فرانس میں شراب بنانے والوں نے کیسے نازیوں کو چکما دیا اور دوسری عالمی جنگ کے ہیرو بنے

فرانس میں شراب بنانے والوں نے اپنی بہترین شراب کی بوتلیں چھپانے سے لے کر اتحادی افواج کو خفیہ معلومات دینے تک فرانسیسی مزاحمت میں انتہائی کردار ادا کیا۔

فرانس میں شراب بنانے والوں نے اپنی بہترین شراب کی بوتلیں چھپانے سے لے کر اتحادی افواج کو خفیہ معلومات دینے تک فرانسیسی مزاحمت میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

ہٹلر شراب نہیں پیتے تھے لیکن نازی فوج میں اہم عہدوں پر فائز ان کے ساتھی شراب نوشی کرتے تھے۔ ہٹلر کے کمانڈر ان چیف ہرمن گورنگ، وزیر خارجہ جوآچم وون ربین ٹروپ اور پروپیگنڈے کے وزیر جوزف گوئبلز کی بورڈیاکس، برگنڈی اور شیمپین شرابوں کے لیے پسندیدگی نے مقبوضہ فرانس میں نازی پالیسیوں کو متاثر کیا۔

تاہم جب دوسری عالمی جنگ کے دوران فرانسیسی شراب کے لیے نازیوں کی پیاس شدت اختیار کر گئی تو فرانس کے کچھ شراب بنانے والوں نے اس دوران مزاحمت کا راستہ اپنایا اور کئی شراب بنانے والے جنگ میں ہیرو بن گئے۔

دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے پہلے تک فرانس ہر برس 79 ملین ہیکٹو لیٹر شراب تیار کرتا تھا اور اسی وجہ سے فرانسیسی شراب کی مارکیٹ جرمنی کے لیے بڑا اقتصادی ہدف تھی۔

کتاب ’نازیوں کی شراب‘ کے مصنف کرسٹوف لوکانڈ کہتے ہیں کہ ’شراب نازیوں کے لیے مال غنیمت کا درجہ رکھتی تھی۔‘

فرانس کی لگژری شراب جیسے کہ شیمپین، برگنڈی، بورڈیاکس کو جرمن اشرافیہ میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ اس لگژری شراب کی سونے کی قیمت پر لین دین کی جاتی تھی۔

جون 1940 میں فرانس کی جنگ میں نازیوں کی فتح کے بعد جرمنی نے ملک کو جنوب کے آزاد اور شمالی مقبوضہ علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک ایسی تقسیم جس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ شراب بنانے والے مشہور علاقے برگنڈی اور شیمپین نازیوں کے کنٹرول میں آ گئے ہیں۔

ممکن ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے نازیوں کا جنوبی بورڈو پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہ ہو لیکن اس کی شمولیت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ نازیوں کو فرانس کے بحر اوقیانوس کے ساحل اور اس کی شراب پر مکمل کنٹرول حاصل ہو۔

کتاب لیس رائسنز ڈو ریخ (ریخ کے انگور) کے مصنف انٹونی ڈریفس نے لا نوویل ریپبلک کو بتایا کہ ’اگر آپ مقبوضہ علاقے اور فری زون کے درمیان حد بندی کی لکیر کو دیکھیں تو یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ یہ ایک سیدھی لکیر نہیں ہے جو فرانس کو نانٹس سے سٹراسبرگ تک نصف میں کاٹتی ہے۔ یہ بورڈو اور کوگنک کو شامل کرتی ہے۔‘

جنگ کے آغاز میں فرانس کی شراب کا زیادہ تر حصہ صرف نازیوں نے لوٹا تھا لیکن آزاد مارکیٹ کا تاثر دینے کے لیے جلد ہی ایک نظام بھی متعارف کرایا گیا۔

نازیوں کے خصوصی نمائندے (جنھیں فرانسیسیوں نے ’وائن لیڈرز‘ کا نام دیا) شراب تیار کرنے والے ہر بڑے خطے میں بھیجے گئے۔ ان خصوصی نمائندوں کو فرانسیسی شراب کی فراہمی اور اسے جرمنی بھیجنے کا کام سونپا گیا تھا۔

اس کے نتیجے میں سنہ 1945 تک کئی ملین ہیکٹو لیٹر شراب کو زبردستی مارکیٹ سے کم نرخوں پر خریدا گیا یا نازیوں نے چوری کر لیا اور پھر اسے جرمن اشرافیہ اور اس کے اتحادیوں میں تقسیم کیا گیا۔

