برطانیہ الیکشن 2024 اور آپ کے سوالات: داؤ پر کیا لگا ہے اور آگے کیا ہو گا؟

برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں اگلے عام انتخابات چار جولائی کو ہوں گے۔ یہ عمل توقع سے پہلے ہو رہا ہے، کیونکہ توقعات موسم خزاں میں انتخابات کے لیے تھیں۔ آئیں اس موضوع پر آپ کے سوالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
uk flag and ballot box
Getty Images

برطانیہ کے وزیراعظم رشی سونک نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں اگلے عام انتخابات چار جولائی کو ہوں گے۔

یہ عمل توقع سے پہلے ہو رہا ہے، کیونکہ توقعات موسم خزاں میں انتخابات کے لیے تھیں۔

آئیں اس موضوع پر آپ کے سوالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

برطانیہ میں عام انتخابات کب ہوں گے؟

ملک میں عام انتخابات چار جولائی 2024 کو ہوں گے۔ برطانیہ میں ایک حکومت کی سیاسی مدت پانچ سال کی ہوتی ہے اور چونکہ کنزرویٹو پارٹی نے دسمبر 2019 میں آخری الیکشن جیتا تھا اس لیے اگلے عام انتخابات قانون کے مطابق جنوری 2025 تک ہونے تھے۔

برطانیہ کو 650 حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان حلقوں میں سے ہر ایک کے ووٹر مقامی شہریوں کی نمائندگی کے لیے ایوانِ زیریں یا ہاؤس آف کامنز میں بیٹھنے کے لیے ایک رکن اسمبلی کا انتخاب کرتے ہیں۔

زیادہ تر امیدوار سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن کچھ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

رشی سونک نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیوں کیا؟

Rishi Sunak, announcing the election day under heavy rain in London
Getty Images
رشی سونک برطانیہ میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے

رائے عامہ کے جائزوں میں رشی سونک کی کنزرویٹو پارٹی کو 2021 سے تنزلی کا سامنا ہے۔

بی بی سی کے مدیر برائے سیاسی امور کرس میسن کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے کچھ سیاست دانوں نے محسوس کیا کہ آنے والے عرصے میں شاید حالات زیادہ بہتر نہیں ہوں گے۔ ’دوسرے لفظوں میں، ابھی کرو ورنہ یہ مزید خراب ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم انھوں نے اپنے کچھ مقاصد حاصل کیے یا پھر وہ بظاہر تکمیل کے راستے پر ہیں۔‘

کرس میسن کے مطابق ’افراط زر کی شرح کو ایک کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً اس کا تعلق صرف حکومت کے اقدامات سے نہیں ہے لیکن جب یہ مہنگائی بڑھتی ہے تو حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لہذا یہ توقع کرنا مناسب ہے کہ وہ اس کے کم ہونے پر کچھ کریڈٹ لینے کی کوشش کریں اور یہ کم ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’وسیع تر معاشی تصویر بھی قدرے روشن دکھائی دے رہی ہے۔‘

رائے عامہ کے جائزوں میں سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں؟

رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق رشی سونک کی کنزرویٹو پارٹی اپنی بڑی مخالف جماعت لیبر پارٹی سے کہیں پیچھے ہے۔

درحقیقت، یہ صورتحال گذشتہ 12 ماہ سے ایسی ہی ہے اور لیبر کی پسندیدگی مسلسل 40 فیصد سے زیادہ ہے۔

Voting intentions chart
BBC

بلاشبہ، رائے عامہ کے جائزے غلط ہو سکتے ہیں اور رشی سونک امید کر رہے ہوں گے کہ مہنگائی میں حالیہ کمی اور سیاسی جماعتوں کے پالیسی پلیٹ فارمز پر توجہ مرکوز کرنے سے انتخابی مہم کے آنے والے دور میں کنزرویٹوز کو مدد ملے گی۔

فی الوقت جو حالات ہیں ان کے مطابق لیبر پارٹی نے انتخابی مہم کا آغاز ایک واضح سبقت کے ساتھ کیا ہے۔

ریفارم یو کے جو کہ امیگریشن مخالف دائیں بازو کی جماعت ہے، تیسرے نمبر پر ہے، لیکن ان کی حمایت پورے ملک میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے اور اس حمایت کو پارلیمنٹ کی نشستوں میں تبدیل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

