ایسا سیمنٹ جو آپ کے گھر کو ایک بڑی بیٹری میں بدل سکتا ہے

دنیا میں تعمیری شعبے میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مادہ کنکریٹ ہے لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی ہمارے گھروں کو توانائی فراہم کرنے کے کام آ سکتی ہے۔
cement
Getty Images

دنیا میں تعمیری شعبے میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مادہ کنکریٹ ہے لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی ہمارے گھروں کو توانائی فراہم کرنے کے کام آ سکتی ہے۔

امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر کیمبرج میں لیبارٹری بینچ پر سیاہ رنگ کے کنکریٹ کےسیلنڈرز پڑے ہیں جن میں مائع موجود ہے اور ان کے گرد کیبلز ہیں۔

ایک عام شخص کے طور پر جب آپ دیکھتے ہیں تو شاید کچھ بہت غیر معمولی نہیں لگتا۔ لیکن پھر وہاں موجود ڈمیئن سٹیفانیئک ایک بٹن دباتے ہیں۔ ان بلاکس کے ساتھ جڑی تاریں ایک ایل ای ڈی بلب سے منسلک ہیں اور بٹن دباتے ہی یہ بلب روشن ہو جاتا ہے۔

سٹیفانیئک بتاتے ہیں کہ جب پہلی بار بلب روشن ہوا تو مجھے ’بالکل یقین نہیں آیا تھا۔ مجھے لگا کہ میں بیرونی کرنٹمنقطع نہیں کیا اور اسی وجہ سے شاید بلب روشن ہو گیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہترین دن تھا۔ ہم نے طلبا کو دعوت دی، پروفیسرز کو بھی بلایا تاکہ وہ بھی دیکھ سکیں کیونکہ جب انھیں بھی بتایا گیا تو انھیں بھی یقین نہیں آیا۔‘

ان کے پُرجوش ہونے کی وجہ کیا ہے؟ یہ بظاہر بے ضرر اور سیاہ رنگ کی کنکریٹ کا ٹکڑا توانائی کو سٹور کرنے کے مستقبل کی نمائندگی کر رہا تھا۔

گرین انرجی کے ذرائع جیسے سورج، ہوا اور سمندر سے پیدا ہونے والی توانائی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نہ ختم ہونے والی ہے۔ لیکن سورج سال میں ہر روز حرارت فراہم نہیں کرتا، ہوا ہر وقت نہیں چلتی اور ٹھہرا ہوا پانی توانائی پیدا کرنے کا ایک اچھا ذریعہ نہیں ہے۔

توانائی کے یہ ایسے ذرائع ہیں جو ہر وقت توانائی فراہم نہیں کرتے اور آج کل کی جدید اور توانائی کی پیاسی دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس توانائی کو بیٹریوں میں سٹور کرنا ہے۔ لیکن بیٹریاں ایسے مواد سے بنتی ہیں جن میں لیتھیئم استعمال ہوتی ہے جو اس وقت دنیا میں اتنی مقدار میں موجود نہیں ہے جتنی اس کی ڈیمانڈ ہے۔

دنیا میں اس وقت 101 لیتھیئم کی کانیں ہیں اور معاشی ماہرین کو خدشہ ہے ان میں دنیا کی لیتھیئم کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔

ماحولیات کا تجزیہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ لیتھیئم کی کان کنی میں پانی اور توانائی کا بڑا زخیرہ صرف ہوتا ہے جو اس کے ماحولیاتی فوائد کو کم کر دیتے ہیں۔

لیتھیئم کو نکالنے کے لیے کبھی کبھار ایسے خطرناک کیمیکلز بھی مقامی طور پر پانی کی سپلائی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ لیتھیئم کے نئے ذخائر کی دریافت کے باوجود اس کی کم مقدار میں موجودگی اور دنیا میں گنی چنی کانیں اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کے باعث اب دنیا بھر میں اس کے متبادل کی تلاش جاری ہے۔

یہاں سٹیفانیئک اور ان کی کنکریٹ کا کمال سامنے آتا ہے۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں وہ اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسی توانائی سٹور کرنے والا آلہ بنا لیا ہے جسے سوپرکیپیسٹر کہا جاتا ہے اور یہ تین عام اور سستے میٹیریئل جیسے پانی، سیمنٹ، اور کاربن بلیک سے مل کر بنتا ہے۔

سوپر کیپیسیٹرز کو توانائی سٹور کرنے کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے لیکن یہ کئی اہم وجوہات کے باعث بیٹریوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

یہ کسی بھی لیتھیئم آئن بیٹری سے زیادہ جلدی چارج ہو جاتے ہیں اور ان کی پرفارمنس میں اتنی تیزی سے کمی واقع نہیں ہوتی۔ لیکن سوپر کیپیسٹرز جمع کی ہوئی توانائی کو تیزی سے ریلیز بھی کرتے ہیں اس لیے یہ موبائل فونز، لیپ ٹاپس یا الیکٹرک کارز کے لیے سود مند نہیں سمجھے جاتے کیونکہ ان میں ایک طویل عرصے کے لیے توانائی کی پائیدار سپلائی چاہیے ہوتی ہے۔

تاہم سٹیفانیئک کے مطابق کاربن سیمنٹ دنیا کی معیشت کو کاربن سے پاک کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنا شروع کیا جائے تو اس ٹیکنالوجی سے گرین توانائی کو سٹور کرنے کا اہم مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

