مٹی کی صراحی، مٹکے کا پانی اور بان کی چارپائی سخت گرمی سے نمٹنے کے سستے طریقے

بچپن میں ہمارے گھر تو چھوٹے تھے لیکن ان میں آنگن، برآمدہ اور کم از کم ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ گھروں کی اونچی چھت میں بنے روشندان سے گرم ہوا باہر نکلتی تھی اور مٹی کے پیالوں میں لسی اور چائے دونوں مزا دیتی تھیں۔ اس وقت ایسا کیا تھا جو اب نہیں اور آج ہماریروز مرہ کی زندگی میں وہ کون سے ایسے طریقے ہیں جن کو اپنا کر ہم گرمی کی اس لہر میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
گرمی کی شدت
Getty Images

’مٹی کی صراحی اور مٹکے کا ٹھنڈا پانی، چقوں سے آراستہ ہوادار گھر، بان کی چارپائیاں اور ان پر موسم کے مطابق آرام دہ بستر۔۔۔‘

’جب گھروں میں گرم دوپہر نہ طبیعت اس قدر نڈھال کیا کرتی اور نہ ہی بجلی جانے سے زندگی رکتی تھی، تو آخر اُس وقت زندگی کے رنگ ڈھنگ میں ایسا کیا تھا جو کہ اب نہیں۔‘

یہ چند جملے میری اور شیما کی اُس گفتگو کا حصہ ہیں جب جون کی ایک گرم دوپہر کی کوفت کو کم کرنے کے لیے میں کراچی میں موجود اپنی صحافی دوست شیما صدیقی سے فون پر اسلام آباد کی گرمی کا رونا رو رہی تھی۔

ہماری بحث اس پر تھی کہ آخر مئی کے بعد اب جون کے آگ اگلتے سورج کی زد میں اسلام آباد کی ہیٹ ویو کی شدت زیادہ ہے یا کراچی میں ہوا میں موجود 70 فیصد سے زیادہ نمی والی گرمیپیسنے میں شرابور عوام کے لیے وبال جان بنی ہے۔

ایسے میں ہمیں 1980 کی دہائی کی ان گرمیوں کی یاد ستائی جب طرز زندگی سادہ ہونے کے باعث سورج کی تپش سے نمٹنا نسبتاً آسان تھا۔

’بچپن میں ہمارے گھر تو چھوٹے تھے لیکن اس میں آنگن، برآمدہ اور کم از کم ایک پھل دار اور سایہ دار درخت کی چھاؤں میں گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔‘

’گھروں کی اونچی چھت میں بنے روشندان سے گرمی باہر نکلتی تھی اور برآمدوں سے آتی روشنی اور ہوا پورے گھر میں محسوس کی جا سکتی تھی۔‘

اسی بات چیت کے دوران بچپن میں گرمی سے بچاؤ کے لیے کلچرل یا روایتی طریقے ہماری گفتگو کا موضوع بنے جس نے اس سوال کو جنم دیا کہ روز مرہ کی زندگی میں وہ کون سے ماحول دوست طریقے ہیں جن کو اپنا کر ہم گرمی کی اس لہر میں خود کو محفوظ رکھنے کی سعی کر سکتے ہیں۔

اسی بات کی کھوج کے لیے میں نے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے تجربات جانے اور ان سے بات چیتکے نچوڑ میں چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جن کو اپنانا آج بھی مشکل نہیں اور گرمیوں میں اس کے اثرات ہمارے ماحول اور زندگی دونوں کے لیے مفید ہیں۔

’خس‘ کا استعمال جس کا ذکر خطوط غالب میں بھی موجود

خس
Getty Images

چلچلاتی گرمی سے لڑنے میں عام سی سمجھے جانے والی خس کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ خس کو کھڑکیوں میں لگا کر پانی میں بھگویا جاتا جس کے بعد اس سے چھن چھن کراندر آنے والی ہوا ٹھنڈی ہو کر فرحت بخش ہو جاتی ہے۔