لبرل ڈیموکریٹس، جو پہلے ملک کی تیسری سب سے بڑی پارٹی تھی، تسلسل سے اوسطاً تقریباً 10 فیصد حمایت لے رہی ہے، لیکن وہ پرامید ہے کہ مخصوص حلقوں پر توجہ مرکوز کرکے الیکشن میں فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

رشی سونک کے روانڈا منصوبے کا کیا ہو گا؟

رشی سونک نے عام انتخابات سے قبل سیاسی پناہ کے کچھ متلاشیوں کو روانڈا روانہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے اس پالیسی پر عملدرآمد کو اپنی وزارت عظمیٰ کی ایک اہم ترجیح قرار دیا تھا اور دلیل دی کہ یہ لوگوں کو چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل عبور کرنے سے روکے گا۔

لیکن قبل از وقت عام انتخابات کے اعلان کے بعد، انھوں نے اب کہا ہے کہ اگر وہ چار جولائی کو دوبارہ منتخب ہوئے تو اس سکیم پر عمل شروع ہو جائے گا۔

لیبر پارٹی نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار حاصل کر لیتی ہے تو اس منصوبے کو ختم کر دے گی۔

یہ سکیم، جس پر پہلے ہی 240 ملین پاؤنڈ لاگت آچکی ہے، چھ ہفتے کی انتخابی مہم کے دوران دو اہم جماعتوں کے درمیان تقسیم کی ایک اہم لکیر ہے۔

اہم امیدوار کون ہیں؟

عام انتخابات میں جن دو جماعتوں سے اس وقت ووٹوں کا سب سے زیادہ حصہ ملنے کی توقع ہے وہ حکمران کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی ہیں۔

وزیر اعظم رشی سونک، جن کی عمر 44 برس ہے، کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ 42 سال کے تھے جب 2022 میں وزیراعظم بنے تھے، جس سے وہ جدید دور میں اس عہدے پر فائز ہونے والے سب سے کم عمر شخص بنے۔ وہ پہلے انڈین نژاد برطانوی وزیراعظم بھی ہیں۔

لیبر پارٹی کے رہنما سر کیر سٹارمر ہیں، جن کی عمر 61 سال ہے۔ وہ 2020 میں جیریمی کوربن کے بعد پارٹی کے قائد منتخب ہوئے تھے۔ وہ اس سے قبل کراؤن پراسیکیوشن سروس کے سربراہ اور پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔

british flag and the parliament building
Getty Images

الیکشن سے قبل پارلیمان کا کیا ہو گا؟

وزیراعظم نے قبل از وقت انتخابات کے اعلان کے بعد باقاعدہ طور پر ملک کے بادشاہ شاہ چارلس سے پارلیمان تحلیل کرنے کو کہا اور 30 مئی کو برطانوی ایوانِ زیریں کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔

اس تحلیل کے نتیجے میں ارکانِ اسمبلی اب ایوان کے رکن نہیں رہے اور انھیں آنے والے الیکشن کے لیے انتخابی مہم کا حصہ بننے کا موقع ملا۔

100 سے زیادہ ارکان نے کہا ہے کہ وہ چار جولائی کو ہونے والے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔

اس وقت موجودہ حکومت انتخابات سے پہلے کی دورمیں ہے اس کے تحت انتخابی مہم کے دوران وزارتی اور محکمانہ سرگرمیوں کو محدود کر دیا جاتا ہے۔

انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد کیا ہو گا؟

ووٹوں کی گنتی کے بعد، بادشاہ سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی کے قائد سے وزیراعظم بننے اور حکومت بنانے کے لیے کہیں گے۔

دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کا سربراہ اپوزیشن لیڈر بنتا ہے۔

اگر کوئی بھی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر پاتی یعنی وہ صرف اپنے ارکان پارلیمان کی مدد سے قانون سازی نہیں کر سکتی تو نتیجہ معلق پارلیمنٹ ہے۔

اس وقت، ایوان میں سب سے بڑی جماعت کسی بھی قانون کو منظور کرنے کے لیے دوسری پارٹیوں کے ووٹوں پر انحصار کرتے ہوئے، کسی دوسری پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے یا اقلیتی حکومت کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.