اسرائیلی شیکل، امریکی ڈالر اور اردنی دینار: نقدی کے بحران کے شکار غزہ کے باسی لین دین کیسے کر رہے ہیں؟

حالیہ مہینوں میں غزہ میں نقد رقم کی بہت کمی ہو گئی ہے خاص طور پر جب سے اسرائیل نے فلسطینی ٹیکس محصولات سے غزہ کی مختص رقم کو منجمد کیا ہے۔
 اے ٹی ایم مشین میں گولیوں کے خول کے سوراخ
Getty Images
جنگ کے دوران غزہ کے متعدد اے ٹی ایم خراب ہو چکے ہیں

’ایسے دن بھی آتے ہیں جب میں اپنے بچوں کے لیے ایک روٹی نہیں خرید سکتا، حالانکہ روٹی دستیاب ہوتی ہے اور میرے بینک اکاؤنٹ میں پیسے بھیہوتے ہیں۔‘

غزہ کے علاقے دیر البلاہ سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی نوجوان محمد الکلوب کا کہنا ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقماب ان کے لیے کسی کام کی نہیں کیونکہ وہ نقد رقم نہیں نکال سکتے جبکہ بہت سے دکاندار الیکٹرانک لین دین قبول نہیں کرتے۔

حالیہ ماہ میں غزہ میں نقد رقم کی بہت کمی ہو گئی ہے خاص طور پر جب سے اسرائیل نے غزہ کے لیے مختص فنڈز کو منجمد کیا ہے۔

کیش کی مشکلات

غزہ جنگ کے آغاز کے ساتھ جیسے ہی بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعدادبڑھی،نقد رقم کے حصول کی خاطراے ٹی ایم مشینوں اور بینکوں کے سامنے لوگوں کی لمبی قطاریں لگنے لگیں۔بہت سے لوگپیسے نکالنے کی باری آنے سے پہلے کئی دن انتظار کرتے تھے۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا جنگ میںبینک بھی تباہ ہوتے گئے۔ ایسے میں کچھ شہریوںنے موقع سے فائدہ اٹھانے کی ٹھانی اور ’منی ایکسچینج مافیا ‘ کے طور پر سامنے آئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے افراتفری اور خوف و ہراس کے درمیان پیسہ کمانے کا موقع ذھونڈ نکالا تھا۔

جنگ شروع ہونے کے چھ ماہ بعد 24 مارچ کو فلسطینی مانیٹری اتھارٹی نے اعلان کیا کہ ’مسلسل بمباری، بجلی کی بندش اور مشکل زمینی صورتحال کی وجہ سے غزہ کی پٹی کے بینکوں کی تمام برانچیں کھولنا ممکن نہیں ہے۔‘

اس کے نتیجے میں نقدی کا غیر معمولی بحران پیدا ہوا۔ دوسری جانب زیادہ تر اے ٹی ایم بھیکام نہیں کر رہے۔

11 مئی کو فلسطین مانیٹری اتھارٹی نے آن لائن بینکنگ سروسز، الیکٹرانکوالٹ اور بینک کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے ایک فوری الیکٹرانک ادائیگی کی سروس شروع کی۔ تاہمانٹرنیٹ کی بندش اس کے درمیان ایک رکاوٹ تھا اور یہسروسفروغ نہ پا سکی۔

محمد نے بتایا کہ ’جنگ کے دوران آٹھ ماہ میںمجھے صرف ایکدکان مل سکی جس میں الیکٹرانک طریقے سے ادائیگی کر سکتا تھا۔خاص طور پر اب ضروریات کی چیزیں دکانوں کے بجائے کیمپوں میںلگے سٹالزپر فروخت کی جا رہی ہیں۔‘

نقد رقم حاصل کرنے کے لیےاے ٹی ایم کے سامنے قطاریں
Getty Images
غزہ کے باشندے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اپنی نقد رقم حاصل کرنے کے لیے گھنٹوں اے ٹی ایم کے سامنے قطار میں کھڑے رہتے

