’مجھے ریپ کرنے والے کا خیال تھا وہ اس بیماری سے محفوظ ہو جائے گا‘

البینزم کو لے کر بہت سی خوفناک توہمات اور فرسودہ خیالات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ البینو افراد کے سفید بال اچھی قسمت اور دولت لاتے ہیں تاہم کچھ لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی جاتی ہے کہ البینزم کے شکار افراد کے ساتھ سیکس کرنے سے ایچ آئی وی (ایڈز) کا علاج ممکن ہے۔
ریگینا میری
Paul Mahlasela

ریگینا میری اپنے گھر کے سامنے باغ میں کھیل رہی تھیں جب پہلی بار انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور ایسا کسی اجنبی نے نہیں بلکہ ایسے شخص نے کیا جس پر وہ بھروسہ کرتی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس نے مجھے کھانے کو میٹھا دیا اور مجھے اپنی گود میں بیٹھنے کا کہا۔ جب میں بیٹھ گئی تو اس نے اپنا ہاتھ میرے لباس میں ڈال کر مجھ سے زیادتی کی۔‘

ریگینا کی عمر اس وقت صرف آٹھ سال تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد بھی وہ شخص ان کے والدین سے ملنے کے بہانے جنوبی افریقہ میں ان کے گھر آتا رہا۔ اس دوران اس شخص نے انھیں متعدد بار جنسی زیادتی اور ریپ کا نشانہ بنایا۔

لیکن صرف اسی شخص نے ریگینا کے ساتھ ایسا نہیں کیا بلکہ وہ بتاتی ہیں کہ کئی برسوں تک انھیں متعدد بار ایسے حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔

34 سالہ ریگینا کہتی ہیں کہ ان پر حملہ کرنے والے نے انھیں اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہ ’البینزم‘ (وہ حالت جس میں متاثرہ شخص کی جلد، بال حتیٰ کہ پلکیں بھی بے رنگ ہوتی ہیں) کے ساتھ پیدا ہوئیں۔ البینزم کے شکار افراد میں جلد کو رنگت دینے والے پگمینٹ متاثر ہوتے ہیں۔

ریگینا کہتی ہیں کہ اس شخص کو یہ غلط فہمی تھی کہ انھیں ریپ کر کے وہ کبھی بھی اس بیماری کا شکار نہیں ہو گا۔

البینزم سے وابستہ ایسی بہت سی خوفناک توہمات اور فرسودہ خیالات موجود ہیں۔

زیمبیا میں پیدا ہونے اداکارہ ریگینا کئی برس ڈپریشن سے لڑنے کے بعد اب اس بارے میں کام کر رہی ہیں کہ البینزم کے شکار افراد کو بہتر انداز میں کیسے سمجھا جائے۔

ریگینا نے 24 برس کی عمر میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے البینزم اور اپنی زندگی پر ایک ڈرامہ لکھا اور اس میں پرفارم بھی کیا۔

حال ہی میں ماں بننے والی ریگینا چاہتی ہیں کہ البینزم سے متعلق موجود غلط فہمیوں اور توہمات کو ختم کیا جائے تاکہ دوسروں کو ان تجربات کا سامنا نہ کرنا پڑے، جن سے انھیں گزرنا پڑا۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ البینو افراد کے سفید بال اچھی قسمت اور دولت لاتے ہیں تاہم کچھ لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ البینزم کے شکار افراد کے ساتھ سیکس کرنے سے ایچ آئی وی (ایڈز) کا علاج ممکن ہے۔

کوویڈ 19 کی وبا کے بعد ایسی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ اس سے کورونا وائرس کا علاجممکن ہے۔

البینزم کے حوالے سے پائی جانے والی توہم پرستی، جیسا کہ ان کے جسم کے اعضا میں جادوئی طاقت ہوتی ہے، کی وجہ سے ان افراد کو اغوا اور قتل کرنے کی بھی اطلاعات سامنے آتی رہیں۔

ریگینا میری کا بچپن
Handout
ریگینا یاد کرتی ہیں کہ جب وہ پانچ برس کی تھیں تو روزانہ بچوں کا ایک ہجوم ان کے باغ کے دروازے پر جمع ہوتا تھا

