چاند کے ’اربوں کھربوں کے وسائل‘ تک پہنچنے کی کوششیں لیکن چاند کس کی ملکیت ہے؟

چاند کے وسائل کا تخمینہ اربوں سے کھربوں تک لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ کچھ لوگ چاند کو پیسہ بنانے کے موقع کے طور پر کیوں دیکھتے ہیں۔
خلائئ مشن
Getty Images

دنیا کے بہت سے ممالک اور نجی کمپنیاں وسائل اور خلا میں برتری حاصل کرنے کی کوشش میں چاند پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے ہی چاند پر لہراتے ہوئے چین کے پرچم کی تصاویر زمین پر دیکھی گئیں جس نے چوتھی بار چاند پر لینڈنگ کی تاہم پہلی بار کوئی چینی مشن چاند کے ’تاریک کونے‘ سے نمونے لے کر واپس لوٹا ہے۔

گزشتہ 12 ماہ کے دوران انڈیا اور جاپان نے بھی چاند کے اس حصے پر خلائی مشن بھیجے ہیں جبکہ فروری میں امریکی کمپنی ’انٹوئیٹیو مشینز‘ چاند پر لینڈر اتارنے والی پہلی نجی کمپنی بن گئی۔ بہت سی کمپنیاں اس کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

دوسری جانب امریکی خلائی ایجنسی ناسا انسان کو دوبارہ چاند پر بھیجنا چاہتی ہے اور اس کا مشن 2026 میں چاند پر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ بھی 2030 تک انسانی مشن چاند پر بھیجے گا۔ اور اس بار مستقل اڈے بنانا کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

لیکن طاقت اور سیاست کے عالمی کھیل کے اس نئے دور میں نئی خلائی دوڑ زمین پر موجود تناؤ کو چاند کی سطح پر برآمد کر سکتی ہے۔

کنساس یونیورسٹی کے ماہر ارضیات جسٹن ہولکومب خبردار کرتے ہیں کہ ’چاند سے ہمارا رشتہ بہت جلد بدلنے والا ہے۔ باہری خلا کی دریافت میں تیزی ہمارے قوانین سے زیادہ تیز ہو چکی ہے۔‘

1967 میں ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک معاہدے کے مطابق کوئی ملک چاند کی ملکیت نہیں رکھ سکتا۔ دوسری جانب ’آؤٹر سپیس ٹریٹی‘ (یعنی باہری خلائی معاہدہ) کہتا ہے کہ چاند سب کا ہے اور ’کسی قسم کی بھی دریافت کا مقصد تمام انسانیت کی بھلائی اور مفادات ہونا چاہیے۔‘

کہنے کو تو یہ معاہدہ پرامن اور اشتراک پر مبنی لگتا ہے اور کافی حد تک ہے بھی، لیکن باہری خلا پر ہونے والے معاہدے کے پیچھے تعاون نہیں بلکہ سرد جنگ کی سیاست کا ہاتھ تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا تو اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ خلا ایک نیا عسکری محاذ بن سکتی ہے اور اسی لیے اس معاہدے کا اہم نکتہ یہ تھا کہ خلا میں جوہری ہتھیار نہیں بھیجے جائیں گے۔ 100 سے زیادہ ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔

لیکن نئے دور کی خلائی مہم اس زمانے سے مختلف محسوس ہوتی ہے۔ جدید دور میں چاند پر بھیجے جانے والے مشن میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب صرف ریاستیں ہی نہیں بلکہ نجی کمپنیاں بھی اس دوڑ کا حصہ بن چکی ہیں۔

چاند
Getty Images
رواں ہفتے ہی چاند پر لہراتے ہوئے چین کے پرچم کی تصاویر زمین پر دیکھی گئیں

جنوری میں ایک نجی امریکی مشن ’پرجرین‘ نے اعلان کیا کہ وہ انسانی راکھ، ڈی این اے نمونے اور ایک سپورٹس ڈرنک چاند پر لے جا رہی ہے۔ تاہم ایندھن کے ٹینک میں لیکج کی وجہ سے یہ مشن روانہ نہیں ہو سکا۔ اس کے باوجود یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا اس کمپنی کا مقصد معاہدے کے بنیادی اصول پر پورا اترتا ہے کہ ہر مہم کا مقصد تمام انسانیت کی بہتری ہونا چاہیے۔

مشیل ہینلن خلائی امور پر مہارت رکھنے والے وکیل ہیں اور ’فار آل مین کائنڈ‘ (یعنی تمام انسانیت کے لیے) نامی تنظیم کے بانی ہیں جو اپالو کی لینڈنگ کے مقامات کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اب ہم نے ایسی چیزیں اس لیے بھیجنا شروع کر دی ہیں کیوں کہ ہم بھیجنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ چاند ہماری پہنچ میں ہے اور ہم نے اس کا غلط استعمال شروع کر دیا ہے۔‘

لندن انسٹی ٹیوٹ آف سپیس پالیسی اینڈ لا کے ڈائریکٹر سعید مستہسر کا کہنا ہے کہ کسی بھی نجی کمپنی کو خلا میں جانے کے لیے کسی ملک کی حکومت کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے اور یہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت دیا جاتا ہے۔