غزہ کی معیشت

غزہ میں نقدی کے موجودہ بحران کی وجہکو جاننے کے لیےیہاں کے مالیاتی نظام کو قریب سے دیکھنا ہو گا۔ 2007 میں حماس کے مکمل کنٹرول کے بعد سے غزہ پرعائد کی گئی رکاوٹوں سے اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند گروپ کے حملوں کو روکنے کے لیے یہ رکاوٹیں ضروری ہیں۔

غزہ کی پٹی میں بینک یا تو فلسطین مانیٹری اتھارٹی اور رام اللہ میں فلسطین کی حکومت سے منسلک ہیں یا پھر نجی ملکیت میں ہیں اور حماس کی حکومت سے وابستہ ہیں۔

فلسطین مانیٹری اتھارٹی کا قیام پیرس معاہدے کے تحت کیا گیا تھا، جس پر 1994 میں دستخط کیے گئے تھے، اور یہ اوسلو معاہدے سے منسلک ایک اقتصادی ضابطہ ہے۔

اس معاہدے نے فلسطینی معیشت اور اس کے مالیاتی لین دین کو اسرائیلی بینکاری نظام کی براہ راست نگرانی اور کنٹرول میں رکھا۔

معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ٹیکس وصول کرتا ہے اور انھیں ماہانہ بنیادوں پر، اسرائیلی وزارت خزانہ کی منظوری، دستخطاور ایک فیصد کٹوتی کے بعد مانیٹری اتھارٹی کو منتقل کرتا ہے۔

ان فنڈز کو ٹیکس ریونیو کہا جاتا ہے اور یہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی آمدنی کے سب سے بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان فنڈز کا ایک حصہ غزہ کی پٹی کو مختص کیا جاتا ہے۔

2007 میں جب حماس نے غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالا تو غزہ کے ہزاروں سرکاری ملازمین فلسطینی اتھارٹی سے اپنی تنخواہیں وصول کرتے رہے۔ یہ غزہ میں مانیٹری اتھارٹی سے منسلک بینکوں کے ذریعے منتقل کیے گئے تھے۔

غزہ میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے مہاجرین (UNRWA) اور قطری امدادکی مد میں بھی نقد رقم غزہ میں آئی، جسے غزہ میں ڈالرز کی آمد کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

غزہ سے تعلق رکھنے والے معاشی محقق احمد ابو قمر آمدنی کے اس سلسلے کو ’نقدی کے سرکاری راستے‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

احمد ابو قمر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں غیر سرکاری راستے بھی ہیں، جنھیں ’شیڈو اکانومی‘ کہا جاتا ہے اور اس میں مختلف اشیا کو نقدی سے تبدیل کیا جاتا ہے۔

لیکن غیر سرکاری راستوں سے پیدا ہونے والی نقد رقم مانیٹری سائیکل یا ’منی سپلائی‘ میں ظاہر نہیں ہوتی۔

انھوں نے کہاکہ غزہ کے تمام مالی وسائلمل کر بھی ایک صحت مند معاشی نظامقائم کرنے کے لیے ناکافی رہے جس سے غزہ کی پٹی میں مقیم20 لاکھ سے زائد شہری معمول کے مطابق زندگی گزار سکتے۔

مالی لین دین میں استعمال ہونے والی تین کرنسیاں

سرائیلی شیکل غزہ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے
Getty Images
اسرائیلی شیکل غزہ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے

اسرائیلی شیکل

یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی، اور روزمرہ کے لین دین کی بنیاد ہے۔

امریکی ڈالر

درآمدات، بین الاقوامی تجارتی لین دین، اور لگژری مصنوعات جیسے کاروں کی خریداری میں استعمال ہوتا ہے۔

اردنی دینار

روایتی طور پر شادی کا جہیز ادا کرنے، جائیداد یا زمین خریدنے، اور یونیورسٹی کی فیس اداکرنے جیسے کاموں میں اسے استعمال کیا جاتا ہے۔