ریگینا یاد کرتی ہیں کہ جب وہ پانچ برس کی تھیں تو روزانہ بچوں کا ایک ہجوم ان کے باغ کے دروازے پر جمع ہوتا تھا۔

وہ سمجھتی تھیں کہ وہ ان سے کھیلنے آتے ہیں لیکن جب وہ بچوں کے پاس جاتیں تو وہ بھا گ جاتے۔ ریگینا کو لگا کہ شاید یہ کھیل کا حصہ ہے لیکن ایک دن ایک خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ ان کے باغ میں آئیں۔

ریگینا کہتی ہیں ’چھوٹی لڑکی نے مجھے ایک نظر دیکھا اور رونے لگی۔ اسے لگا میں کوئی خوفناک چیز ہوں۔ اس واقعے نے مجھے خاصا پریشان کر دیا۔‘

ریگینا نے یہ بھی دیکھا کہ جب وہ سکول میں اپنے ہم جماعت بچوں کے پاس سے گزرتیں تو وہ انھیں دیکھ کر اپنی قمیض کے اندر تھوک دیتے۔ بعد میں ریگینا کو پتا چلا کہ یہ عمل دراصل توہم پرستی ہے اور لوگ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ البینزم کا شکار نہ ہو۔

ریگینا کو سکول میں پڑھائی کے دوران بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کمزور بینائی (جو البینزم میں عام ہے) کی وجہ سے انھیں بلیک بورڈ دیکھنے میں مشکل ہوتی اور صرف بہت کم فاصلے سے ہی وہ صحیح طرح سے دیکھ پاتیں۔

لیکن جب ریگینا نے اپنی ٹیچر سے اس بارے میں شکایت کی تو انھیں کہا گیا کہ ان کے لیے ’کوئی خاص انتظامات نہیں کیے جائیں گے۔‘

ریگینا ان مشکلات کی وجہ سےاپنی پڑھائی جاری نہ رکھ سکیں، انھیں سکول چھوڑنا پڑا اور اس کا مطلب ہے کہ انھیں نوکری بھی نہ مل سکی۔

لیکن سنہ 2013 میں انھیں بائبل کی ایک آڈیو بک ملی جس نے ان کی زندگی کو بدل کر دکھ دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں جب بھی کتابیں دیکھا کرتی تو میں ساکت ہو جاتی تھی۔ مجھے احساس ہوتا کہ میں بے وقوف ہوں اور میری پوری دنیا رک سی جاتی۔‘

’لیکن پھر میں نے آڈیو کتابیں سننا شروع کیں اور مجھے احساس ہوا کہ الفاظ اور آوازوں میں ایک تعلق ہوتا ہے اور دنیا جیسے میرے لیے کھل سی گئی۔‘

’دا ینگ افریقن لیڈرز‘ پروگرام کی مدد سے ریگینا نے اداکاری شروع کی اور اپنے ڈرامے ’میری، مائی وائس‘ میں پرفارم کیا۔

ریگینا کہتی ہیں کہ ’جب میں نوجوان تھی تو سکرین پر البینو افراد کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ میں یہ بدلنا چاہتی ہوں۔‘

اس شو کو دیکھنے والے افراد میں سے ایک نے ڈرامے سے متاثر ہو کر ریگینا کے لیے ٹیوٹر اور ان کی فیس دینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ پڑھنا لکھنا سیکھ سکیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ابھی بھی پڑھنا اور لکھنا مشکل لگتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اب میں ماضی کی طرح خوفزدہ نہیں ہوں۔‘

ریگینا امید کرتی ہیں کہ ایک دن وہ اپنی بیٹی کو سکول کے ہوم ورک میں مدد کرنے کے قابل ہوں گی۔ ابھی وہ ایک مشکل حمل سے گزرنے کے بعد ماں بننے کے احساس سے لطف و اندوز ہو رہی ہیں۔

اپنی بیٹی کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’دیکھیں ناں، یہ کتنی پیاری ہے۔‘

ریگینا کی بیٹی کو البینزم نہیں ہے لیکن وہ کہتی ہیں اگر ایسا ہوتا تو وہ پھر بھی خوش ہوتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میری بیٹی میرے لیے پوری دنیا ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ میں اسے وہ مواقع دوں گی جو مجھے نہیں ملے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.