یاد رہے کہ وہی خس آج بھی روم کولر میں استعمال ہوتی ہے۔

دوسری جانب رباب حسن جامعہ کراچی کے شعبہ آئی آر میں پڑھاتی ہیں اور ان کی ہمارے ماحول ثقافت اور روایات پر گہری نظر ہے۔

پروفیسر رباب حسن نے بتایا کہ ’انڈیا میں کھڑکیوں میں خس لگائی جاتی تھی اور اس پر گرمی کی صورت میں باہر سے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔ اندر کمرے میں پنکھا چلتا تھا اور پورا کمرہ ٹھنڈا ہو جاتا تھا جبکہ ساتھ ساتھ خس کی خوشبو کمرے کو معطر کرتی تھی۔‘

گرمیوں میں دروازوں یا کِھڑکیوں میں خس کی جڑوں کے ریشوں کو بانس کی کھپچیوں یا تیلیوں سے بنے فریم میں لگا کر گرمی بھگانے کا طریقہ اتنا کارگر ہےکہ جس کا ذکر ہمیں اردو کے مقبول ترین شاعر اسد اللہ خاں غالب کے خطوط میں بھی ملتا ہے۔

ایک خط میں غالب لکھتے ہیں: ’کوٹھری میں بیٹھا ہوا ہوں،(خس کی) ٹٹی لگی ہوئی ہے۔ ہوا آ رہی ہے، پانی کا جھجھر (برتن) دھرا ہوا ہے، حقہ پی رہا ہوں اور یہ خط لکھ رہا ہوں تم سے بات کرنے کو جی چاہا تو یہ باتیں کر لیں۔

(غالب لیٹرز، جلد 1، صفحہ نمبر 336)

مٹی کی صراحی اور مٹکوں کا ٹھنڈا پانی

مٹکے
Getty Images

بچپن کی پرانی یادوں میں سے ایک مٹی کی صراحی اور مٹکے بھی ہیں جن کا ٹھنڈا پانی آب خوروں (مٹی کے پیالوں) میں ڈال کر پیا جاتا تو اندر تک ٹھنڈک اترتی محسوس ہوتی جبکہ آج پلاسٹک کی بوتل میں رکھے پانی میں اس سکون بخش ٹھنڈک کا فقدان پایا جاتا ہے۔

ایک دن صحافی عاصمہ شیرازی کے گھر جانا ہوا تو ان کے ہاں مٹی کے برتن اور آبخورہ دیکھ کر حیرانگی کے ساتھ خوشی بھی ہوئی۔

میرے پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے گھر میں واٹر کولر بھی مٹی کے رکھے ہوئے ہیں اور میں نے برتن بھی رکھے ہیں اور گاہے بہ گاہے ان کو استعمال بھی کرتی ہوں کیونکہ یہ فطرت کے قریب بھی ہیں اور ماحول دوست بھی۔‘

ماہرین کےمطابق مٹی کے برتن میں پانی قدرتی طور پر ٹھنڈا ہوتا ہے کیونکہ جب یہ پانی بخارات کی صورت اختیار کرتا ہے اس وقت یہ برتن کی گرمی کو چوس لیتا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ ٹیکسلا ایشیائی تہذیب کے اسسٹنٹ پروفیسرمعیز الدین ہکل ایک ماہر آثار قدیمہ ہیں۔پروفیسرمعیز نے گفتگو میں مٹی کے برتنوں سے پہلے اس کے بنانے کے ماہر یعنی کمہار کے خاص کردار پر بات کی۔

’مٹی کے برتنوں کے لیے جنوبی ایشیا کے دیہی کلچر میں ایک خاص قسم کا خاندان کمہار کہلاتا تھا جن کا کام گاؤں دیہات کے ہر گھر میں برتنوں کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ کمہار کی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا۔‘

’ہم مٹی کے برتنوں میں کھانے کو کلاس سسٹم سے جوڑ دیتے ہیں اور مٹی کے برتنوں میں کھانا کھانا یا پیش کرنا ہمیں معیوب لگتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پلاسٹک کے برتن صحت کے لیے مضر بھی ہیں اور ماحول دشمن بھی۔‘