لوکانڈ کے مطابق ’روزمرہ استعمال ہونے والی شراب کو بہت بڑی مقدار میں جرمنی کی جنگی کوششوں کا جواب دینے، سویلین آبادی اور فوجیوں کو پلانے اورالکوحل کے ایندھن میں تبدیل کر دیا جاتا۔‘

شیمپین تیار کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم (Comité Interprofessionnel du vin de Champagne) کی بریگیٹ بیٹونیٹ کہتی ہیں کہ نازی پالیسیوں نے شراب کی صنعت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شراب صرف جرمنی یا اس کے اتحادیوں کو فروخت کی جاتی اور وہ بھی اس نرخ پر جو جرمن طے کرتے تھے۔‘

کتاب ’وائن اینڈ وار‘ کے مطابق جنگ کے وقت قلت اور 1940 کی تباہ کن ناقص فصل کی وجہ سے ہر ہفتے تقریباً پانچ لاکھ بوتلوں کے آرڈرز پورے کرنا ناممکن ہو گیا۔

بریگیٹ بیٹونیٹ کے مطابق ’بین الاقوامی مارکیٹ میں شیمپین کی کمی کی وجہ سے اس کی نقل تیار ہونے لگی اور امریکی شراب کی پیداوار میں چار گنا اضافہ ہوا اور انھوں نے اپنی بوتلوں پر شیمپین کا لیبل لگانا شروع کر دیا جو آج بھی ایک مسئلہ ہے۔‘

دوسری عالمی جنگ کے دور کا یہ مسئلہ فرانس کے علاقے ایپرنی میں موجود شیمپین کے میوزیم کا دورہ کرنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے، جہاں بہت سی ایسی بوتلیں موجود ہیں جن کو غیر قانونی طور پر اس علاقے کا نام دیا گیا۔

نازی پالیسیاں فرانسیسی شراب کی پیداوار کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں لیکن بہت سے شراب تیار کرنے والوں نے کم از کم شروع میں تو ان پالیسیوں پر عملدرآمد کیا۔

لوکانڈ کہتے ہیں کہ ’شراب تیار کرنے والے پیشہ ور افراد کی اکثریت کو زندہ رہنے کے لیے سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کو شراب فروخت کرنی پڑی لیکن ان میں سے کچھ نے بعد میں مزاحمت بھی کی۔‘

شراب تیار کرنے کے لیے لوگوں، جانوروں اور مواد کی کمی کی وجہ سے سنہ 1942 تک فرانس میں شراب کی پیداوار سنہ 1939 میں تیار کی گئی 69,015,071 ہیکٹو لیٹرز سے کم ہو کر 35,022,362 رہ گئی۔

اور اگرچہ فرانس میں وائن کی پیداواروالے علاقوں میں بہت سے لوگ شروع میں وشی حکومت سے ہمدردی رکھتے تھے، لیکن قبضے کے آخری نصف حصے میں روّیوں میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔

وشی (جرمن حکومت) کی نئی پالیسیوںکے مطابق شراب کی تشہیر کو ممنوع قرار دیا گیا، بھاری ٹیکس لگائے گئے اور فرانس میں شراب پینے کی اوّلین کم از کم عمر 14 سال مقرر کی گئی۔

رد عمل ’شک سے لے کر کھلی دشمنی‘ تک تھا اور 1943 میں جبری کام کے نفاذ نےصورتحال کو مزید تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔

قبضے کے آغاز سے ہی فرانسیسی شراب کی دنیا میں مزاحمت کی چھوٹی چھوٹی کارروائیاں سامنے آئیں۔ پیرس کے مشہور لا ٹور ڈی ارجنٹ ریستوراں کے مالک سے لے کر شیمپین کے لورینٹ پیریئر وائن لیبل کے مالک ڈینونن کورٹ خاندان تک ہر کوئی نازیوں سے اپنی بہترین وینٹیج شراب چھپاتا تھا، کئی نے جلد بازی میں دیواریں تعمیر کر کے اس کے پیچھے اپنی شراب چھپائی۔

کلاڈسٹرپس کی کتاب میں برگنڈی سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈروہن بتاتے ہیں کہ انھیں صرف آٹھ سال کی عمر میں ایک نئی تعمیر شدہ دیوار کے سامنے مکڑیاں رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس امید میں کہ یہ ان کی جالوں سے ڈھک جائے گی اور ان کے والد کی بہترین رومنی کونٹی (دنیا کی سب سے مشہور اور مہنگی شراب) نازیوں کی پہنچ سے دور رہے گی۔

بہت سے دوسرے لوگوں نے جرمن احکامات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا بدترین ذخیرہ بھی انھیں دے دیا کہ نازی اتنے عقلمند نہیں کہ اسے پہچان پائیں۔