تاہم چاند تک پہنچنے کی کوشش میں عزت کا معاملہ بھی ہے اور اسی لیے انڈیا اور جاپان اپنی کامیاب مہمات کے بعد عالمی خلائی کھلاڑی بن جانے کا دعوی کر سکتے ہیں۔ ایک کامیاب خلائی انڈسٹری والا ملک اپنی معیشت کو روزگار اور جدت کے ذریعے ترقی کا راستہ دکھا سکتا ہے۔

لیکن چاند تک پہنچنے کی دوڑ میں اس سے بھی بڑا انعام موجود ہے اور وہ ہے چاند پر موجود وسائل۔

اگرچہ چاند کی سطح بظاہر بنجر نظر آتی ہے لیکن اس میں معدنیات موجود ہیں جن میں لوہے اور ٹائٹینیئم جیسی دھاتیں اور ہیلیئم تک موجود ہیں جو سپر کنڈکٹر سے لے کر طبی آلات بنانے کے کام آتی ہے۔

چاند
Reuters
چاند کی سطح بظاہر بنجر نظر آتی ہے لیکن اس میں معدنیات موجود ہیں جن میں لوہے اور ٹائٹینیئم جیسی دھاتیں اور ہیلیئم تک موجود ہیں جو سپر کنڈکٹر سے لے کر طبی آلات بنانے کے کام آتی ہے

چاند کے وسائل کا تخمینہ اربوں سے کھربوں تک لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ کچھ لوگ چاند کو پیسہ بنانے کے موقع کے طور پر کیوں دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش طویل المدتی سرمایہ کاری ہو گی کیوں کہ ان وسائل کو نکالنے اور زمین تک لانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی ابھی تک موجود نہیں ہے۔

1979 میں ایک عالمی معاہدے کے تحت کہا گیا کہ کوئی ریاست یا تنظیم چاند کے وسائل کی ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ معاہدہ زیادہ مقبول نہیں ہوا اور صرف 17 ممالک نے ہی اس پر دستخط کیے۔ ان ممالک میں چاند تک پہنچنے والا ایک بھی ملک شامل نہیں ہے۔

بلکہ امریکہ نے 2015 میں ایک قانون منظور کیا جس کے تحت امریکی شہریوں اور شعبوں کو اجازت دی گئی کہ وہ کسی قسم کا خلائی مواد نکال کر استعمال کر سکتے ہیں اور بیچ بھی سکتے ہیں۔

مشیل ہینلن نے مجھے بتایا کہ اس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں کافی اضطراب پیدا ہوا۔ لیکن آہستہ آہستہ باقی ممالک نے بھی ایسے ہی قوانین منظور کیے۔ ان ممالک میں متحدہ عرب امارات، انڈیا اور جاپان سمیت لگژمبرگ شامل ہیں۔

چاند پر موجود وہ چیز جس کی سب سے زیادہ مانگ ہو سکتی ہے وہ بھی حیران کن ہے؛ پانی۔

نیچرل ہسٹری میوزیئم کی پروفیسر سارہ رسل کہتی ہیں کہ ’جب چاند کے پتھروں کا پہلی بار جائزہ لیا گیا تو خیال کیا گیا کہ وہ مکمل طور پر خشک ہیں۔ لیکن 10 سال قبل ایک انقلاب آیا اور ہم نے جانا کہ ان کے اندر فاسفیٹ کرسٹلز میں پانی کے آثار موجود تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ چاند کے کونوں پر مذید پانی موجود ہے جو گڑھوں کے اندر جم کر برف بن چکا ہے۔

مستقبل میں چاند پر جانے والے اس پانی کو پی سکیں گے، اس سے آکسیجن بنا سکیں گے اور خلا باز اس کی مدد سے راکٹ کا ایندھن تک تیار کر سکیں گے جو انھیں چاند سے مریخ اور اس سے بھی آگے تک جانے میں مدد سے سکے گا۔

امریکہ ’آرٹیمز اکارڈز‘ کے نام سے نئے اصول مرتب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب تک 40 سے زیادہ ممالک اس پر دستخط کرچکے ہیں لیکن اس فہرست میں چین موجود نہیں ہے۔ چند ممالک کا کہنا ہے کہ خلائی مہم کے نئے قوانین مرتب کرنے میں کسی ایک ملک کو سبقت نہیں لینی چاہیے۔

سعید کا کہنا ہے کہ یہ کام اقوام متدہ کے ذریعے ہونا چاہیے کیوں کہ اس کا اثر تمام ممالک پر ہو گا۔

لیکن وسائل تک رسائی کی وجہ سے ایک نیا تنازع جنم لے سکتا ہے۔ اگرچہ چاند پر بہت جگہ ہے لیکن اصل معاملہ اس بیش قیمت جگہ کا ہے جہاں برف سے بھرے گڑھے موجود ہیں۔ تو پھر اگر سب نے ایک ہی مقام پر اڈہ بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو کیا ہو گا؟ اور اگر ایک ملک نے اپنا اڈہ سب سے پہلے بنا لیا تو اس کے قریب ہی دوسرے ملک کو اڈہ قائم کرنے سے کون روک سکے گا؟

جل سٹوارٹ لندن سکول آف اکنامکس میں خلائی پالیسی اور قانون پر محقق ہیں جن کا کہنا ہے کہ انٹارکٹک اور چاند کے معاملے میں مماثلت ہے۔ ’ہم شاید اسی طرح سے چاند پر تحقیقی اڈے قائم ہوتے ہوئے دیکھیں گے جیسے ہم نے انٹارکٹک پر بنتے دیکھے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.