جنگ کے اثرات

جب سے جنگ کا آغاز ہوا تب سے ہی اسرائیلی حکام غزہ کی پٹی کے لیے مختص ٹیکس محصولات فلسطینی مانیٹری اتھارٹی کو منتقل نہیں کر رہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس رقم سے حماسکی مالی امداد کی جاتی ہے۔

نومبر 2023 میں، فلسطینی وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ ’اسرائیل نے اس آڑ میں 600 ملین شیکل ماہانہ ٹیکس کی آمدنی کی کٹوتی کی ہے۔ اس رقم کے بڑے حصے میں تنخواہیں، ملازمین کی تقسیم اور غزہ کی پٹی کے دیگر سرکاریاخراجات شامل ہیں۔‘

سال کے آغاز میں اسرائیلی وزیر خزانہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایکبھی شیکل غزہ میں دیا گیاتو وہ فلسطینی اتھارٹی کو تمام ٹیکس محصولات سے محروم کر دیں گے۔ انھوں نے جنوری میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’ایک شیکل بھی غزہ میں داخل ہونےنہیں دیا جائے گا۔‘

غزہ چھوڑ کر رفح کراسنگ کے ذریعے جانے والے افراد کی جانب سے ایگزٹ فیس (باہر نکلنے کے انتظامات میں ادا کی جانے والی رقم)کی ادائیگی میں بھی کمیآئی ہے۔ یہ رقم اکثر کئی ہزار ڈالر فی شخص بنتے ہیں اور اس صورت حال نے غزہ کی پٹی میں ڈالرز کی سپلائی کو نمایاں طور پر ختم کر دیا ہے۔

خراب یا مسخ نوٹوں نے بھی نقدی کی قلت کو بڑھا دیا ہے۔ جنگ سے قبل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کے تحت خراب نوٹوں کو نئے نوٹوں میں تبدیل کیا جاتا تھا۔

تاہم جنگ ہونے کے بعد سے یہ عمل رک گیا ہے۔ ان بینک نوٹوں کو ناکارہ قرار دے دیا گیا ہے اورتاجر انھیں قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

بلیک مارکیٹ

نقدی ختم ہونے کے پوسٹر
BBC

محمد الکلوب نقدی کے حصول کے لیے بلیک مارکیٹ کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے۔

اس طریقے میں وہ 10 سے 20 فیصد کمیشن کے عوض ایک سٹور سے نقد رقم نکالتے ہیں تاہم ملازم محمود بکر اللوح کا کہنا ہے کہ نقد رقم کے حصول کایہ راستہ بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔

بہت سی دکانیں جو پہلے کمیشن کے بدلے میں نقد رقم نکالنے کی خدمات دیا کرتی تھیں، اب ان کی دکان کے سامنے جلی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ ’نقد رقم ختم ۔‘

محمود کہتے ہیں کہ ’جن لوگوں کے پاس نقد رقم موجود ہے وہ اپنے دوستوں کی مدد کر رہے ہیں۔‘

کمیشن لے کر نقد رقم فراہم کرنے والے احمد (فرضی نام ) سے بی بی سی نے بات کی۔

انھوں نے اپنے اکاؤنٹ سے 40,000 شیکل نکال کر دینے کے لیے اپنے ’نقصان‘ کی تلافی کے طور پر سروس مہیا کی۔

انھوں نے کہا کہ اس کے لیے 10 فیصد کمیشن ادا کرنا ہوگا۔ تاہم ان دنوں احمد اب صارفین کونقد رقم فراہم کرنے کے بدلے میں 13 فیصد کمیشن کاٹتا ہے۔

احمدکی کمائی بمشکل ان کی روزمرہ کی ضروریات کا ایک چھوٹا حصہ پورا کرتی ہے۔ لیکن بلیک مارکیٹ کا سہارا لینے والے غزہ کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ’بھتہ خوری‘ ان کی روزمرہ کی مشکلات کو مزید بڑھا رہی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.