کچھ معاملات میں فرانسیسی شراب سازوں کو دوسری طرف سے مدد ملی تھی۔ وینفررز اس صنعت میں تجربہ کار تھے اور انھیں ان کی شراب کی مہارت کی وجہ سے خصوصی طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھی شراب بنانے والے افراد کے لیے زیادہ ہمدردی رکھتے تھے۔

کلاڈسٹرپس لکھتے ہیں کہ برگنڈی کے وینفرر، ایڈولف سیگنٹز نے شراب بنانے والوں کی جانب سے اپنی بہترین بوتلیں چھپانےکے معاملے سے صرفِ نظر کیا اور بورڈو میں، وینفرر ہینز بومرز چونکہ گورنگ سے بہت نفرتکرتے تھے اس لیے انھوں نےاسے چیٹو موٹن روتھشائلڈ آرڈرزکے بدلے جان بوجھ کر غلط لیبل والی عام شراب فراہم کی۔

مزاحمت کی ان چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے علاوہ ایک بڑی فرانسیسی مزاحمت بھی پیدا ہو رہی تھی۔

اس خفیہ نیٹ ورک میں کمیونسٹ چارلس ڈی گال (جنھوں نے لندن سے جلاوطنی کے دوران آزاد فرانس کی قیادت کی) کے وفادار گالسٹ اور میکوئس شامل تھے۔ یہ ایک گوریلا گروپ تھا جو وشی فرانس کی لازمی ورک سروس میں زبردستی بھرتی سے فرار ہونے والوں پر مشتمل تھا۔

جیسے جیسے جنگ آگے بڑھ رہی تھی مختلف خفیہ گروہ ایک زیادہ مربوط نیٹ ورک بن گئے جس میں بہت سے لوگ 1943 تک جنرل ڈی گال کی کمان میں اکٹھے ہو گئے۔

حساس معلومات تک رسائی حاصل کرکے جرمن نقل و حمل اور رسد کو روکنے کے لیے ریل سسٹم پر حملے کے بعد ساتھیوں کو غیر قانونی ہتھیار فراہم کرکے، فرانسیسی مزاحمت نے اتحادیوں کی آزادی کی حکمت عملی میں نمایاں مدد کی۔

فرانس
Getty Images
مشہور شیمپین ہاؤس پائپر-ہیڈسیک نے اپنے تہہ خانے میں مزاحمت کے لیے رائفلیں اور دستی بم جمع کیے

نازی پالیسیوں کے دباؤ اور جرمنی کے لیے ’قیمتی مال‘ کی فراہمی کی وجہ سے مزاحمتی کارکن بننے والےبہت سے لوگ فرانسیسی شراب ساز تھے۔

مثال کے طور پر وسطی تورین خطے میں جیسا کہ کلاڈسٹرپس لکھتے ہیں کہ وائن کی پیداوار کرنے والےجین مونموسیکس نازی کنٹرول والے شمالی علاقے اور وشی حکومتکے جنوبی علاقے کی حد کے اتنے قریب رہتے تھے کہ انھیں باقاعدگی سے شراب کی کھیپ کے ساتھ دوسری جانب جانے کے لیے کہا جاتا تھا۔

مزاحمتی گروپ کمبیٹ کے ایک رکن کی حیثیت سے مونموسیکس نے مزاحمتی رہنماؤں کو شراب کے بیرلوں کے ساتھ دو سال تک مقبوضہ علاقے کے اندر اور باہر منتقل کیا تاکہ مختلف خفیہ گروہوں کے مابین مواصلات کو آسان بنایا جاسکے اور ان کی کوششوں کو مربوط کرنے میں مدد مل سکے۔

شیمپین کے علاقے میں، مزاحمت حقیقی معنوں میں زیر زمین چلی گئی جہاں 2،000سال پرانے چاک کے غاروں کی بھول بھلیوں کو استعمال کیا جانے لگا۔ ان غاروں میں سے بہت سی آج سیاحت کی غرض سے عوام کے لیےکھول دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک غار آٹھ کلومیٹر طویل ہے جسے یونیسکو نے عالمی ورثے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

جنگ کے دوران 1785 میں قائم ہونے والے شیمپین ہاؤس کوپائپر ہیڈسیک کے سربراہ مارکوئس سوریز ڈی اولان نے ہتھیاروں کے ڈپو میں تبدیل کردیا جس میں اتحادیوں کی طرف سے پیراشوٹ کی گئی رائفلوں اور دستی بموں کو ذخیرہ کیا گیا جنھیں بعد میں مزاحمت کے لیے استمعال کیا گیا۔