پروفیسرمعیز کے مطابق ’مٹی کے برتن سات ہزار قبل مسیح سے استعمال ہو رہے ہیں۔ تو اتنی صدیوں کے تجربات کا نچوڑ اور ہنر ان کمہاروں کے ہاتھ میں محفوظ ہے جو اب گنے چنے ہی رہ گئے اور انھوں نے معاشی چیلیجز کے پیش نظر اپنا ہنر متروک کر دیا۔‘

فوم کے بجائے ہوادار اور آرام دہ بان کی چارپائیاں

چارپائی
Getty Images

آنگن میں بچھی چارپائی پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے آرام دہ نشست کے لطف سے آج کم ہی لوگ واقف ہیں۔

گاؤں دیہات میں آج بھی آرام کرنے، مہمان داری نبھانے سے لے کر پنچائیت بٹھانے تک چارپائی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

لکڑی کے فریم کی بنی مضبوط چارپائی کو نواڑ یا بان سے بُنا جاتا ہے۔ چار پائی بننے کے لیے عام طور پر چپٹی یا گول بان اور سوتی دھاگے سے بٹی رسی استعمال ہوتی ہے جو قدرتی چیزوں سے بنی ہے۔

سردارعلی بلوچستان کے گاؤں چوکی جمالی سے تعلق رکھتے ہیں جہاں گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے تجاوزکر جاتا ہے۔

چارپائی کی اہمییت اور فوائد پر بات کرتے ہوئے سردار علی نے بتایا کہ گاؤں کے ماحول میں مٹی کے گھر اور چارپائی گرم موسم سے بچانے میں معاون رہتی تھیں۔ کچے گھروں کی جگہ تو اب سمینٹ کے سٹرکچر نے لے لی تاہم چارپائیاں آج بھی ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔

’چارپائی کو پٹ سن، کھجور، مزری اور اسی نوعیت کے درختوں کے پتوں اور چھال سے بنی رسیوں سے بُنا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ماحول دوست اجزا سے بُنی ہوتی ہے اس لیے اس کو ڈی کمپوز کرنا بھی آسان ہوتا ہے جب کہ فوم سے بنے بستروں میں یہ خصوصیات ناپید ہیں۔‘

سردار علی کے مطابق ’آج کے دور میں جب بند ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو آدھے گھنٹے کے اندر جہاں فوم کے صوفوں اور گدوں پر 30 منٹ کے بعد بے آرامی غالب آ جاتی ہے وہیں اپنی خصوصیات کے باعث چارپائی آرام دہ رہتی ہے۔

اسی حوالے سے پروفیسر رباب حسن کہتی ہیں کہ ’پہلے فوم کے گدے نہیں ہوتے تھے۔ دالان میں سوتے تھے اور چارپائیاں بچھاتے تھے۔ اس پر ہلکی سی دری یا چادر بچھی ہوتی تھی۔‘

یاد رہے کہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں آج بھی کئی علاقوں میں لڑکی کی شادی پر جہیز میں چارپائیاں دینے کی روایت قائم ہے۔

پروفیسر معیز الدین کہتے ہیں کہ چارپائی کا استعمال بہت قدیم زمانے سے ہے جس کا ااصل مقصد تھا کہ رینگنے والے جانوروں سے محفوظ رہا جا سکے۔

ہریالی کے لیے درخت لگانے کی شرط

درخت
Getty Images
درخت بہت دیادہ لگانے کی ضرورت ہے تاکہ گرمی کی تپش کم ہو

یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ گرمی سے بچاؤ کے لیے بہت سے درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ پہلے تو 80 گز کے گھر میں بھی ایک سایہ دار درخت ہوتا تھا تاہم اب جگہ جگہ اب بلند و بالا کنکریٹ کی عمارات بن گئی ہیں اور سبزہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

شہروں کے علاوہ دیہات میں تو ہر گھر میں درخت لازمی ہوتا تھا جس کی چھاؤں میں لوگ بیٹھتے تھے اور بجلی بند بھی ہو جائے تو اتنی پروا نہیں ہوتی تھی۔