وہ اور ایم آئی ٹی میں موجود ان کے ساتھی محققین کا ماننا ہے کہ ان کے سوپر کیپیسیٹرز کئی طریقوں سے سازگار ہو سکتے ہیں۔

ان میں سے ایک ایسی سڑکیں تیار کرنے کے لیے جو شمسی توانائی سٹور کر سکیں اور پھر ان سے الیکٹرک گاڑیوں کے وائر لیس طریقے سے چارج کیا جائے۔ کاربن سیمنٹ سوپر کیپیسیٹرز سے توانائی کے فوری ریلیز کے باعث گاڑیوں کی بیٹریوں کو فوری طور پر چارج ہونے میں مدد ملے گی۔

اس کے علاوہ گھروں کو توانائی کو سٹور کرنے کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ ’یعنی گھر کی دیواریں، ستون یا بنیادیں ناصرف ڈھانچے کو کھڑا ہونے میں مدد فراہم کر رہے ہیں بلکہ ان میں توانائی کو سٹور بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

تاہم یہ فی الحال ایک نئی ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں اس وقت 300 واٹ آورز فی کیوبک میٹر سٹور کیے جا سکتے ہیں جس سے 10 واٹ کا ایل ای ڈی بلب 30 گھنٹوں کے لیے جلایا جا سکتا ہے۔

سٹیفانیئک کہتے ہیں کہ ’کہنے کو تو یہ عام بیٹریوں سے کم لگ سکتا ہے لیکن اگر ایک گھر کی بنیاد جو 30 سے 40 کیوبک میٹرز ہو تو یہ کسی بھی گھر کی روزانہ کی توانائی کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کنکریٹ کے استعمال میں اس حد تک اضافے کے باعث اس خاص کنکریٹ میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ توانائی سٹور کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

ایم آئی ٹی میں سٹیفانیئک اور ان کے ساتھیوں نے اسی میٹیرئل سے ایک وولٹ کے چھوٹے سوپر کیپیسیٹرز بنا کر انھیں ایک تین وولٹ ایل ای ڈی بلب چلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے 12 وولٹ کا سوپر کیپسیٹر تیار کیا۔ سٹیفانیئک نے اس سے بھی بڑے سائز کے سپر کیپیسیٹرز کے ذریعے گیمز کنسول چلائے ہیں۔

وہ اب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 45 کیوبک میٹرز تک کا سوپر کیپیسیٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں 10 کلو واٹ فی گھنٹہ کے حساب سے بجلی سٹور کی جا سکے گی اور ایک دن کے لیے ایک گھر کی توانائی کی ضرورت پوری کی جائے گی۔

بیٹری
Getty Images

سوپر کیپیسٹر دراصل کاربن بلیک کی ایک غیر معمولی صلاحیت کے باعث کام کرتا ہے اور وہ یہ کہ اس میں سے آسانی سے بجلی گزر سکتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کاربن بلیک کو سیمنٹ پاؤڈر اور پانی کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو اس سے ایک ایسا کنکریٹ بنتا ہے جس میں سے بجلی گزر سکتی ہے۔

کیپیسیٹرز دو کنڈکٹو پلیٹس کی مدد سے مل کر بنتے ہیں اور ان کے درمیان ایک جھلی موجود ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں دونوں پلیٹس ہی کاربن بلیک سیمنٹ سے مل کر بنتی ہیں جنھیں ایک ایکٹرولائٹ سالٹ پوٹاشیئم کلورائیڈ میں بھگویا جاتا ہے۔

کیونکہ سوپر کیپیسیٹرز بہت جلدی زیادہ چارج سٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے ڈیوائسز کو اضافی توانائی سٹور کرنے میں مدد ملتی ہے جو سورج اور ہوا کے ذریعے ان کو مل رہی ہوتی ہے۔

اس سے گرڈ پر اس وقت دباؤ کم کرنے میں مدد ملتی ہے جب ہوا نہ چل رہی ہو یا سورج نہ چمک رہا ہو۔

سٹیفانیئک کہتے ہیں کہ ’اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ اگر ایک گھر آف گرڈ ہے اور اس پر سولر پینلز نصب ہیں تو آپ سولر پینلز کو دن میں اور اپنے گھر کی بنیادوں یا دیواروں کو رات میں بجلی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

تاہم اس ایجاد کو حقیقی دنیا میں لانے کے لیے ابھی مزید تحقیق درکار ہے۔

ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو ماحولیاتی اعتبار سے مضر سیمنٹ کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ٹیسائڈ یونیورسٹی میں ان کے ساتھی ایسے سیمنٹ کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جس سے کاربن کا اخراج کم ہوتا ہے اور جو سٹیل اور کیمیکل انڈسٹریوں سے خارج ہونے والی دیگر مادوں سے مل کر بنائے جا سکتے ہیں۔

کم کاربن اخراج والے سیمنٹ اور توانائی سٹور کرنے والے کنکریٹ جیسے منصوبے ایک ایسے مستقبل کی جانب اشارہ کرتے ہیں جہاں ہمارے دفاتر، سڑکیں اور گھر سب ہی دنیا کو پائیدار توانائی سے چلانے میں کردار ادا کر سکیں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.