فرانسیسی مسلح افواج کی وزارت کے مطابق اس مسلح مزاحمت نے نومنڈی میں ڈی ڈے لینڈنگ سے پہلے اور اس کے بعد کے دنوں میں ضروری زمینی امداد فراہم کی۔ فرنٹ لائن تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے دشمن کے فوجیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا، بڑے شہروں کو آزاد کرایا اور مغربی بندرگاہوں میں دشمن کے یونٹوں کو روکا گیا۔

نازیوں کی شیمپین کی خواہش نے اتحادیوں کو جاسوسی میں بھی مدد کی۔ 1940 میں جرمنی کے حملے سے قبل رومانیہ کو شیمپین کی بڑے پیمانے پر ترسیل کے بعد فرانسیسی مزاحمت نے غیر معمولی آرڈرز پر گہری نظر رکھنے کے لیے شیمپین کی پیداوار کرنے والوں کی مدد حاصل کی۔

سنہ 1941 میں مزاحمت نے برطانوی انٹیلی جنس کو مطلع کیا کہ ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس میں گرمی سے بچانے والی پیکیجنگ میں شیمپین کی ایک بڑی کھیپ ’ایک بہت گرم ملک‘ کے لیے طلب کی گئی تھی۔ یہ آرڈر نازیوں کے شمالی افریقہ پر حملے کے آغاز سے ٹھیک پہلے کیا گیا تھا۔

شیمپین سے تعلق رکھنے والے برنارڈ ڈینون کورٹ صرف 19 سال کے تھے جب جنگ شروع ہوئی، لیکن جیسا کہ بیٹننیٹ نے کہاکہ ’جنگ کا اعلان ہوتے ہی وہ مزاحمت میں شامل ہو گئے۔‘وہ مشہور ایبے پیئر کے نیٹ ورک میں شامل ہو گئے۔

لارنٹ پیریئر شیمپین ہاؤس کے بہادر اور جدت طراز رہنما بننے سے بہت پہلے وہ ایک قابل ذکر مزاحمتی جنگجو بن گئے۔

ڈی ڈے لینڈنگ کے بعد ڈینون کورٹ نے ایک بکتر بند ٹینک رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور ڈکاؤکی آزادی کے ساتھ ساتھ ہٹلر کی نجی پہاڑی چوٹی ’ایگلز نیسٹ‘ کی پسپائی کے لیےکیے گئے حملے میں حصہ لیا جہاں وہ ان ہزاروں بوتلوں کی جھلک دیکھنے والے پہلے شخص تھے جو نازیوں نے جمع کی تھیں۔

انھیں ان کی خدمات کے لیے کروکس ڈی گورے سے نوازا گیا تھا۔

ان بہادر ہیروز میں سے بیشتر سے بھاری قیمت ادا کی۔ مقبوضہ علاقے میں موجود وائن کے باغات سے مزدوروں کو باہر نکالنے کی کوشش میں برنارڈ کے بھائی مورس ڈینون کورٹ کو پکڑ لیا گیا اور حراستی کیمپ بھیج دیا گیا جہاں وہ 1945 میں فوت ہوگئے۔

مشہور شیمپین ہاؤس کے سربراہ گیسٹن پوئٹیوین اور شیمپین میں مشہور وائن بنانے والے ہنری مارٹن سمیت بے شمار افراد کو بھی اپنی بہادری کی وجہ سے اسی طرح کا انجام بھگتنا پڑا۔

چھ جون 1944 کو اتحادی نومنڈی میں اترے اور آہستہ آہستہ علاقے آزاد ہونے لگے۔ اگست میں وہ شیمپین اور بورڈو اور ستمبر میں برگنڈی میں آگئے۔ سات مئی 1945 کو جرمنوں نے شیمپین کے غیر سرکاری دارالحکومت ریمز میں ہتھیار ڈالنے کے کاغذات پر دستخط کیے۔

یوم فتح کے موقع پر بہت سے اتحادی فوجیوں کو جشن منانے کے لیے فرانسیسی وائن کی بوتل بھی دی گئی۔ آج ریمز کے میوزیم میں سیاح اس کمرےکو دیکھ سکتے ہیں جس میں ہتھیار ڈالنے پر دستخط کیے گئے تھے۔

بیٹنیٹ کہتے ہیں کہ ’جنگ کے دوران شیمپین کے رہنے والے شیمپین نہیں پی رہے تھے۔ شیمپین پینے والے فرانسیسی نہیں تھے۔ ہمیں جرمنوں کو سپلائی کرنا تھا لیکن آزادی کے بعد ہم نے اتحادی افواج کو بھی یہ فراہم کی۔‘

پھر ایک دم سے دنیا کی سب سے مشہور شراب ایک بار پھر جشن کی شراب بن گئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.