طرح انڈیا سے پِٹ گیا۔‘

عبداللہ حماد اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری ڈرپوک بیٹنگ اپروچ کی واحد وجہ بابر اعظم ہے۔ یہ رضوان اور افتخار جیسے لوگوں کا دفاع کرتا ہے۔‘

https://twitter.com/JohnyBravo183/status/1799893224171209142

شاہ زیب علی نے سابق کرکٹر سلمان بٹ کا تبصرہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان ہمیشہ میچ ہارنے کے راستے تلاش کر لیتا ہے۔ رضوان کا صرف ایک کام تھا کہ انھیں آخر تک بیٹنگ کرنی تھی۔‘

اس ویڈیو کلپ میں سلمان بٹ کہتے ہیں کہ جب آپ کو ایک بال پر ایک رن کے حساب سے رنز بنانے تھے تو فخر کو باہر نکل کر مارنے کیا ضرورت تھی اور رضوان کو بمراہ کو اس طرح مارنے کی کیا ضرورت تھی۔

سلمان بٹ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ وہ پچ نہیں ہے جس پر آپ شاٹ ماریں اور لگتے جائیں۔ ہم ہر پریس کانفرنس میں سیکھنے کی باتیں بہت کرتے ہیں لیکن سیکھتے کچھ نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہم پہلے جو جانتے تھے وہ بھی بھول گئے۔ بولرز نے بہت اچھا کام کیا۔‘

انڈین صارفین جسپریت بمراہ کی تعریف کر رہے ہیں جنھوں نے پہلے بابر اعظم کی وکٹ لی اور پھر درمیان میں آ کر رضوان کو پویلین کی راہ دکھائی۔ انھیں تین وکٹیں حاصل کرنے پر مین آف دی میچ قرار دیا گیا۔

سابق انڈین کرکٹر محمد کیف نے ٹویٹ کیا کہ ’جسپریت بمراہ سب سے عظیم میچ ونر ہیں، کسی بھی فارمیٹ کے، کسی بھی حالات میں اور دنیا کے کسی بھی حصے میں۔‘

https://twitter.com/MohammadKaif/status/1799903216156475731

مانی سلمان نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا سے پاکستان نہیں جیت سکتا، یہ بات مان لینی چاہیے۔ ہیمشہ کی طرح ہدف کا خراب تعاقب۔ آج بہت سے سستے آل راؤنڈرز کے کریئر ختم ہوں گے، عماد، افتخار، شاداب نام کے آل راؤنڈرز۔ قصہ مختصر کہ ہم انڈیا سے نہیں جیت سکتے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.