پروفیسر رباب حسن کے مطابق ’اپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے تو شجر کاری پریکٹیکل نہیں تاہم اس بلڈنگ کے احاطے میں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ گورنمنٹ کا یہ قانون بننا چاہیے کہ جو بلڈنگ بنانے جا رہے ہیں اس میں کتنے درخت لگائیں گے کتنا حصہ ہرا رکھیں گے۔‘

روشندان اور ہوادار برآمدوں والی طرز تعمیر

اونچی چھتیں اور ان میں بنے روشن دان اب تو شاز و نادر ہی نظر آتے ہیں تاہم پرانے وقتوں میں یہ خاص طرز تعمیرات کا حصہ رہے ہیں۔

سائنس کے اصول کے مطابق مطابق گرم ہوا کیونکہ اوپر کی جانب اٹھتی ہے تو کمرے میں بنا یہ روشن دان اس گرم ہوا کو باہر لے جاتا ہے۔

روشن دان کے جھروکے سے چھن چھن کر آتی روشنی اور ہوا اور اس میں کہیں نہ کہیں پرندوں کا بسیرا فطرت کے قریب تر ہوتا تھا تاہم یہ طرز تعمیر اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ جب ہمارے پاس بجلی کے پنکھے، کولر اور ایئر کنڈیشنر نہیں تھے تب ہوا کے گزر کے مطابق عمارتوں کو تعمیر کیا جاتا تھا

پروفیسر رباب حسن پرانے طرز تعمیر کو بہت یاد کرتی ہیں اور اس کی افادیت کی بھی قائل ہیں۔

’اب ہم نے بند گھر بنا لیے ہیں جس میں ہوا کا گزر نہیں اور وہاں اے سی لگانا پڑتا ہے۔ پہلے گھر کی تعمیر ایسی ہوتی تھی کہ اس میں دالان ہوتے تھے اور وہ ہوا دار ہوتے تھے۔اب گھر مغربی طرز تعمیر پر ہوتے ہیں۔‘

اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسرمعیز نے کہا کہ ’ہمارے کلچر میں دالان اور آنگن کا تصور ہوتا تھا جو نو آبادیاتی دور میں تھا اس دوران بھی رہا مگر اب متروک ہو گیا ہے۔ یہ مقامی اور قدیم ڈیزائن ہے جو پرانی محفوظ عمارتوں میں اب بھی پایا جاتا ہے۔‘

آنگن پورے کمروں میں سے گرم ہوا کو باہر نکالتا اور کمرے ٹھنڈے رہتے ہیں۔ پروفیسرمعیز کے مطابق یہ کامیاب سٹرکچر کا نظام تھا۔

’فطرت کی جانب لوٹنا ہو گا‘

سابق ڈی جی میٹ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق اس بار ملک میں ہیٹ ویو کا دورانیہ کافی طویل ہو گیا ہے اس میں خاص طور پر ملک کے لگ بھگ تمام علاقے ایک ساتھ ہیٹ ویو کی زد میں آئے اور پورے مئی کے مہینے میں آگ برستی رہی۔

ان کے مطابق ’ہیٹ ویو کا دورانیہ چھ سے سات روز کا ہوتا تھا اور اس سے زیادہ ہیٹ ویو نہیں ہوتی تھی اور ایک ساتھتمام علاقے اس کی زد میں نہیں آتے تھے۔ خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہیٹ ویو دو، تین دن سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن 2024 کی ہیٹ ویو نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور ہیٹ ویو 26 دن معمول سے زیادہ طویل رہی۔‘

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ’درختوں کی کٹائی کی روش گاؤں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس لیے گاؤں بھی شہری علاقوں کی طرح اس ہیٹ ویو کی زد میں آئے۔‘

’اب ہمیں دوبارہ سوچنا پڑے گا کہ جس طرح ہم آرگینک فوڈ کی جانب لوٹ رہے ہیں جو کھادوں اور ذرعی ادویات سے پاک خالص خوراکہے تو اسی طرح ہمیں گرمی سے بچاؤ کے اپنے روایتی طریقوں کی جانب واپس لوٹنا ہو گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.